جی این این سوشل

پاکستان

امریکہ، چین اور "Absolutely Not"

پر شائع ہوا

کی طرف سے

"Absolutely Not" پچھلے چند دنوں میں ان دو الفاظ کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے کافی چرچا رہا ہے۔ 'افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کیسے ہوں گے؟‘ یہ الفاظ اس تناظر میں کافی اہم ہیں۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد کیا سوچ رہا ہے؟ اس خطے میں امریکی ترجیحات کیا ہوں گی؟ اس تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن کا ایک مختصر سا بیان بھی اہم ہے۔ہفتے کے روز جب میڈیا نمائندوں نے ان سے افغانستان کے بارے میں سوال کیا تو امریکی صدر نے کہا کہ کچھ اچھی بات کریں‘ یعنی اب امریکہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ ہی ختم نہیں کر رہا بلکہ اب اس کو اس کا ذکر بھی گوارا نہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں عدم استحکام اور تشدد میں اضافے کا خدشہ بھی مسلسل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ طالبان افغانستان کے مختلف صوبوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے جا رہے ہیں۔

اس بدلتی صورت حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کیا سوچ رہی ہے؟ پیر کے روز وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کا ایک روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کی اہم بات وزیر اعظم کی تقریر تھی‘ جس میں انہوں نے تین نکات کو واضح انداز میں اجاگر کیا۔ انہوں نے اپنے مشرقی ہمسائے بھارت کا ذکر کیا اور کہا کہ بھارت افغانستان میں سب سے بڑا لوزر ہے۔ بھارتی انتظامیہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں یقینا اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتی ہے تاکہ خطے میں ایک اہم ملک اس کا اتحادی بنے اور پاکستان کے لیے مشکلات بڑھائی جا سکیں؛ تاہم وزیراعظم پُرامید نظر آئے کہ بھارت افغانستان میں کچھ حاصل نہیں کر رہا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ افغانستان کی صورت حال پر تذبذب کا شکار ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان مدنظر رکھیں تو بات کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ 'سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے‘ والی صورت حال بن رہی ہے۔ امریکہ نے جس طرح بگرام کا سب سے بڑا فضائی اڈہ راتوں رات خالی کیا یہ بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم تو چل دئیے، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔

وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں تیسری اہم بات بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے بات چیت کا عندیہ دینا اور گوادر کو مستقبل میں پاکستان کا فوکل پوائنٹ قرار دینا ہے۔ عسکریت پسندوں سے بات چیت کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنائی جائے گی۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی تو یہاں معاشی سرگرمیاں ہوں گی‘ کاروبار اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بلوچستان‘ جو دیگر صوبوں سے ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے وہ ان کے ہم پلہ ہو گا‘ اور یقینا اس ساری صورت حال میں گوادر مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ گوادر کی ترقی اور بلوچستان میں امن و امان جتنا پاکستان کے لیے اہم ہے اتنا ہی چین کے لیے بھی ہے۔ وزیر اعظم نے جہاں امریکہ کو 'Absolutely Not' کہا‘ وہیں وہ اپنے حالیہ انٹرویوز اور بیانات میں دو ٹوک انداز میں وہ اس بات کی بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک دباؤ ڈال کر بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی دراڑ ڈالنا چاہیں تو کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی تناظر میں سی پیک بھی ایک بار پھر سے خبروں میں گرم ہے۔ سی پیک پر پیش رفت کا مطلب ہے چین اپنی معاشی سرگرمیاں خطے میں بڑھانا چاہتا ہے جس کا حتمی نتیجہ خطے میں چین کے اثرورسوخ میں اضافے کی شکل میں نکلے گا۔ امریکی افواج کی واپسی کے بعد چین افغانستان میں بھی اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں بدلتی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا طالبان امریکی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والا طاقت کا خلا پُر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ چین آج تک عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد چین کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

افغانستان میں تشدد میں اضافے کی صورت میں اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے چین طالبان سے بھی تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس ضمن میں چین طالبان سے رابطے میں ہے۔ چین کیا سوچ رہا ہے اور کیا کرنے جا رہا ہے؟ عالمی میڈیا اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ''فنانشل ٹائمز‘‘ میں حال ہی میں ایک خبر چھپی ہے۔ اس خبر میں ایک بھارتی سرکاری اہلکار کا حوالہ دے کر یہ بات لکھی گئی ہے کہ چین طالبان کے ساتھ تعاون بڑھا کر افغانستان کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرنا چاہتا ہے۔ خطے میں پاکستان، چین کا سب سے اہم اتحادی ہے اور طالبان کو فنڈنگ اسی کے ذریعے کی جائے گی۔ اسی خبر میں ایک اور سفارت کار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چین، پاکستان کی درخواست پر طالبان کی مدد کرے گا۔ چین اس امداد کے بدلے چاہتا ہے کہ طالبان، چینی سرحد پر موجود شدت پسندوں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کریں۔ چین اس گروپ کو مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کہتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی تعداد 3500 کے قریب ہے، جن میں سے کچھ جنگجو چین کی سرحد کے ساتھ افغانستان کے علاقے میں موجود ہیں۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے 2002ء میں اس موومنٹ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا؛ تاہم امریکہ نے پچھلے برس اس گروپ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔ چین اس گروپ کو اپنے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ چین وسطی ایشیاء کی ریاستوں قازقستان، ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان اور ترکمانستان پر زور دے چکا ہے کہ اس گروپ کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔ مئی میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے ان ممالک کے وزرائے خارجہ کو واضح الفاظ میں کہا: ہمارے لیے ضروری ہے کہ بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ شدت پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تین طاغوتی طاقتوں کے خلاف کارروائی کریں۔

وانگ ژی کے مطابق ان کارروائیوں کا مقصد ''محفوظ شاہراہ ریشم‘‘ ہے۔ چینی حکام اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو شاہراہ ریشم کہہ کر پکارتے ہیں۔ صدر شی چن پنگ کا یہ سب سے اہم منصوبہ ہے اور اس کے تحت چین دیگر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین افغانستان میں استحکام کے ذریعے پاکستان اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پروجیکٹ محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان میں بھی مستقبل میں سرمایہ کاری کی راہ کھولنا چاہتا ہے۔ چین اپنی فوج بیرون ملک بھیجنے کے سلسلے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتا رہا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے افغانستان میں بین الاقوامی امن دستے تعینات کیے جائیں تو چین ان کا حصہ بن سکتا ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام جاری رہنے کا مطلب ہے کہ وہاں شدت پسندی سر اٹھا سکتی ہے جس کے اثرات سنکیانگ میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ اپنے معاشی مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چین کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ خطے کی سیاسی اور سکیورٹی صورت حال سے خود کو الگ رکھ سکے۔ امریکہ افغانستان سے واپس جاتے ہوئے افغان قیادت کو طالبان کے خلاف فضائی امداد جاری رکھنے کی تسلیوں اور وعدوں کے سہارے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مستحکم افغانستان چین کے لیے تو ضروری ہے، کیا امریکہ کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے؟

اس سے قبل یہ کالم    'روزنامہ دنیا ' میں بھی شائع ہوچکاہے ۔

تجارت

 پاکستان اور بیلاروس کے درمیان متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط

پاک بیلاروس 5سالہ تعاون پر نیوٹریفوڈ اینڈ فارماسیوٹیکل کمپنی اور بیلاکٹ سمیت مختلف مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان اور بیلاروس کے درمیان متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہو گئے۔

پاک بیلاروس 5سالہ تعاون پر نیوٹریفوڈ اینڈ فارماسیوٹیکل کمپنی اور بیلاکٹ سمیت مختلف مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔

تقریب میں "شہزاد ٹریڈ لنکس" اور "منسک موٹر پلانٹ" کے درمیان مصنوعات کی فراہمی کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے، "شہزاد ٹریڈ لنکس" اور "بیلشینا" کے مابین پاکستانی منڈی میں ٹائرز کی فراہمی کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔

قبل ازیں بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر تجاری سردار جام کمال کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تجارت میں اضافہ ضروری ہے، پاکستان میں بیلاروس کے ٹریکٹرز پائیداری اور مضبوطی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان 27-2025 کے لیے روڈ میپ پر اتفاق ہوا ہے ، دونوں ممالک تعاون کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بیلاروس علاقائی تجارت اور کنیکٹیویٹی کے فروغ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم میں شراکت دار ہیں، پاکستان بیلاروس سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے توانائی، زراعت، آئی سی ٹی اور دیگر شعبے کھلے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں تنوع لانے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے گوشت، ڈیری، زرعی مصنوعات اور کاغذی مصنوعات کی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں، بیلاروس کے ساتھ تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے اور مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان خطے میں تجارتی اور ٹرانزٹ حب بننے کے لیے پر عزم ہے۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

یو اے ای میں تین روز سے لاپتہ یہودی مذہبی پیشوا کی لاش برآمد

اماراتی حکومت نے قتل کے شک میں 3 افراد کو گرفتار کرلیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں تین دن قبل مبینہ طور پر اغوا کیے جانے والے یہودی شہری کی لاش مل گئی جب کہ اماراتی حکومت نے قتل کے شک میں 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہودیوں کے مذہبی پیشوا (ربی) 28 سالہ زوی کوگن جمعرات کے روز یو اے ای میں لاپتا ہوگئے تھے۔ زوی کوگن کی لاش اماراتی شہر العین میں ملی جو عمان کی سرحد سے متصل ہے جب کہ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں وہاں قتل کیا یا کہیں اور قتل کرنے کے بعد لاش کو وہاں پھینکا گیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت اس واقعے کے ذمہ داروں کو ہر صورت میں کیفر کردار تک پہنچائے گی۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل اور یورپی ملک مولڈووا کی دہری شہریت رکھنے والے ربی زوی کوگن نے مولڈووا کے پاسپورٹ پر دبئی کا سفر کیا تھا۔اسرائیل کی حکمران دائیں بازو کی جماعت لکود پارٹی کے رکن ایوب کارا نے دبئی میں انگریزی زبان میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا وہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے تحقیقات مکمل کرنے کا انتظار کر رہے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے قتل کا الزام ایران پر عائد کردیا۔

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے والے ایوب کار نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد لاش کو تدفین کے لیے اسرائیل بھیجا جائے گا۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق اماراتی اور اسرائیلی حکام نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ قتل میں کون ملوث ہیں اور اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

اسرائیلی فورسز کے لبنان اور غزہ میں وحشیانہ حملے، 84 لبنانی جبکہ 35 فلسطینی شہید

اسرائیلی حملوں میں اب تک 44 ہزار 211 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسرائیلی فورسز کے لبنان اور غزہ میں وحشیانہ حملے جاری ہیں،بیروت سمیت کئی مقامات پر حملوں میں 84 لبنانی شہری شہید ہوگئے۔

 لبنان پراسرائیلی حملوں میں اب تک 3 ہزار 754 شہری شہید ہوچکے ہیں،اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری کے نتیجے میں 35 فلسطینی شہیداور 94 زخمی ہوگئے،اسرائیلی حملوں میں اب تک 44 ہزار 211 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

دوسری طرف یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل لبنان کےدورے پر بیروت پہنچ گئے ہیں،انہوں نے بیروت میں لبنانی وزیراعظم نجیب میقاتی سے ملاقات کی ہے۔

اس موقع پرجوزف بوریل نے عالمی برادری پر زوردیاکہ وہ جنگ بندی کے لئے پائیدار اقدامات کرے، لبنانی وزیراعظم نجیب میقاتی نے جوزف بوریل کو بتایا کہ اسرائیل نے لبنان کے 37 دیہات تباہ کر دئیے ہیں۔

حزب اللہ نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر راکٹوں کی برسات کردی جس کے نتیجے میں تل ابیب میں  سائرن بج اٹھے، حیفا اور نہاریہ میں آگ بھڑک اٹھی،زمینی آپریشن میں اسرائیلی فوج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll