جی این این سوشل

پاکستان

آڈیو لیکس کیس، ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی درخواستیں خارج ،پانچ ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی بی کی درخوست پر جواب طلب کرلیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

آڈیو لیکس کیس، ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی درخواستیں خارج ،پانچ ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں اپنے اوپر اٹھائے گئے اعتراض سے متعلق ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے پانچ ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا ، آئی بی کی درخوست پر جواب طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی درخواستوں پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عدالتی معاون اعتزاز احسن سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ عدالت نے آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ انٹیلیجنس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو نے منظوری دی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ اُن کا کوئی نام ہو گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ طارق محمود نام ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وہ خود پیش ہوں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئی بی، ایف آئی اے، پی ٹی اے سنجیدہ ادارے ہیں ان کی درخواستیں سن کر فیصلہ کیا جائے گا، انہوں نے درخواستیں دائر کیں اب میں انہیں سنوں گا، کس نے ان کو درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ درخواست کا متعلقہ حصہ پڑھیں جہاں مجھ پر اعتراض کیا گیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلیجنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا۔

جسٹس بابر نے کہا کہ اگر آپکی دلیل مان لی جائے تو حکومت کے خلاف کوئی کیس ہی نہیں سننا چاہیے، بعد ازاں عدالت نے پیمرا کی متفرق درخواست بھی 5 لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار ، بشریٰ بی بی اور وکیل لطیب کھوسہ کی آڈیو لیکس کیس کی درخواست اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی مبینہ آڈیو لیکس پر بننے والی پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کا نوٹیفکیشن چیلنج کرنے کی درخواست یکجا کرکے سماعت کررہے ہیں۔

دو روز قبل پیمرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے اور آئی بی نے آڈیو لیک کیس میں جسٹس بابر ستار کی علیحدگی کیلئے متفرق درخواست دائر کی تھی۔

پاکستان

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے پوچھے گئے سوالات پر جواب جمع کروادیا

جواب میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے  پوچھے گئے سوالات پر جواب جمع کروادیا

پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراضات کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرا دیا۔

پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف ایک رجسٹرد سیاسی جماعت ہے، جماعت نے 3 اپریل کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، پی ٹی آئی کے انفارمیشن سیکرٹری رؤف حسن نے جواب جمع کرائے، جواب میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف 208 اے کے تحت کارروائی نہیں بنتی۔ پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 اور 23 نومبر 2023 کو پارٹی انتخابات کرائے ہیں۔پی ٹی آئی متحرک جماعت کے طور پر موجود ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی شق نہیں کہ جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ ختم ہوا ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق پارٹی الیکشنز کرائے،انٹرا پارٹی الیکشنز کا طریقہ کار کنڈکنٹ آف الیکشنز سے آگاہ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس سرٹیفیکیٹ اور نشان روکنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے خلاف سیکشن 202 کے تحت کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔

الیکشن کمیشن کے اعتراضات بلاجواز ہیں،پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشنز پر 5 درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔ پی ٹی آئی کے خلاف انٹرا پارٹی الیکشنز نہ کرانے کا الزام درست نہیں ہے،پی ٹی آئی نے تین بار انٹرا پارٹی الیکشنز کرائے، جنرل باڈی کی منظوری کے بعد فیڈرل چیف الیکشن کمشنر اور چیف آرگنائزر کوتعینات کیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایوان میں قائد کی تصویر لگانے سے نہیں اس کے احکامات پر عمل سے ملک ٹھیک ہوگا، علی محمد خان

ہمیں کوئی بروکر، ڈیلر نہیں چاہئے جو ہمیں آپس میں بٹھائے ، رہنما پی ٹی آئی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایوان میں قائد کی تصویر لگانے سے نہیں اس کے احکامات پر عمل سے ملک ٹھیک ہوگا، علی محمد خان

پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ ایوان میں قائد کی تصویر لگانے سے نہیں اس کے احکامات پر عمل سے ملک ٹھیک ہوگا، ہمیں کوئی بروکر، ڈیلر نہیں چاہئے جو ہمیں آپس میں بٹھائے ۔

 قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم پر جان لیوا حملہ کس نے کیا یہ کس کی سکیورٹی کی ناکامی ہے، ایوان میں قائد کی تصویر لگانے سے نہیں اس کے احکامات پر عمل سے ملک ٹھیک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے پہلا نکتہ عمران اور دیگر اسیران کی رہائی ہے - وہ شخص جو وزیراعظم تھا اچانک اس پر 150 کیسسز کیسے بن گئے، راولپنڈی سے ملک کو مضبوط ہونا تھا اسی شہر میں لیاقت علی خان اور محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔

رہنما پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ملک میں کبھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے ،سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کو وزیر آباد میں چار گولیاں ماری گئیں، سابق وزیراعظم کو آج اڈیالہ جیل میں قید رکھا ہوا ہے۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسئلے ایسے حل نہیں ہونگے ،آزاد کشمیر میں کل جو ہوا وہ ہم دیکھنا نہیں چاھتے،ہمیں کوئی بروکر، ڈیلر نہیں چاہئے جو ہمیں آپس میں بٹھائے ،آج سچ بولنے کا وقت ہے، آج وقت ہے کہ سب سچ بولیں ،بانی پی ٹی آئی نے پاکستان کی ایک انچ زمین کسی کو دینے سے انکار کیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس جرم کی پاداش میں بانی پی ٹی آئی جیل میں پڑے ہوئے ہیں ،میں اپنے کالے کوٹ پر فخر کرتا ہوں،ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھنا چاہتا ہوں مجھ سے کون معافی مانگے گا   سیاسی جماعتیں مسائل کا حل نکالیں،پنڈی ضرور جائیں سری پائے کھانےجائیں ،گیٹ نمبر 4 سے پرہیز کریں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

اٹارنی جنرل آف پاکستان کی عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی تردید

تاثر دیا جارہا ہے کہ عدلیہ یا ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہیں، منصور اعوان

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اٹارنی جنرل  آف پاکستان کی  عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی تردید

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے کہا ہے کہا حکومت یا ریاستی ادارے کے کسی بھی افسر نے کسی قسم کا نہ براہ راست رابطہ کیا ہے، نہ وہ کرتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار کے خط پر درعمل دیتے ہوئے منصور اعوان کا کہنا تھا کہ آج کل تاثر دیا جارہا ہے کہ عدلیہ یا ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ ریاست کی کچھ حساس معلومات ہوتی ہیں، حساس معلومات کے حوالے سے اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل  رابطہ کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نہ حکومت نہ ہی ریاستی ادارہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے، ایسا تاثر  بنایا جا رہا ہے جیسے عدلیہ  اور ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں، درخواست کی گئی تھی کہ سرویلینس سے متعلق معاملات پر بریفنگ ان کیمرا کی جائے، بدقسمتی سے تاثر کچھ ایسا لیا گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ  پر کردیا  جائے ایسا نہیں تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ کمیونی کیشن کی، ایک خط لکھا، اس خط کی روشنی میں یا اس خط کے مندرجات رپورٹ کچھ اس طرح سے ہوئے جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کوئی مداخلت ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  ان جج صاحب کو ایک مخصوص کیس کے حوالے سے کوئی پیغام اس طرح کا گیا یا انہوں نے سمجھا یا کسی ایسے شخص کی طرف سے گیا جو نہیں جانا چاہیے تو میں نے سوچا کہ میں اس چیز کی وضاحت ضرور کردوں۔

منصور اعوان نے مزید کہا کہ خط لکھنے کا مقصد مداخلت نہیں ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے خط کا متن سوشل میڈیا پر بھی آیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں مداخلت کا تاثر دیا جارہا ہے۔ 

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آڈیولیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll