اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے زائرین کی ایران و عراق بذریعہ سڑک روانگی پر عائد پابندی کے معاملے پر وزیر داخلہ محسن نقوی کو طلب کر لیا ہے۔
یہ فیصلہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عطا الرحمٰن کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا، جس میں وزارتِ مذہبی امور نے زائرین پر حالیہ سفری پابندیوں سے متعلق بریفنگ دی۔
اجلاس میں سینیٹر علامہ ناصر عباس نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت ملک کے شہریوں کے مذہبی حقوق کی پاسداری نہیں کر رہی؟ ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی کے باعث زائرین کو کم از کم 50 ارب روپے کا مالی نقصان پہنچا ہے۔
وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ ان کی وزارت نے کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی اور وہ زائرین سے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ جب تک وزیر داخلہ اس پالیسی کو واپس نہیں لیتے، وزارتِ مذہبی امور خود اقدام نہیں اٹھا سکتی۔
کمیٹی چیئرمین نے رائے دی کہ اگر سیکیورٹی خدشات موجود تھے تو عوام کو بروقت آگاہ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ تیاری کر سکتے۔ جواب میں وزیر مذہبی امور نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ کے خدشے کے پیش نظر، سڑک کے ذریعے سفر پر عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
سیکریٹری مذہبی امور نے مزید خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر زائرین کی بسوں پر خودکش حملے ہوئے تو اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟
سینیٹر ناصر عباس نے اس کے جواب میں کہا کہ بی ایل اے جیسی تنظیمیں بھی واضح کر چکی ہیں کہ وہ زائرین کو نشانہ نہیں بنائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 50 ارب روپے کی رقم ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور خوراک پر خرچ ہو چکی ہے، جو اب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
سینیٹر دنیش کمار نے انکشاف کیا کہ ہر زائر سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے وصول کیے گئے ہیں، جس سے یہ معاملہ ممکنہ مالیاتی اسکینڈل کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اجلاس کے اختتام پر قائمہ کمیٹی نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کو طلب کیا جائے تاکہ وہ پابندی کی وجوہات اور اس کے ممکنہ اثرات پر براہِ راست وضاحت پیش کریں۔