جی این این سوشل

پاکستان

22بار بجلی مہنگی کرنے کا عالمی ریکارڈ

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان کو دنیا کی 200 کے لگ بھگ ریاستوں میں 2 برسوں کے دورا ن22 مرتبہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اعزاز حاصل ہوا ہے

طاہر ملک Profile طاہر ملک

پاکستان میں بجلی سرکاری کنٹرول میں ہے اور جدید ریاست کا بنیادی تصور یہ ہے کہ حکومت کا کام عوام کے ٹیکس سے عوام کی زندگی کو بہترآسان اور  مفید بنایا جائے ۔کوئی بھی معاشرہ  سیاسی سماجی اور معاشرتی ترقی کیلئے معاشی ترقی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے معاشی ترقی  کا واحد  اور بہترین راستہ صنعت کاری ہے۔مگر یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ صنعت کی جان بجلی میں ہے۔

برآمدات کا اضافہ ، صنعتی پیداوار ، مہنگائی ، رسد و طلب آمدنی ، روزگار ٹرانسپورٹ جیسے تمام شعبوں کا بجلی کی لاگت سے براہ راست تعلق ہے۔مہنگی بجلی سے مراد بے روزگاری  پسماندگی  اور تباہی کے علاقہ کچھ نہیں ہے ۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 9کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے اور 9 کروڑ کے قریب آبادی غربت کا شکار ہے۔جس کیلئے صنعتی ترقی اور صنعتی ترقی کیلئے سستی بجلی آکسیجن کی طرح ہے۔مگر کما ل یہ ہے کہ پاکستان کی 90 کی دہائی کے بعد تمام حکومتوں نے آئی پی پی سے معاہدے کرکے بجلی تو حاصل کرلی مگر ان معاہدے میں منافع اور لوٹ مار کی بنیاد پر کیا گیا  جس سے پاکستان مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔

عوام  ، صارفین ، صنعت کار، سرمایہ دار، بزنس مین ، تاجر اور گھریلو صارفین سب اس مہنگی بجلی کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔عوام پر یہ جبر کا پہاڑ توڑنے کا سہرا شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کے سر ہے۔ جس میں نواز اور مشرف حکومتوں نے بھی برابر کا حصہ  ڈالا ہے ۔یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان 2 روپے یونٹ کی لاگت سے ایٹمی بجلی پیدا کر سکتان ہے مگر حکمران  کلاس  نے آئی پی پی سے ایسے انسان دشمن معاہدے کئے کہ آج مہنگی بجلی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

آئی پی پی   کی بجلی کی لاگت 20 روپے یونٹ چلی جاتی ہے  مگر اس کے باوجود بے نظیر ، نواز ، مشرف اور عمران حکومت نے پوری توجہ کے ساتھ سستی بجلی بنانے پر غور نہیں کیا۔عمران خان نے نیا پاکستان بنانے آئے تھے مگر ان کی حکومت نے 1 ستمبر  2018 سے اب تک بجلی مہنگی کا ورلڈ ریکارڈ بنا دیا ہے اور اس پر مزید کام بھی ہو رہا ہے۔

22 بار اضافے کی تفصیل یوں ہے۔

ستمبر 2018 کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 1  روپیہ 49 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا،اکتوبر 2018 میں بجلی  کی قیمتوں 47 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا، نومبر 2018 میں بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 32 پیسے اضافہ ہوا،دسمبر 2018 میں بجلی کی قیمتوں  میں فی یونٹ 56 پیسے کا اضافہ ہوا۔

 جنوری 2019  میں  بجلی کی قیمتوں میں 1 روپیہ 80 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا، فروری 2019 میں 80 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی ہوئی، مارچ 2019 میں  3پیسے فی یونٹ بجلی کمی ہوئی، اپریل 2019 میں بجلی کی قیمتوں میں 55 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا، مئی 2019 میں بجلی کی قیمتوں میں 9 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا،جون 2019 کے دوران 13پیسے فی یونٹ کمی ہوئی، جولائی 2019 کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 1  روپیہ 70 پیسے اضافہ ہوا، اگست 2019 کے دوران  1روپیہ 66 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا، ستمبر 2019 کے دوران بجلی کی قیمتوں میں 1روپیہ 82پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا، اکتوبر 2019 میں بجلی کی قیمتوں میں 1 روپیہ 56 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا،نومبر 2019 میں 98 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا،دسمبر 2019 میں بجلی کی قیمتوں میں 1 روپیہ 87 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا۔

جنوری 2020 میں 1  روپیہ 11 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا، فرروری 2020 میں 1 روپیہ 20 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کی گئی، مارچ  2020 کے دوران 10 پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،اپریل 2020 میں 30 پیسے فی یونٹ کمی ، مئی  2020 میں 1 روپے 25 پیسے فی یونٹ کمی، جون 2020 میں 1روپے 5 پیسہ فی یونٹ کمی، جولائی 2020 کے دوران 85 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی ہوئی، ستمبر  2020  میں بجلی کی قیمتوں میں 1 روپیہ  11 پیسے کا اضافہ ہوا،اکتوبر 2020 میں کے دوران 29 پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کی گئی، نومبر 2020 میں بجلی کی فی یونٹ قیمتوں میں 76 پیسے کا اضافہ ہوا۔

سہ ماہی اور ششماہی بنیادوں میں اضافہ :

مالی سال 2017-18 کیلئے سی ماہی بنیادوں پر 1روپے 49 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا اور 198 ارب روپے کا بوجھ ڈالا۔

نومبر 2019 مالی سال 2019-20 پہلی سہ ماہی کیلئے ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 14پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔

مالی سال 2019-20 کی آخری سہ ماہی  اکتوبر سے دسمبر میں بجلی کے صارفین پر 72  ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا، جنوری سے مارچ 2020 تک کیلئے 89  ارب روپے کا بوجھ ڈالا۔

مالی سال 2019-20 کی پہلی اور آخری سہ ماہی کیلئے 1روپے 62 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ 21 ماہ کے دوران فیول ایڈ جسٹمنٹ کی مد  میں 20 روپے 73 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ۔ماہانہ فیول ایڈ جسٹمنٹ کی مد سے صارفین پر 200 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ مجموعی طور پر حکومت نے بجلی صارفین پر 7 سو 77 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا ہے اور مجموعی  طور پر 1300 ارب روپے کی بجلی کے بلوں  سے عوام کی جیوبوں سے اضافی لئے گئے ہیں ۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ 22 بار بجلی مہنگی ہونے کے باوجود  بجلی کا ریکارڈ گردشی ہو چکا ہے، گزشتہ مالی سال میں 2000 ارب تھا جو اس مالی سال کے آخر میں 2800 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔اتنی مہنگی بجلی اتنے بڑے گردشی قرضے کے بعد پاکستان میں معاشی ترقی ایک دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام دشمن آئی پی پی  معاہدوں کو ختم کرکے سستی بجلی عوام کو دی جائے اور اس کے ساتھ گردشی قرضہ سے نجات حاصل کی جائے۔

اگر یہ نہ ہوا تو پاکستان کا آج اور آنے والا کل غربت بے روزگاری اور افلاس سے پاک نہیں ہو سکتا۔

طاہر ملک

سینئر صحافی اور تجزیہ کار طاہر ملک گزشتہ کئی برسوں

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

عدالت نے عمران خان سمیت بشریٰ بی بی کو اداروں کے خلاف بیان بازی سے روک دیا

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دوران ٹرائل کمرہ عدالت میں ریاستی اداروں اوران کے آفیشلز کے خلاف اشارتاً بھی بات کرنے سے روک دیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسلام آباد احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی سے روک دیا۔

عدالت نے دوران ٹرائل کمرہ عدالت میں ریاستی اداروں اوران کے آفیشلز کے خلاف اشارتاً بھی بات کرنے سے روک دیا۔

احتساب عدالت کے جج باصر جاوید رانا نے فئیرٹرائل کی بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر حکم نامے میں کہا کہ میڈیا سیاسی، اشتعال انگیز بیانیے اور ریاستی اداروں کوٹارگٹ کرنے والے بیانات کی تشہیر سے پرہیز کرے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ میڈیا سیاسی، اشتعال انگیز بیانیے جو ریاستی اداروں اور ان کے آفیشلز کو ٹارگٹ کرتے ہوں وہ پبلش نہ کرے۔

حکم نامے میں پیمرا کوڈ آف کنڈکٹ کا بھی عدالت نے حوالہ دیا گیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ الزام ہے بانی پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز ومتعصبانہ بیانات دئیے، عدلیہ، پاک آرمی اورآرمی چیف کے حوالے سے بیانات عدالتی ڈیکورم میں خلل ڈالنے کے مترادف ہیں، ایسے بیانات انصاف کی فراہمی کے عمل میں بھی رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔

حکم نامے کے مطابق کورٹ ڈیکورم اورفئیر ٹرائل کے تقاضوں کا خیال رکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے، جیل حکام جیل عدالت کو عید سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کریں۔

پڑھنا جاری رکھیں

صحت

ملک بھر میں ایک بار پھر جان بچانے والی ادویات کی قلت

میڈیکل اسٹورز میں انسولین سمیت 27 ضروری ادویات دستیاب نہیں ہیں، ڈرگ انسپکٹر سندھ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملک بھر میں ایک بار پھر جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے، میڈیکل اسٹورز میں انسولین سمیت 27 ضروری ادویات دستیاب نہیں ہیں۔

ڈرگ انسپکٹر سندھ نے بتایا کہ کراچی کے میڈیکل اسٹورز پر انسولین سمیت 27 اہم ادویات دستیاب نہیں ہیں۔

سیکریٹری پراونشل ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ سید عدنان رضوی نے خط لکھ کر پورے صوبے کے ڈرگ انسپکٹرز کو غیر دستیاب ادویات کا سروے کرنے کا حکم دیا ہے۔

حکام کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں بھی 30 اہم ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

حکام نے بتایا کہ عدم  دستیاب ادویات میں اینٹی بائیوٹکس، نفسیاتی اور دمہ کی دوائیں شامل ہیں جبکہ تشنج کے انجیکشن اور مختلف قسم کے انہیلر کی بھی شدید قلت ہے۔

دوسری جانب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں ادویات کی کوئی کمی نہیں، سپلائی چین کے مسائل ہوسکتے ہیں۔

ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہفتہ وار بنیادوں پر ادویات کی دستیابی کا سروے کرتے ہیں، مریض کو انسولین وافر مقدار میں دستیاب ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

داعش سے تعلق رکھنے والے 11 مجرموں کو پھانسی دے دی گئی

عراق میں سزائے موت 2003 کو معطل کر دی گئی تھی لیکن اگست 2004 سے اسے بحال کر دیا گیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

عراق میں داعش سے تعلق رکھنے والے 11 مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق کے سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ عراقی حکام نے 11 مجرموں کو پھانسی دے دی جن پر داعش کے رکن ہونے کا الزام ہے۔
جیل کے ایک افسر نے بتایا کہ 11 مجرموں کو منگل کے روز عراقی دارالحکومت بغداد سے 350 کلومیٹر جنوب میں واقع ناصریہ شہر کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ عراقی وزارت انصاف کی ایک ٹیم نے عراقی صدر کی توثیق سمیت تمام قانونی طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد کی نگرانی کی۔2017 کے اواخر میں عراقی فورسز کی جانب سے عراق میں داعش کو شکست دینے کے بعد داعش کے سیکڑوں حامی مارے گئے یا پکڑے گئے، جب کہ بہت سے دیگر اب بھی عراق میں یا بیرون ملک خفیہ ٹھکانوں میں مفرور ہیں۔
واضح رہے عراق میں سزائے موت 10 جون 2003 کو معطل کر دی گئی تھی لیکن اگست 2004 سے اسے بحال کر دیا گیا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll