جی این این سوشل

پاکستان

ڈالر سستا ، عام آدمی کو کیا ملا ؟

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ڈالر سستا ،مہنگائی برقرار ، عام آدمی کو کیا ملا؟

طاہر ملک Profile طاہر ملک

پاکستان میں عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور ڈالر سستا ہونے پر عام آدمی کے لئے ضروریات زندگی کی اشیا سستی ہو جاتی ہیں۔ مگر اس خیال کے برعکس پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ چند ماہ میں ڈالر کی قیمت 168 روپے سے 153 ہو گئی ہے۔ پاکستانی روپے میں 15 روپے کے بعد بھی نہ تو اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے نہ نمایاں طور پر پیٹرول، گیس اور بجلی کی قئمتوں میں کمی آئی ہے۔ عوام کو اتنی بڑی خبر کے بعد بھی کوئی ریلیف کیوں نہیں ملا؟

یہ وہ سوال ہے جو بےشمار افراد کے دماغ میں گھوم رہا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ملکی معیشت چاروں اطراف سے منصوبہ بندی کی کمی، مہارت کے فقدان اور ٹیم ورک نہ ہونے سے دن بدن مشکلات کی طرف جا رہی ہے۔ عام آدمی کے لئے مہنگائی کے خاتمے اور روزگار کے مواقع کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔

معاشی ترقی پر حکومت خود غلط فہمی کا شکار ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ کے پاکستان کی جی ڈی پی اس سال 4 فیصد گروتھ کرے گی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے مطابق ڈیڈھ فیصد اور ورلڈ بنک کے مطابق اس سے بھی کم گروتھ ہو گی۔ اس کے ساتھ پاکستان کی آبادی ڈھائی فیصد سالانہ سے بڑھ رہی ہے۔

یوں جی ڈی پی ہر صورت منفی میں جائے گی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کو کم از کم 6 فیصد گروتھ کی ضرورت ہے۔ اور ایسا نہ ہونے سے آئیندہ سال 30 لاکھ کے قریب پاکستانی بےروزگار ہو سکتے ہیں۔

یوں یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مسئلہ ڈالر کی قدر کم ہونے سے حل نہیں ہو گا۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے اور اس حوالے سے وہ کتنے مضبوط ارادے اور تیاری سے کام کر رہی ہے۔ ابھی تک کے حالات اسی بات کے گواہ ہیں کہ معاشی سمت، معاشی منصوبہ بندی اور ہوم ورک کچھ دکھائی نہیں دے رہے۔

ارسطو اسد عمر سے بات شروع ہوئی کہ ان کے وزیر خزانہ بننے کے ساتھ ہی معیشت کی تقدیر بدل جائے گی۔ پھر پتہ چلا کہ آئی ایم ایف سے آئے حفیط شیخ اور موجودہ گورنر سٹیٹ بنک کے پاس جادو کی چھڑی ہے جس سے ملکی معیشت زندہ ہو جائے گی۔ اب یہ ذمہداری حماد اظہر کی ہے اور شوکت ترین راستے میں ہیں۔ جس سے حکومت کی معاشی سمت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی معاشی جان کاٹن اور ٹیکسٹائل میں تھی۔ کپاس کی درآمد کا مسئلہ ڈالر کا حصول تھا۔ کپاس کی فصل بہت کم پانی سے تیار ہوتی ہے اور ڈالر کماتی ہے۔  ہمارے حکمرانوں کی مہربانی سے اس وقت 30 برسوں میں سب سے کم کپاس کی پیداوار ہوئی ہے، جو کہ 40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ناقص حکمرانی سے 212 سرکاری اداروں میں سے 197 نقصان میں چل رہے ہیں۔ صرف اکیلی سٹیل ملز کے قرضے اور نقصانات 480 ارب روپے ہیں اور پی آئی اے کے ذمے 430 ارب کے قریب قرضوں کا بوجھ ہے۔ حکومتی ناقص پالیسیوں سے حکومت گیس، پیٹرول  اور بجلی مہنگا کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ 140 ارب روپے کی سبسڈی ختم کر کے عوام پر یہ بوجھ بھی ڈال دیا جائے گا۔

اشیاخورد نوش، جن میں چینی، گندم کے ساتھ کپاس شامل ہے،کی درآمد میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ زراعت کا شعبہ تباہی کے دھانے پر ہے۔ ڈی اے پی کھاد کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ کھاد کی بوری 2018 میں 2200 روپے اور 2020 میں 3467 روپے اور اب 2021 میں 5137 روپے ہے جس کا مطلب اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں۔

مجبور حکومت نے اس سال میں بجلہ کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ایک ہزار ساٹھ ارب اضافے کمانے ہیں۔قرضوں سے ملک چلایا جا رہا ہے۔

1970 میں کل قرضہ 3۔5 ارب ڈالر تھا جو 2018 میں 93 ارب ڈالر اور 2021 میں 110 ارب تک پہنچ چکا ہے ۔ 4000 ارب روپے بجٹ کا خسارہ ابھی سامنے ہے جس کا حل بھی مزید قرضے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ڈالر کی قدر کم کر کے عوام کو کچھ نہیں ملا نہ ملے گا ۔اس کے لئے بنیادی ضروریات زندگی بجلی گیس پٹرول کا سستا کرنا اور اشیا خوردنوش کی قیمتوں میں کمی دیں ۔عام آدمی کے یہ مسائل ہیں اس کا ڈالر کی قدر میں اضافے یا کمی سے کیا لینا اور دینا ہے۔

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

امریکہ کی غزہ مخالف پالیسی پر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مستعفی

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ 18 سال کی خدمت کے بعد میں امریکہ کی غزہ پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیتی ہوں

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کی عربی ترجمان ہالا ریرت نے غزہ پالیسی کے تنازع پر استعفیٰ دے دیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی عربی زبان کی ترجمان ہالا ریرت نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں پر واشنگٹن کے موقف سے اختلاف کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ذمہ دارے سے   استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ فلسطینیوں اور غزہ سے متعلق امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج میں تیسرا استعفیٰ ہے۔


ریرت دبئی ریجنل میڈیا ہب کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہیں، تقریباً دو دہائیوں سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ تھی، سیاسی اور انسانی حقوق کے افسر کے طور پر شروع ہوئے۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ 18 سال کی خدمت کے بعد میں امریکہ کی غزہ پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیتی ہوں ۔ 


ایک پریس بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے بتایا کہ محکمہ کے اندر حکومتی پالیسیوں پر اختلافی خیالات کا اظہار کرنے کے مواقع موجود ہیں۔

یہ استعفیٰ بیورو آف ہیومن رائٹس اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے حالیہ استسنا کے بعد دیا گیا ہے، جس میں غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کے لیے امریکی حمایت پر اندرونی اختلاف کو اجاگر کیا گیا ہے۔


امریکہ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس کے موقف پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے اندر گہرے اختلافات کی عکاسی کرتے ہوئے اندرونی بات چیت کے ساتھ جنگ ​​بندی کی کالیں کی گئی ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ہیومن رائٹس کانفرنس میں فلسطین کی آزادی پر جرمن سفیر سے سوال

عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے بعد 2018 میں شروع ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی جیسے اہم مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی میراث کو عزت دینا ہے

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

لاہور: لاہور میں ہیومن رائٹس  کی کانفرنس کے دوران جرمن سفیر الفریڈ گراناس کو فلسطینیوں کے حقوق پر جرمنی کے موقف کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک طالب علم کی طرف سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سٹوڈنٹ کےسوال  نے سامعین سے "آزاد، آزاد فلسطین" کے نعروں کو جنم دیا۔
اس واقعے کے بعد پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو نے سفیر کی سمجھی جانے والی بے حسی پر تنقید کی۔ جرمن سفیر الفریڈ  گراناس نے بعد میں اپنی تقریر دوبارہ شروع کی،انہوں نے  بنیادی حقوق میں انسانی وقار کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔


یاد رہے کہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال کے بعد 2018 میں شروع ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی جیسے اہم مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی میراث کو عزت دینا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

یوکرین کے چار پاور پلانٹس پر روسی میزائل حملے

یوکرین کے حکام کے مطابق روس نے گزشتہ شب بڑے پیمانے پر میزائل حملوں میں توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

روس نے بڑے پیمانے پر یوکرائن کے 4 پاور پلانٹس پر میزائل حملے کر دیئے۔ روس نے میزائل حملوں میں توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ روس کا حالیہ مہینوں میں یوکرینی پاور اسٹیشنز پر چوتھا فضائی حملہ ہے۔

یوکرینی دارالحکومت کیف میں حکام نے بتایا ہے کہ روس کی جانب سے گزشتہ شب کے دوران  میزائلوں کے بڑے پیمانے پر کیے گئے حملوں میں چار ملکی پاور پلانٹس کو نقصان پہنچا ہے۔

ماسکو نے گزشتہ کچھ مہینوں میں یوکرینی توانائی کی تنصیبات پر حملے تیز کر دیے، جس سے بجلی کی پیداوار میں رکاوٹ اور ملک گیر بلیک آؤٹس دیکھے جا رہے ہیں۔

یوکرینی فوج کے تازہ بیان کے مطابق روسی مسلح فورسز نے یوکرین کے انرجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، خاص طور پر یورپی یونین کی سرحد سے منسلک مغربی علاقے میں واقع ایوانو فرانکیوسک، اور لییف میں حملے کیے۔ یوکرینی ایئر فورسز نے مزید بتایا کہ ماسکو کی جانب سے 34 میزائل فائر کیے گئے، جس میں سے انہوں نے 21 مار گرائے۔

علاوہ ازیں یوکرینی دارالحکومت کیف کے حکام کا کہنا ہے کہ ماسکو نو مئی سے قبل اپنے فضائی اور زمینی حملے تیز کر رہا ہے جب وہ دوسری عالمی جنگ میں فتح کا جشن منائے گا۔ اس دوران یوکرین بھی اہم امریکی ہتھیاروں کی آمد کا انتظار کر رہا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll