جی این این سوشل

پاکستان

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن چیلنج

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون سمیت رولز میں ڈپٹی وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں، اسحاق ڈار کی تقرری کو کالعدم قرار دیا جائے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن چیلنج
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔

ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن چیلنج کرنے کی درخواست کل سماعت کے لیے مقرر کرلی گئی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کل درخواست پر سماعت کرے گا ، درخواست طارق منصور ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں وزیر خارجہ کو ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

درخواست میں وفاقی کابینہ، پرائم منسٹر سیکریٹریٹ، پرنسپل سیکریٹری ایوان صدر اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون سمیت رولز میں ڈپٹی وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں، اسحاق ڈار کی تقرری کو کالعدم قرار دیا جائے۔

کھیل

ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں، وزیر اعظم

کھلاڑیوں کو محکموں میں دوبارہ شامل کرنے کی پالیسی پر ایک ہفتے میں عملدرآمد کیاجائے، شہباز شریف

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں، وزیر اعظم

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ہاکی کاکھیل دوبارہ عروج حاصل کرے گا،ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسرنہیں چھوڑیں گے، کھلاڑیوں کو محکموں میں دوبارہ شامل کرنے کی پالیسی پر ایک ہفتے میں عملدرآمد کیاجائے۔

وزیراعظم ہائوس میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے والی قومی ہاکی ٹیم کے اعزازمیں تقریب سے خطاب کرتےہوئے شہباز شریف نے کہاکہ آج آپ کے سامنے مہمان خصوصی بن کر نہیں بلکہ آپ نے پاکستان کے نام کو ہاکی میدان میں بلند کرنے کے لئے دنیاکے سامنے جو شاندار کارکردگی پیش کی ہے اسے سراہنے کے لئے موجود ہوں۔ آج کی تقریب کے مہمان خصوصی قومی ہاکی ٹیم کے کپتان ، کھلاڑی ، فیڈریشن کے عہدیدار اور اولمپکس گیمزمیں حصہ لینے والے دوسرے کھلاڑی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتےہیں۔پوری قوم اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہماری ہاکی ٹیم ہاری نہیں جیتی ہے ۔ پچھلے ڈیڑھ دو عشروں میں پاکستان میں ہاکی کا کھیل انحطاط کا شکار رہا ۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کب وہ دن آئے گا جب پاکستان کے عوام آپ کی کارکردگی دیکھ کر صلاح الدین ، اختر رسول اور دوسرے مایہ نازکھلاڑیوں کو یاد کریں گے۔ ان عظیم کھلاڑیوں اور ہیروز نے پوری دنیا میں پاکستان کا پرچم بلند کیا۔

وزیراعظم نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہاکی کاکھیل دوبارہ عروج حاصل کرے گا۔میری خواہش ہے کہ ہاکی کے کھلاڑیوں کی کارکردگی ایسی ہو کہ ماضی کےہیروز آپ میں دکھائی دیں۔ ہاکی ٹیم کی مربوط کاوش آج رنگ لائی ہے، ہار جیت کھیلا کا حصہ ہے لیکن جس طریقے سے آپ نے مقابلہ کیا ہے وہ مستقبل میں جیت کی نوید ہے۔ شاندار کارکردگی پر ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں ، ان کے والدین ، کوچز اور منتظمین کو مبارکباد اور سلام پیش کرتاہوں۔ہاکی کے فروغ اور بحالی کے لئے وفاقی حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اس سلسلہ میں فیڈریشن اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر اقدامات کئے جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان مشکل حالات میں ہم نے ملکی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کیا۔ اس وقت ہم نے کرکٹ، ہاکی اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں کو محکموں میں شامل کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اب اس کو یقینی بنایا جائےگاکہ ہمارے ممتازکھلاڑیوں کو اداروں میں ملازمت کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ کھیل کے میدان میں پوری طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں اور انہیں وسائل کی کمی کاسامنا نہ ہو۔وزیراعظم نے وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ اور چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر اس پالیسی کااجرااور عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں، ایتھلیٹ ارشد ندیم اور پیرس اولمپکس کے لئےکوالیفائی کرنے والے رایفل شوٹنگ ٹیم میں چیک تقسیم کئے۔

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

از خود نوٹس :فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سپریم کورٹ طلب

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

از خود نوٹس :فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال سپریم کورٹ طلب

سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیصل واوڈا اور مصطفٰی کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر بھی بنچ کا میں شامل تھے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یانہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟۔ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں۔ لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے۔ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو مجھے کہیں، عدالت کو نہیں۔ وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں ا چھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں۔ باپ کے گناہ کی ذمے داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔ کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفافیت لانے کی کوشش کی، اپنے اختیارات کم کیے، بندوق اٹھانے والا اور گالی دینے والا کمزور ترین شخص ہوتے ہیں۔ جس کے پاس دلیل ختم ہو، وہ بندوق اٹھاتا ہے یا گالی دیتا ہے۔ ایک کمشنر صاحب اٹھے اور کہا میں نے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ بھئی بتاؤ تو سہی چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟۔ مذہب معاشروں میں ایسے الزامات نہیں لگائے جاتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرادے گا، میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو نوٹس جاری کرتے ہیں، دونوں کو بلا لیتے ہیں، ہمارے منہ پر آکر تنقید کر لیں۔

ریمارکس میں کہا کہ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے۔ جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے، وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا۔ غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں۔ اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کرتے ہوئے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ فیصل واوڈا نے بدھ کو پریس کانفرنس کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

سمز بلاک کرنے سے نہیں ،صرف نجی کمپنی کیخلاف کارروائی سے روکا،اسلام آباد ہائیکورٹ

سمیں بلاک کرنے سے متعلق نجی کمپنی کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حکم امتناع کے خلاف درخواست پر سماعت

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سمز بلاک کرنے سے نہیں ،صرف نجی کمپنی کیخلاف کارروائی سے روکا،اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے سمز بلاک کرنے سے نہیں روکا، صرف نجی کمپنی کے خلاف کارروائی سے روکا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سمیں بلاک کرنے سے متعلق نجی کمپنی کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حکم امتناع کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جی اٹارنی جنرل صاحب! آپ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیسے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موبائل سموں والا آرڈر تھا اس کا حکم امتناع خارج کروانا تھا، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میڈیا سے درخواست ہے کہ پچھلی بار کا آرڈر جو رپورٹ ہوا تھا وہ ایسے نہیں تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 144 مکمل جواب فراہم کرتا ہے جو ٹیکس سے متعلق ہے، جس کی آمدنی کم ہوگی ظاہر ہے وہ اپلائی بھی نہیں کرے گا، این ٹی این نمبر سے متعلق بھی چیزیں واضح ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ٹیکس نیٹ سے متعلق جو عام مزدور ہیں جس کا کھوکھا ہے ظاہر ہے وہ تو اس میں شامل نہیں ہوں گے؟

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جی بالکل ان کو تو نوٹس جائے گا ہی نہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ اگر کوئی ٹیکس دہندہ نہیں ہے اس کے نام پر سم اس کا بچہ یا بچی استعمال کر رہے ہیں تو اس کا کیا کریں گے؟ مزدور غریب آدمی کیا کرے گا جس نے خود کو رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی غریب کو نوٹس جائے گا ہی نہیں، نان فائلرز کو نومبر 2023 سے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں، اگر کوئی شخص نوٹس جاری ہونے کے بعد جب جواب جمع کروائے گا یا ایف بی آر کو مطمئن کرے گا تو سم ری سٹور ہو جائے گی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اس میں ڈر یہ ہوتا ہے کہ ایف بی آر والے ہر ایک کو اپنے لوپ میں لے لیتے ہیں، اب ہر بندہ جا جا کر بتاتا رہے کہ ایسا نہیں ہے، اب کون کون جائے گا ایف بی ار کے پاس کوئی رولز ریگولیشنز بھی تو دیں نا۔

اٹارنی جنرل نے ٹیکس سے متعلق مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کمپنی کی ممبرشپ کیا ہے، کمپنی میں کسی پاکستانی کے کتنے شیئرز ہیں؟ عدالت نے جو حکم امتناع جاری کیا اسے خارج کیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو آرڈر رپورٹ ہوا وہ ایسے نہیں تھا، سمز بلاک کرنے سے نہیں روکا صرف نجی کمپنی کے خلاف کارروائی سے روکا تھا، آپ کی درخواست پر نوٹس کر دیتے ہیں، سماعت کے لیے کب مقرر کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ میرا تو آج کل پتا نہیں ہوتا، کافی مقدمات ہیں، اگلے ہفتے 22 یا 23 مئی کی تاریخ دے دیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ مرکزی کیس 27 مئی کو مقرر ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پھر 27 مئی سے قبل کی کوئی اگلے ہفتے کی تاریخ دے دیں۔

عدالت نے سمیں بلاک کرنے سے متعلق نجی کمپنی کی درخواست کے خلاف متفرق درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ مین کیس تو 27 تاریخ کو مقرر ہے۔بعد ازاں عدالت نے حکومت کی متفرق درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے 22 مئی تک جواب طلب کرلیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll