جی این این سوشل

تجارت

محکمہ ایکسائز کی پریمیئم نمبر پلیٹ اے ون 10 کروڑ میں نیلام

ق نیلامی کے پیسوں سے سیلاب زدگان کو گھر بنا کر دیں گے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

محکمہ ایکسائز کی پریمیئم نمبر پلیٹ اے ون 10 کروڑ میں نیلام
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

محکمہ ایکسائز کی پریمیئم نمبر پلیٹ اے ون 10 کروڑ میں نیلام، نیلامی کی تقریب کراچی کی مقامی ہوٹل میں کی گئی۔

پریمیم نمبر پلیٹس کی نیلامی کی تقریب مین اے ون کی نمبر پلیٹ 10 کروڑ روپے میں نیلام ہوئی شہری مزمل کریم نے نمبر پلیٹ 10 کروڑ روپے کی خریدلی۔ شرجیل انعام میمن نے مزمل کریم کو پلیٹ کا اونرشپ سرٹیفکیٹ دیا۔

پریمیئم نمبر پلیٹ 786 دو کروڑ 65 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی، سروش نامی بزنس مین نے 786 کی نمبر پلیٹ خریدی ہے۔ ناصر حسین شاہ نے سروش کو بھی نمبر پلیٹ کا اونرشپ سرٹیفکیٹ دیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پریمیم نمبر پلیٹس نیلامی کا مقصد الیٹ کلاس نہیں ایک نوبل کاز ہے،لوگ سونے اور دیگر چیزوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، پریمئم نمبر پلیٹس بھی ایک قسم کی سرمایہ کاری ہے۔

شرجیل انعام میمن کا مزید کہنا تھا کہ یو اے ای میں 14 ملین ڈالرز کی نمبر پلیٹ نیلام ہوئی، یو اے ای میں بھی یہ رقم چیئرٹی میں استعمال ہوتے ہیں، یو اے ای میں بھی یہ رقم چیئرٹی میں استعمال ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کے ویژن کے مطابق نیلامی کے پیسوں سے سیلاب زدگان کو گھر بنا کر دیں گے چیئرمین صاحب نے وزیر اعلی کو کہا کہ ہمیں لوگوں کو گھر بنا کر دینے ہیں۔

پاکستان

عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ

ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری انھیں نااہل قرار دینے کے لیے تھی،یو این انسانی حقوق ورکنگ گروپ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ انسانی حقوق ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری انھیں نااہل قرار دینے کے لیے تھی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے گروپ کی یہ رائے سابق وزیر ذلفی بخاری کی لاء فرم کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف اقوام متحدہ میں دائر پٹیشن پر سامنے آئی۔

یواین ورکنگ گروپ نے عمران خان کو دفاع کا حق فراہم نہ کیے جانے پر تشویش ک اظہار کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

ورکنگ گروپ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پٹیشن پر پاکستانی حکومت کا مؤقف جاننے کی کوششوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، شبلی فراز

بجٹ کے ذریعے پاکستانی عوام پر معاشی یلغار کردی گئی جس  کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، شبلی فراز

رہنما تحریک انصاف شبلی فراز نے کہا ہےکہ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی

رہنما تحریک انصاف شبلی فراز کا کنول شوذب کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، فارم 47 کی مہربانی سے وہ لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں جو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے، اس بجٹ کے ذریعے پاکستانی عوام پر معاشی یلغار کردی گئی جس  کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا،سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں بحران ہے،ہمیں تشویش ہے کیس کو کھینچا جا رہا ہے،پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے کہ یہ کیسے انتخابات ہوئے ہیں، کل یو این رپورٹ میں کہا گیا ہم اسے کیس سٹڈی بنائیں گے۔

رہنما تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی معیشت نیچے جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ صاف اور شفاف الیکشن نہ ہونا ہے، جب تک عوامی نمائندے پارلیمان میں نہیں بیٹھیں گے تب تک آئی ایم ایف آپ کے فیصلے کرے گی، آئی ایم ایف کو آپ سے کوئی ہمدردی نہیں، عوامی نمائندے آئیں گے تو عوام کا خیال رکھیں گے۔

رہنما تحریک انصاف کنول شوزب نے کہا کہ  الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی ہے، سب سے بڑی جماعت سے بلا چھینا گیا اور انہیں سیاسی جماعت ماننے سے انکار کیا گیا اور ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ ہم آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں۔پی ٹی آئی کا نام سُنتے ہی الیکشن کمیشن تلملانا شروع کردیتا ہے، آپ آنکھوں پر پٹی نہیں باندھ سکتے، 13 جنوری پر واپس جائیں اور دیکھیں اُس کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا رویہ تھا

ان کا کہنا تھا کہ جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو چاہے اٹارنی جنرل کھڑے ہوں یا الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کھڑے ہوں جو فرنچ زبان میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کرتے ہیں اورعدالت میں ان سے پاکستان کے منتخب ہونے والے نمائندوں تک کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔

کنول شوزب نے مزید کہا کہ جب ان سے سوالات ہوتے ہیں کہ کونسے فارمولے کے تحت انہوں نے یہ نشستیں اپنی مرضی سے پارٹی کو نشستیں دیں تو وہ  جواب نہیں دیتے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll