جی این این سوشل

جرم

نواز شریف کی واپسی اور تبدیلی سرکار

پر شائع ہوا

کی طرف سے

برطانیہ کے شہر لندن کو پاکستانی سیاست میں ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حکومت پیپلزپارٹی کی ہو، مسلم لیگ ن کی یا پھر جنرل پرویز مشرف کی، پاکستانی سیاستدانوں خصوصاً اپوزیشن رہنمائوں کا مسکن کسی نہ کسی وجہ سے لندن ہی رہا ہے۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

 محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جلاوطنی کا زیادہ عرصہ لندن میں گزارا۔ اسی طرح 1999ء میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد شریف خاندان بھی پہلے سعودی عرب اور پھر لندن میں مقیم رہا۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وطن عزیز میں جب تحریک انصاف کی حکومت بنی اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ایک عدالتی فیصلے کے بعد جیل بھیج دیا گیا تو جیل میں ان کے سزا کاٹنے کے دوران ہی یہ خبر آئی کہ وہ شدید علیل ہیں۔ ان کو علاج کی غرض سے سروسز ہسپتال لاہور میں منتقل کر دیا گیا۔ تب مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور خود حکومتی عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آنے لگے کہ سابق وزیراعظم نہ صرف شدید علیل ہیں بلکہ اگر ان کو علاج کے لیے بیرون ملک نہ بھجوایا گیا تو خدانخواستہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں سرکاری ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر میڈیا کو میاں صاحب کی صحت سے متعلق بریفنگ بھی دی جاتی رہی۔ پھر نومبر 2019ء میں ایک ایئرایمبولینس کے ذریعے نواز شریف کو ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اور ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان علاج کی غرض سے لندن لے گئے۔ یہ سارا عمل وزیراعظم کی منظوری سے ہوا اور علاج کے بعد میاں نواز شریف سے وطن واپس آنے کی گارنٹی بھی لی گئی۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف نے گارنٹی پیپر پر دستخط کئے تھے۔

میاں نواز شریف لندن تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے الزامات سے بھرپور سیاست کا ایک نیا پنڈورا باکس کھول گئے۔ حکومت نواز شریف کو لندن جانے سے تو نہ روک سکی؛ البتہ نواز شریف کی بیماری سے متعلق مختلف وزرا کی طرف سے مختلف نوعیت کے تبصرے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اور تو اور خود وزیراعظم عمران خان ہر جلسے اور ہر میڈیا ٹاک میں نواز شریف کو جھوٹا اور بھگوڑا قرار دینے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ ان کی جانب سے بارہا یہی موقف دہرایا جاتا رہا کہ نواز شریف جھوٹی رپورٹس بنوا کر اور جعلی بیمار بن کر ملک سے فرار ہوئے۔ اب وزیراعظم اور ان کے رفقا سے کون یہ پوچھے کہ جناب پنجاب میں حکومت بھی آپ کی، وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار بھی آپ کے، وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کا تعلق بھی آپ ہی کی پارٹی سے اور پھر ہسپتال بھی سرکاری، ڈاکٹر اور وہاں پر تعینات دیگر عملہ بھی سرکاری تو ایسے میں اگر میاں نواز شریف جعلی رپورٹس بنوا کر یا پوری ''سرکاری مشینری‘‘ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن چلے گئے تو پھر ذمہ داری تو بطور وزیراعظم ''جناب والا‘‘ آپ کی بنتی ہے۔

پھر حکومت کی جانب سے یہ کہا جانے لگا کہ سابق وزیراعظم اور عدالتی سزا یافتہ میاں نواز شریف کو واپس پاکستان لایا جائے گا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر اس ضمن میں برطانوی حکومت کو خط بھی لکھے گئے‘ لیکن نہ تو ان خطوط کا کوئی خاطر خواہ جواب ملا اور نہ ہی میاں نواز شریف کو واپس پاکستان لایا جاسکا۔ گزشتہ جمعرات کی شام لندن سے خبر آئی کہ ویزہ کی مدت ختم ہو جانے پر برطانوی محکمہ داخلہ نے نواز شریف کے لندن قیام میں توسیع کی درخواست مسترد کردی ہے۔ سابق وزیراعظم کا ویزہ تاحال قانونی قرار دیا گیا‘ لیکن ان کی طرف سے برطانوی محکمہ داخلہ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔ برطانوی ماہرین قانون کے مطابق اس اپیل کا فیصلہ ہونے میں ڈیڑھ سے 2 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ امیگریشن ٹربیونل کی طرف سے اگر یہ اپیل خارج بھی کر دی جائے تو پھر ان کے پاس لندن ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا آپشن موجود ہے۔

ماہرین قانون اور امیگریشن کے ماہرین نے اب تک یہ بات تو واضح کر دی ہے کہ نواز شریف کی برطانیہ میں ویزہ توسیع کی درخواست مسترد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پرسوں ہی لاہور کا ٹکٹ کٹا کر اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کر دیں گے۔ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جس کے طے شدہ مراحل ہیں اور یہ مراحل دنوں‘ ہفتوں میں نہیں بلکہ مہینوں اور بعض اوقات سال سے زائد بھی وقت لے لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے لندن قیام میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کی خبر نے پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی۔ حکومتی وزیروں اور مشیروں کو تو جیسے نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لینے کا ایک اور موقع مل گیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''نواز شریف بیمار نہیں، انہوں نے جھوٹ بول کر ویزہ لیا، وہ پاکستانی سفارت خانے جا کر عارضی سفری دستاویزات حاصل کریں، پاکستان واپس آئیں اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کریں، نواز شریف جس طرح برطانیہ میں گھوم پھر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بیمار نہیں، ویزہ درخواست میں توسیع کے لیے اگر وہ جھوٹ بولیں گے تو برطانوی عدالتوں سے انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے‘‘۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ''نواز شریف برطانیہ میں ایکسپائرڈ پاسپورٹ کے ساتھ بھگوڑے بن کر بیٹھے ہیں‘ واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں، شرم کی بات ہے کہ ملک کا سابق وزیر اعظم مفرور ہے، انہیں واپس آ کر سیدھا جیل جانا چاہئے‘‘۔

مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کا کہنا ہے ''سیاسی پگڑیاں اچھالنے والے پاکستان کی پگڑی نہ اچھالیں تو مہربانی ہو گی۔ 3 بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی زندگی پر سیاست بے حسی اور غیر انسانی رویہ ہے۔ قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر کر دی گئی ہے‘ اپیل پر فیصلہ ہونے تک نواز شریف قانونی طور پر لندن میں قیام کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کو لندن بھجوانے کا فیصلہ حکومت کا تھا۔ ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ یہ فیصلہ بھی سرکاری بورڈ کا تھا‘ ڈاکٹر جب اجازت دیں گے تو نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے‘‘۔

سب کو یاد ہو گا کہ جب نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کیا گیا تھا تو اس وقت بھی بڑا شور اٹھایا گیا تھا‘ لیکن پھر یہ معاملہ بھی دب گیا کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں ایک مجوزہ مسودہ تیار کیا گیا تھا؛ تاہم اس پر عمل درآمد پراتفاق نہیں ہو پایا۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ کے دورے کے دوران وہ اپنے برطانوی ہم منصب سے ملاقات کر کے نواز شریف کو وطن واپس لانے کا مطالبہ کریں گے؛ تاہم ابھی تک انہیں اپنے برطانوی ہم منصب کی طرف سے برطانیہ کے دورے کی دعوت ہی نہیں ملی۔

سیاست دان کی سیاست اس وقت خطرے میں پڑتی ہے جب وہ اپنی حکمت عملی کے بجائے اپنے حریف کی بتائی چالوں پر چلنا شروع کر دے اور نواز شریف کو اس بات کا بہت اچھے طریقے سے اندازہ ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کی پاکستان واپسی ایک ''ترپ‘‘ کا پتہ ہے اور یہ پتہ وہ اپنی شرائط پر ہی کھیلیں گے‘ نہ کہ اپنے کسی سیاسی حریف کی خواہش پر۔ نواز شریف کی وطن واپسی کا موزوں وقت وہی ہے جب ملک میں انتخابات کا ماحول بن چکا ہو ایسے میں ان کی واپسی انہیں بھرپور سیاسی فائدہ پہنچا سکتی ہے‘ اور مقتدر قوتوں کے ساتھ معاملات بہتر انداز میں طے کرنے کی پوزیشن میں لا سکتی ہے۔

اس سے قبل یہ کالم    'روزنامہ دنیا ' میں بھی شائع ہوچکاہے ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

لاپتہ افراد کا معاملہ ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا، وفاقی وزیر قانون

حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہے، اعظم نذیر تارڑ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا۔

 اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عطا تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ میں ہماری افواج کے جوان شہید ہوئے، کئی بار کہا جاتا ہے حکومتیں سنجیدہ نہیں اس لیے مسنگ پرسن کا مسئلہ حل نہیں ہورہاہے، لاپتہ افراد کیلئے ہماری حکومت نے بہت کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں میں بھی اس مسئلے پر کیا کام کیا گیا ، دوبارہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کام کیا جارہا ہے، ہماری حکومت کی اس مسئلے پر سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا پہلی بار معاملہ پیپلزپارٹی کے دور میں اٹھایا گیا، لاپتہ افراد کے دس ہزار دوسو کیسز کمیشن میں گئے ہیں۔ نگران حکومتوں کے اختیارات محدود تھے، ان کے دور میں قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ لاپتہ افراد کے متعلق سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، لاپتہ افراد کا معاملہ2011 میں اٹھایا گیا پھر اس مسئلہ پر کمیشن بھی بنایا ، کمیشن میں بلوچ رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ انتظامی امور کا ہے،چار دہائیوں نے پاکستان حالت جنگ میں ہے ،دہشت گردی اور اندرونی معاملات سے ملک کے حالات پیچیدہ کردیئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا، نفرت،منافقت اورتقسیم کا بیانیہ مسترد ہوچکا ہے، جو ووٹر تحریک انصاف کی طرف تھا وہ جھوٹے بیانیے کی وجہ سے انحراف کرگیا۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک ترقی کی طرف جارہا ہے، ہر روز سٹاک مارکیٹ نیا ریکارڈ قائم کررہی ہے، ملک میں سرمایہ کاری آرہی ہے،عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان مہنگائی میں کمی کرے گا، ملک کی ترقی کیلئے حکومت تمام اقدامات اٹھارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی ذات کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، پاکستان سب سے پہلے ہے تمام سیاسی جماعتیں بعد میں ہیں، جیل سے سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جھوٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کے خلاف باتیں کرنا اب ماضی کا قصہ بن چکا، بشریٰ بی بی کی صحت پر بات کی جاتی ہے تو شفا سے بہتر ہسپتال کون سا ہے، بشریٰ بی بی کی فلور کلینر والی بات مضحکہ خیز تھی، بشریٰ بی بی کی صحت پر کوئی تحفظات ہیں تو کھل کر بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے جھوٹی مہم چلائی جارہی ہے کہ بشریٰ بی بی  کی زندگی کو خطرہ ہے، یہ لوگ کبھی دفاعی اداروں تو کبھی سپہ سالار کے خلاف بات کرتے ہیں۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے میں 800ارب روپے کا خسارہ موجود ہے، حکومت ٹیکس ریفارمز ،ایف بی آر کو ڈیجیٹائز کرنے جارہی ہے، معیشت کو لے کر تمام اعشاریے مثبت ہیں، ہم نے یہ حالات بدلنے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی لاہور کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کراچی پہنچ گئے

گورنر کامران ٹیسوری اور وزیراعلی مراد علی شاہ نے ان کا استقبال کیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی لاہور کا دورہ مکمل کرنے کے بعد کراچی پہنچ گئے، گورنر کامران ٹیسوری اور وزیراعلی مراد علی شاہ نے ان کا استقبال کیا،ایرانی صدر نے مزار قائد پر حاضری دی۔

ایرانی صدرابراہیم رئیسی خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور سے کراچی پہنچ پہنے، طیارے نے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا،

گورنر سندھ کامران ٹیسوری، وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ، محترمہ آصفہ بھٹو، عذراپیچوہو، شرجیل میمن اور ناصرشاہ نے ایرانی صدر کا استقبال کیا۔

ایئرپورٹ سے ایرانی صدرابراہیم رئیسی گورنرہاؤس پہنچ گئے، جہاں ان کی گورنرسندھ کامران ٹیسوری اور وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات ہوئی، ملاقات کے دوران مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

گورنر ہاؤس سے ایرانی صدر قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی، انہوں نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی، صدر ابراہیم رئیسی نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات قلم بند کیے

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور گورنرسندھ کامران ٹیسوری بھی ہمراہ تھے جبکہ سندھ کابینہ کے ارکان بھی مزار قائد پر موجود تھے۔

بعدازاں ایرانی صدرابراہیم رئیسی وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے، وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایرانی صدر کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی ہے، تقریب میں ابراہیم رئیسی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے گا جبکہ ایرانی صدر کی اہلیہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کریں گی۔

ایرانی صدر منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی میں قیام کریں گے، بدھ کی صبح ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی سے روانہ ہوجائیں گے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

ملائیشیا میں 2 فوجی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے، 10 افراد ہلاک

ایک ہیلی کاپٹر میں7 اہلکار اور دوسرے میں 3 افراد سوار تھے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملائیشیا کی ریاست پیراک میں 2 فوجی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے۔ جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوگئے۔ 
رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کی بحری فوج نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر مقامی وقت کے مطابق منگل کی صبح 9 بجکر 32 منٹ پر ضلع منجونگ کے ساحلی علاقہ لوموٹ کی رائل ملائیشین نیوی بیس پر فلائی پاسٹ کی ریہرسل کے دوران ٹکرا نے کے بعد گر کر تباہ ہو گئے۔
 بیان میں بتایا گیا کہ ایک ہیلی کاپٹر میں7 اہلکار اور دوسرے میں 3 افراد سوار تھے۔ حادثے کے باعث دونوں ہیلی کاپٹرز میں سوار 10 افراد ہوئے جن کی نعشیں شناخت کے لیے ہسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll