جی این این سوشل

پاکستان

’’ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘

پر شائع ہوا

کی طرف سے

''ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘ ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں اس جملے کی بازگشت کچھ زیادہ پرانی نہیں۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

20 اپریل 2017ء کے پاناما کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ جملہ اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا، امریکی مصنف ماریو پوزو اپنے ناول ''گاڈ فادر‘‘ کا آغاز فرانسیسی مصنف آنرے دی بالزک کے اسی جملے سے کرتا ہے۔ اختلافی نوٹ میں اس حوالے کے بعد ہی سیاسی مخالفین نے نواز شریف کو گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہنا شروع کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان شروع دن سے اس بات کے قائل ہیں کہ معاشرے میں تمام خرابیوں کی جڑ کرپشن ہے۔ بے ایمانی سے بنایا گیا پیسہ مختلف ذرائع سے ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ اس عمل میں ملوث اشرافیہ کے بیرون ملک کاروبار اور جائیدادیں ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی فورمز پر اکثر وہ یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ کرپشن کے ذریعے بنائے گئے پیسے کو ملک سے باہر جانے سے روکنا ہوگا، اور کرپٹ افراد کو سخت سزا دینا ہوگی، اور یہ کہ مغربی ممالک‘ ترقی پذیر ممالک کا لوٹا ہوا پیسہ اپنے ممالک میں آنے سے روکیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے بلاشبہ سخت قوانین وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
پاکستان میں قومی احتساب بیورو کا بااختیار ادارہ موجود ہے جو سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگوں کی بیخ کنی میں مصروف ہے۔ اس ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت 8 اکتوبر کو پوری ہورہی ہے۔ نئے چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہونا ہے۔ اب تک مشاورت نہیں ہو پائی اور مشاورت مستقبل میں بھی ہوگی یا نہیں‘ اس پر سوالیہ نشان اپنی جگہ برقرار ہے۔ چیئرمین نیب تبدیل ہوگا یا جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی اس عہدے پر فائز رہیں گے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سب کے بیچ حکومتی قانونی ٹیم اپنی بھاگ دوڑ میں مصروف رہی اور ایک آرڈیننس کا مسودہ تیار کرلیا۔ اس آرڈیننس کے بنیادی نکات میں شامل ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی موجودہ شق برقرار رہے گی۔ نئے چیئرمین نیب کیلئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے نام پر بھی غور ہوسکے گا۔ اتفاق نہ ہوا تو بات پارلیمانی کمیٹی میں جائے گی۔ مذاکرات میں ڈیڈلاک ہوا تو موجودہ چیئرمین ہی نئے چیئرمین کے آنے تک عہدے پر رہیں گے۔ چیئرمین نیب کو ہٹانے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنا ہوگا۔ چیئرمین نیب کو توسیع نہ دینے کی شق بھی آرڈیننس کے ذریعے ختم ہو جائے گی۔
احتساب ہو‘ انتقام نہ ہو‘ اس حوالے سے حکومت اکثر اپنی نیک نیتی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے بھی حکومت کی انتہائی قابل اور زیرک قانونی ٹیم کچھ ایسے نئے پہلو سامنے لائی ہے۔ قانونی حوالے سے اس آرڈیننس میں اہم بات یہ ہے کہ نیب عدالتوں کو 90 دن سے پہلے ملزم کو ضمانت دینے کا اختیار بھی مل جائے گا۔ نیب عدالتوں میں ایڈیشنل سیشن جج اور سابق جج صاحبان بھی تعینات کیے جا سکیں گے۔ چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی شق اس لیے رکھی گئی تھی کہ احتساب کے ادارے کا سربراہ متفقہ ہو۔ اس کے کردار اور غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی اس مشاورتی عمل کے ذریعے ہی احتساب کے ادارے کے سربراہ بنے تھے‘ تاہم اب اپوزیشن اکثر ان پر انگلیاں اٹھاتی رہتی ہے‘ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے نام پر سیاسی انتقام کا شور مچاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے فروغ نسیم اس وقت ملک کے وزیر قانون ہیں۔ اس آرڈیننس کی تیاری میں بلاشبہ ان کی محنت شامل ہوگی، اور ان کا ماننا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی مشاورت ہوگی‘ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اب تک شہباز شریف سے کوئی ایسا رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان بھی نیب ترمیمی آرڈیننس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی شق موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اب مشاورت ہوگی یا نہیں کوئی کچھ نہیں جانتا‘ لیکن مشاورت نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جانا ہے اور ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔

حکومت کے اس عمل پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں ''قانون توڑ کر چیئرمین نیب کو توسیع دی جارہی ہے، قانون کہتا ہے مشاورت کریں لیکن وزیراعظم انکار کر رہے ہیں، صدر مملکت بھی آرڈیننس پر دستخط کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘‘۔ پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں آرڈیننس کے ذریعے توسیع کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے سوال اٹھایا کہ ''مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد موجودہ چیئرمین کیسے کام کر سکتے ہیں؟ اگر اپوزیشن سے مشاورت کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے تو کیا وزیراعظم سمیت وزرا کے خلاف کیسز نہیں؟ چینی، آٹا، پٹرول، ادویات، بی آر ٹی، ایل این جی، رنگ روڈ، بلین ٹری اور ہیلی کاپٹر سکینڈلز کس کے خلاف ہیں؟ کیا وزیراعظم اپنا اور اپنے وزرا کے مفادات کا تحفظ نہیں کررہے؟‘‘مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تحفظات اور سوالات اپنی جگہ‘ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین چیئرمین نیب کے تقرر پر مشاورت کیوں نہیں ہوگی اس کی وضاحت کھل کر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری صاحب پیش کر گئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ہم شہباز شریف سے چیئرمین نیب کے متعلق مشاورت نہیں کریں گے۔ جو قانونی سقم ہے اس کو دور کرنے کیلئے آرڈیننس لے کر آئیں گے تاکہ اس قانون میں موجود مبینہ پیچیدگیوں کو ختم کیا جا سکے جس نے اس معاملے پر قائد حزب اختلاف سے مشاورت کو لازمی قرار دیا ہے‘‘۔ اپنی بریفنگ میں انہوں نے یہ بتایا کہ ''آرڈیننس اس بات کی وضاحت کرے گا کہ اگر اپوزیشن لیڈر پر بدعنوانی کے مقدمات کا الزام ہے تو اینٹی کرپشن واچ ڈاگ کا سربراہ کیسے مقرر کیا جائے گا‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے فواد چودھری کے بیان پر جواب میں کہا کہ ''نیب چیئرمین کی تقرری پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت آئین کا تقاضا ہے، خان صاحب کا چیئرمین نیب کو توسیع دینا چوروں کو این آر او دینا ہے۔ وہ اس فیصلے سے آٹا، چینی، بجلی، گیس، دوائی چور دوستوں کو این آر او دے رہے ہیں‘‘۔ اس آرڈیننس پر گرماگرم بیان بازی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم نئے چیئرمین نیب کے تقرر کیلئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ مشاورت کیلئے نہیں بیٹھ رہے۔ شہباز شریف پر ابھی صرف کرپشن کے الزامات ہیں، کیسز چل رہے ہیں، کچھ ثابت ہو جائے تو وہ ضرور مجرم ٹھہریں گے۔ ایسا ہو جانے کے بعد ان سے بات نہ کرنا حق بجانب ہوگا۔ اس وقت وہ ملک میں حزب اختلاف کے نمائندہ ہیں انہیں ان کا آئینی مقام ملنا چاہیے۔
پنڈورا پیپرز میں وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں، انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ بے گناہ ثابت ہونے تک ان کے ساتھ بھی نہ بیٹھا جائے۔ ''ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘ پاناما کیس کے فیصلے کے اس جملے کو پھر سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ اب پنڈورا باکس کھل چکا ہے، اب کی بار بھی کچھ پردہ نشین بے نقاب ہوئے ہیں، دیکھتے ہیں بلاامتیاز احتساب کیسا ہوتا ہے۔
 
اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

عمران یعقوب خان

عمران یعقوب خان سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ نگار ہیں

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

حدیجہ شاہ کوئٹہ پولیس کے حوالے

انسداد دہشت گردی عدالت نے بلوچستان پولیس کی حدیجہ شاہ کی حوالگی کی درخواست منظوری کر لی

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

انسداد دہشت گردی عدالت نے بلوچستان پولیس کی پی ٹی آئی کارکن حدیجہ شاہ کی حوالگی کی درخواست منظوری کر لی، عدالت نے حدیجہ شاہ کو جیل سے حراست میں لینے کی منظوری دے دی۔

تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ کوئٹہ میں درج مقدمہ میں حدیجہ شاہ کی گرفتاری مطلوب ہے۔ کوئٹہ پولیس نے خدیجہ شاہ کو گرفتار کر لیا۔کوئٹہ پولیس نے خدیجہ شاہ کے راہداری ریمانڈ کے لیے لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ملزمہ کا کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت سے وارنٹ لیا، خدیجہ شاہ سے تفتیش کرنی ہے، لہٰذا عدالت تین روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرے۔

اے ٹی سی لاہور نے خدیجہ شاہ کا دو دن کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمہ کو دو روز میں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

پڑھنا جاری رکھیں

کھیل

جامعہ زرعیہ میں ڈربی ریس کا انعقاد، ملک بھرسے 84 تربیت یافتہ گرے ہاؤنڈز کی شرکت

زرعی یونیورسٹی میں روائتی کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں

Published by Baqar Gillani

پر شائع ہوا

کی طرف سے

فیصل آباد: جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں 56 ویں گرے ہاؤنڈ ڈربی ریس کاانعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے84 تربیت یافتہ گرے ہاؤنڈز نے شرکت کی۔

زرعی یونیورسٹی کے ڈائریکٹوریٹ آف فارمز کے زیر اہتمام چیمپئن شپ کا افتتاح وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آبادپروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں اور سابق وائس چانسلر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان منصور احمدنے کیا۔ ایونٹ میں صدر پاکستان گرے ہاؤنڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن آصف اقبال، ڈائریکٹر فارمز ڈاکٹر شاہد ابن ضمیر، ڈاکٹر ہارون زمان، ڈاکٹر ندیم اکبر، رانا شہزاد و دیگر بھی موجود تھے۔

ڈربی ریس کے شائقین اور طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نے گرے ہاؤنڈز ریس سے لطف اندوز ہونے کیلئے یونیورسٹی کے نیزہ بازی گراؤنڈ کا رخ کیا۔ ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی میں روائتی کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں جس میں کاشتکاروں اور زرعی سائنسدانوں کے مابین روابط کو بھی مضبوط کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کر کے ہی مستحکم زرعی معیشت کا ہدف حاصل کیا جاسکے گا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات، پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلے سے روک دیا

جس نے پارٹی انتخابات جیلنچ کئے وہ پارٹی کا حصہ ہی نہیں ہے، بیرسٹر گوہر

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن، پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کے خلاف دائر درخواست پر الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلے سے روک دیا اور ان سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کردی۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد پرمشتمل دو رکنی بنچ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی، قاضی محمد انور، شاہ فیصل اتمان خیل، محمد نعمان کاکاخیل سمیت دیگر وکلا عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

دوران سماعت بیرسٹر گوہرعلی نے عدالت کوبتایا کہ جس نے پارٹی انتخابات جیلنچ کئے وہ پارٹی کا حصہ ہی نہیں ہے،پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن 2 دسمبر کو پشاور میں ہوئے جس میں پارٹی چئیرمین بلا مقابلہ منتخب ہوا اس الیکشن کے خلاف اکبر ایس بابر نے ایک درخواست دائر کی حالانکہ وہ پارٹی کا رکن بھی نہیں ہے۔

بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 اور 209 کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کیا گیا جو کہ ہر پانچ سال بعد کیا جاتا ہے اور یہ الیکشن سیاسی جماعت کے اندر پارٹی کے اپنے آئین کے تحت منعقد کیا جاتا ہے تاہم ان انتخابات کے خلاف ایک درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی جو کہ ناقابل سماعت ہے اور الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ اس درخواست پر سماعت کرے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس کے باوجود آج منگل کے روز فل بنچ نے اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اگر پی ٹی ائی کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا تو ان کی غیر موجودگی میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چئیرمین نے عدالت کو بتایا کہ ماضی میں الیکشن کمیشن کا کردار پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے یک طرفہ رہا ہے خواہ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا جیل ٹرائل یا کوئی دوسرا مسئلہ، جہاں بھی پاکستان تحریک انصاف کی بات آتی ہے تو الیکشن کمیشن اس میں جانب داری دکھاتا ہے اور انہیں شدید تحفظات ہیں۔

اس موقع پر جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ جس نے یہ شکایت دائر کی ہے کہ وہ اب پارٹی ممبر ہے جس پر بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ نہیں اس کی ممبر شب 10 سال سے زائد ہوئے ہیں ختم کردی گئی ہے اب وہ پارٹی ممبر نہیں رہا اور جو الیکشن ہوئے ہیں وہ 13 ستمبر 2023ء کے الیکشن کمیشن کے احکامات کی روشنی میں ہوئے ہیں تو کس طرح اس الیکشن کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انتخاب کے بعد انہوں نے باقاعدہ کاغذات کے ساتھ تمام لوازمات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کیے ہیں تاکہ اس کو الیکشن کمیشن گزٹ میں نوٹیفائی کرے مگر نوٹی فکیشن نوٹیفائی کرنے کے بجائے ان کے خلاف درخواست دائر کی گئی اور انہیں چیلنج کیا گیا۔

بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں ابھی تک کسی پارٹی کے انٹر پارٹی الیکشن کو چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں کوئی نوٹس جاری کیا مگر پاکستان تحریک انصاف کی بات جب آجاتی ہے تو وہ ہر چیز میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قانون میں اس طرح کی کوئی شق موجود ہی نہیں کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق سماعت کرسکے مگر اب صرف توشہ خانہ کیس اور دیگر کیسز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہرحد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

بیرسٹر گوہر نے عدالت کوبتایا کہ پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے 70 فیصد عوام کی نمائندگی کررہی ہے ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کا انٹر پارٹی الیکشن سے متعلق سرٹیفیکیٹ شائع نہیں ہوا جو کہ ایک قانونی تقاضا ہے لہذا عدالت انہیں حکم دے کہ مذکورہ سرٹیفیکیٹ کو شائع کرے تاکہ انٹرا پارٹی الیکشن کو آئینی تحفظ حاصل ہو اور اس ضمن میں تمام تقاضے پورے کیے گئے ہیں باقاعدہ طور پر کمیشن مقرر کیا گیا جنہون نے انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کیا اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر انٹر پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو اس سے اگلے ہی روز الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا اور اگر یہ نوٹیفائی نہیں ہوتا تو پھر اس طرح کے یہ مسائل پیدا ہونگے۔

عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کو مذکورہ درخواست پر حتمی فیصلے سے روک دیا اور ان سے 7 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو مذکورہ رٹ درخواست پر وائس کمنٹس بھی جمع کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی اور بلے کا نشان 70 فیصد عوام کی نمائندگی کررہی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم ہیں، ہمیں خدشہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے بیٹ کا انتخابی نشان چھینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے خلاف انہوں نے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ہے اور جس پر انہیں ریلیف بھی مل گیا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان تحریک انصاف کے خلاف حد سے تجاوز کررہی ہے اور ایسے فیصلے دے رہی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، عمران خان پی ٹی آئی کے تاحیات چیئرمین ہیں وہ ایک جمہوریت شخصیت ہیں، پی ٹی آئی آئندہ انتخابات سے بائیکاٹ نہیں کرے گی۔

بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ اگر ہم ہائی کورٹ میں کیس دائر نہ کرتے تو الیکشن کمیشن بیٹ کا نشان تبدیل کرتا جو کسی صورت قابل برداشت نہیں ہمیں الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے، عدلیہ سے اچھے کی امیدیں وابستہ ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll