جی این این سوشل

پاکستان

مادر پدرآزادی؟

پر شائع ہوا

کی طرف سے

مادر پدرآزادی؟

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان
14اگست 2021ء بروز ہفتہ جب پوری قوم اپنا 75واں یوم آزادی منا رہی تھی‘ عین اسی وقت لاہور میں واقع گریٹر اقبال پارک میں مینار پاکستان‘ جو 23 مارچ 1940ء کو اسی مقام پر قراردادِ پاکستان کے منظور ہونے کی یاد تازہ رکھنے کیلئے بنایا گیا تھا، کے سایے تلے ایک خاتون ٹک ٹاکر کو سینکڑوں مرد کہلانے والے نوجوانوں نے جس طرح ہراساں کیا، حیوانیت کا نشانہ بنایا، غرضیکہ جس طرح سے عورت ذات کی تذلیل کی گئی اس کی ماضی میں کم از کم ہمارے معاشرے میں تو مثال نہیں ملتی۔
اس افسوسناک واقعے نے ملک میں نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 16 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک فوٹیج سامنے آئی جس میں مینار پاکستان کی سیڑھیوں پر ایک مجمع جمع ہے اور اس ہجوم میں ایک لڑکی چیخ و پکار کررہی ہے۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد لڑکی نے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی جس میں لڑکی نے بتایا کہ وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھی کہ اچانک وہاں پر موجود تین، چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے اُن پر حملہ کر دیا۔ درخواست کے مطابق لڑکی اور اس کے ساتھیوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اسی دوران گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد وہ اندر چلے گئے‘ لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ لوگ جنگلے پھلانگ کر ان کی طرف آئے اور کھینچا تانی کی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہجوم میں موجود لوگ لڑکی کو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے اور اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیے۔ عموماً اس طرح کے واقعات میں لڑکی کی شناخت چھپائی جاتی ہے، لیکن ویڈیو آنے کے اگلے ہی روز متاثرہ لڑکی خود ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سامنے آ گئی، اپنی شناخت ظاہر کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور نمناک آنکھوں سے سارا واقعہ بیان کر دیا۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اور یہ کالم تحریر کرتے ہوئے مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے بحیثیت مجموعی اس معاشرے کو پستیوں میں دھکیلنے کا سفر شروع کردیا ہو۔ کیا ہم من حیث القوم ذہنی طور پر بیمار ہوچکے ہیں؟ کیامعاشرے میں فرسٹریشن اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہم اپنی خوشیوں اور غم‘ دونوں حالتوں میں اپنی اقدار بھول جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے تو حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن کیا ہم اپنے آپ کو حیوان ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ معاشرہ ایسی اخلاقی پستی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس نے قوموں کی قومیں چاٹ لیں اور جو بچ بھی گئیں وہ معاشرتی معذوری کا شکار ہو گئیں۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ آگ ان کے گھر تک نہیں پہنچے گی یا یہ معاشرے میں ہونے والے اکا دکا واقعات ہیں تو ان سے صرف یہ کہنا ہے کہ بس انتظار کیجئے کہ آگ کسی کی نہیں ہوتی۔ جب معاشرے میں تفریح کے نام پر توڑ پھوڑ ہونا شروع ہو جائے‘ جس کی ایک مثال ہم نے مذکورہ بالا واقعہ میں ملاحظہ کی‘ تو پھر پورا سماج منہدم ہو جاتا ہے۔ کچھ باقی نہیں بچتا۔ بتایا گیا ہے کہ اس سے پہلے یہی ہجوم سی سی ٹی وی کیمرے توڑ چکا تھا‘ ایک کیبن اور موٹر سائیکل کو آگ لگا چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہے ہمارا تفریح کا معیار؟ کسی پارک میں ایک خوبصورت سا بنچ یا کوئی شو پیس لگا کر دیکھئے یا چھوڑیں‘ کسی پارک میں ایک خوبصورت کوڑا دان ہی لگا کر دیکھ لیں‘ اول تو آپ کو کوڑا اس کے اندر نہیں ملے گا‘ دوسرا یہ کہ چند ہی دنوں میں اس کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا جائے گا۔ دوسری طرف دیکھ لیں واقعہ فرانس، اٹلی یا کسی دور دراز کے ملک میں ہوا ہو تو بھی بجائے مہذب طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے ہم یہاں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کسی ریڑھی کو لوٹ لیں گے۔ کسی غریب کی دکان کے شیشے توڑ دیں گے‘ یا پھر سرکاری املاک کو نذر آتش کریں گے۔ میرے خیال میں اس ساری صورت حال میں حکومت کی جانب سے بھی مایوس کن رویہ دیکھنے میں آیا۔ حال یہ ہے کہ وزرا تک آنکھیں بند کر کے‘ معاملات اور حالات کا تجزیہ کئے بغیر‘ بنا سوچے سمجھے غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیتے ہیں۔ کیا خواتین کے لباس کے حوالے سے اور اس سے ملتے جلتے دیگر بیانات نے خواتین کے لیے عدم تحفظ کا ماحول بنانے میں کردار ادا نہیں کیا؟ دوسری طرف پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے ہر صوبے میں ''کمیشن برائے وقارِ نسواں‘‘ تو قائم ہے‘ لیکن ہیلپ لائن کے دفاتر کا مؤثر نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں مؤثر کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ اور تو اور پنجاب میں خواتین کے حقوق اور مسائل کے حل کے لیے قائم کی گئی ہیلپ لائن کے ٹیلی فون نمبرز بھی تادم تحریر بند ہیں‘ یعنی یہ ہیلپ لائن حکومتی کاغذوں اور فائلوں میں تو ضرور اپنا کام کر رہی ہو گی لیکن عملاً فعال نہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اشاریوں میں دنیا کے 156 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 153واں ہے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو 8 ملکوں میں پاکستان کا درجہ 7واں ہے۔ اس خطے میں صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے جہاں چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا راج رہا ہے۔
14 اگست کو پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں بلکہ خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات، ان کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کی کچھ اور ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں؛ اگرچہ ان ویڈیوز کو بنیاد بنا کر ملزموں کے خلاف مقدمات بھی درج کئے جا رہے ہیں لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا صرف مقدمات قائم کر کے ہی ہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روک سکتے ہیں؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کی گری ہوئی حرکتوں کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ بطور مسلمان کیا ہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس واقعے میں ملوث ملزموں کو تعزیرات پاکستان کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا مل سکتی ہے‘ لیکن کیا یہ سزا عبرت کا نشان بن کر مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہو گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس واقعے نے جس طرح سے ایک نئی بحث کو شروع کیا ہے اس میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا اس سارے معاملے میں خاتون ٹک ٹاکر کا کوئی قصورنہیں؟کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس خاتون کو اتنے رش میں اس طرح سے ویڈیو بنانے کے لیے عوامی مقامات پر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن کیا یہ سب توجیحات درست مان لینی چاہئیں؟ میرے نزدیک ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات میں اضافے کی بنیادی وجہ گھروں اور تعلیمی اداروں میں دینی اور اخلاقی تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا ایک شترِ بے مہار بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کا اَن چیکڈ استعمال اور اہل خانہ کی آپس میں بڑھتی دوریاں بھی ایسے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دینی مدارس میں بچوں کی ذہنی تربیت اور تھراپی کے لیے اقدامات کرے۔ تمام تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز کو اس بات کا پابند بھی بنایا جائے کہ وہ اپنے اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں کی اخلاقی تربیت پرخاص توجہ دیں۔
 
اس سے قبل یہ کالم 'روزنامہ دنیا' میں بھی شائع ہوچکاہے ۔
پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

لاپتہ افراد کا معاملہ ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا، وفاقی وزیر قانون

حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہے، اعظم نذیر تارڑ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا۔

 اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ میں ہماری افواج کے جوان شہید ہوئے، کئی بار کہا جاتا ہے حکومتیں سنجیدہ نہیں اس لیے مسنگ پرسن کا مسئلہ حل نہیں ہورہاہے، لاپتہ افراد کیلئے ہماری حکومت نے بہت کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں میں بھی اس مسئلے پر کیا کام کیا گیا ، دوبارہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کام کیا جارہا ہے، ہماری حکومت کی اس مسئلے پر سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا پہلی بار معاملہ پیپلزپارٹی کے دور میں اٹھایا گیا، لاپتہ افراد کے دس ہزار دوسو کیسز کمیشن میں گئے ہیں۔ نگران حکومتوں کے اختیارات محدود تھے، ان کے دور میں قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ لاپتہ افراد کے متعلق سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، لاپتہ افراد کا معاملہ2011 میں اٹھایا گیا پھر اس مسئلہ پر کمیشن بھی بنایا ، کمیشن میں بلوچ رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ انتظامی امور کا ہے،چار دہائیوں نے پاکستان حالت جنگ میں ہے ،دہشت گردی اور اندرونی معاملات سے ملک کے حالات پیچیدہ کردیئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا، نفرت،منافقت اورتقسیم کا بیانیہ مسترد ہوچکا ہے، جو ووٹر تحریک انصاف کی طرف تھا وہ جھوٹے بیانیے کی وجہ سے انحراف کرگیا۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک ترقی کی طرف جارہا ہے، ہر روز سٹاک مارکیٹ نیا ریکارڈ قائم کررہی ہے، ملک میں سرمایہ کاری آرہی ہے،عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان مہنگائی میں کمی کرے گا، ملک کی ترقی کیلئے حکومت تمام اقدامات اٹھارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی ذات کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، پاکستان سب سے پہلے ہے تمام سیاسی جماعتیں بعد میں ہیں، جیل سے سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جھوٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کے خلاف باتیں کرنا اب ماضی کا قصہ بن چکا، بشریٰ بی بی کی صحت پر بات کی جاتی ہے تو شفا سے بہتر ہسپتال کون سا ہے، بشریٰ بی بی کی فلور کلینر والی بات مضحکہ خیز تھی، بشریٰ بی بی کی صحت پر کوئی تحفظات ہیں تو کھل کر بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے جھوٹی مہم چلائی جارہی ہے کہ بشریٰ بی بی  کی زندگی کو خطرہ ہے، یہ لوگ کبھی دفاعی اداروں تو کبھی سپہ سالار کے خلاف بات کرتے ہیں۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے میں 800ارب روپے کا خسارہ موجود ہے، حکومت ٹیکس ریفارمز ،ایف بی آر کو ڈیجیٹائز کرنے جارہی ہے، معیشت کو لے کر تمام اعشاریے مثبت ہیں، ہم نے یہ حالات بدلنے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، عمران خان

جمہوریت قانون کی بالادستی اور شفاف الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جمہوریت قانون کی بالادستی اور شفاف الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے، پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پولیس نے مداخلت کی،خیبرپختونخوا میں بھی الیکشن ہوئے پولیس نے کہیں کوئی ایف ائی آر نہیں کاٹی اور نہ ہی دھاندلی ہوئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ملک میں ادارے آئینی طور پر نہیں چل رہے صرف طاقتور کی حکمرانی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاری کریں تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی، بیرون ملک مقیم پاکستانی یہاں پیسہ اس لیے نہیں لگاتا کہ اس کو کوئی تحفظ نہیں، مستحکم حکومت کے لیے جمہوریت ضروری ہے جو صرف شفاف انتخابات کے ذریعے ممکن ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں کوئی جمہوریت نہیں یہ آٹھ فروری سے ڈرے ہوئے تھے، اکتوبر سے فروری تک انتخابات صرف پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لیے ملتوی کیے گئے، سپریم کورٹ میں بھی ہماری پٹیشن اس لیے نہیں سنی گئی کہ وہ بھی پی ٹی آئی کے کرش ہونے کا انتظار کررہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا نام و نشان ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا، ملک میں اخلاقیات کو ختم کر کے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا، پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ملک کا موجودہ سیٹ اَپ پاکستان کے فیوچر کو نقصان پہنچا رہا ہے، مجھ سے ڈیل کی نہ کسی نے کوئی بات کی نہ کوئی پیغام آیا، سوال یہ ہے کہ وہ مجھ سے کس بات پر ڈیل کریں گے؟ آٹھ فروری کو جب عوام ایک طرف کھڑی ہو گئی تو وہ وقت تھا بات کرنے کا ملک کی عوام ایک طرف کھڑی ہو جائے تو کیا اس سے کوئی جیت سکتا ہے؟

عمران خان نے کہا کہ عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اپنے عوامی نمائندے کا انتخاب بنیادی حق ہے جو کہ عوام سے چھین لیا گیا ہے، میری بیوی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن اسے سزا دلوا کر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ہے، میری تینوں بہنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، مریم نواز اور بے نظیر سیات دان ہیں مگر میری اہلیہ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اچھے تھے اسی لیے ہمارے دور میں او آئی سی فارن منسٹر کانفرنس ہوئی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پاکستان کے سیاحتی شعبے کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے، صدر مملکت

صدر زرداری سے ایئر ایشیا ایوی ایشن گروپ کے وفد سے ملاقات

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

صدر مملکت آصف علی زرداری نے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے فضائی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی روابط بڑھا کر پاکستان کے سیاحتی شعبے کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

ایوان صدر میں ایئر ایشیا ایوی ایشن گروپ کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے، ملک میں سیاحت بالخصوص مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ سرمایہ کار پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے مواقع سے مستفید ہوں۔ وفد نے صدر مملکت کو ایئر ایشیا ایوی ایشن گروپ اور اس کے فلائٹ آپریشنز کے بارے میں بتایا۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll