جی این این سوشل

تجارت

روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعہ سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کاحجم 6.898 ارب ڈالرسے تجاوز

اکتوبر 2023 میں سمندرپار پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعہ 142 ملین ڈالر کا زرمبادلہ ملک ارسال کیا، اسٹیٹ بینک

پر شائع ہوا

کی طرف سے

روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعہ سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کاحجم 6.898 ارب ڈالرسے تجاوز
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

روشن ڈیجیٹل اکائونٹس (آر ڈی اے)کے ذریعہ سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کاحجم 6.898 ارب ڈالرسے تجاوز کر گیاہے،اسی طرح آر ڈی اے کے ذریعہ سرمایہ کاری کاحجم 753 ملین ڈالر ہو گیا.

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق اکتوبر 2023 میں سمندرپار پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعہ 142 ملین ڈالر کا زرمبادلہ ملک ارسال کیا، ستمبر 2020 کے بعد سمندرپار پاکستانیوں نے آر ڈی اے کے ذریعہ مجموعی طور پر 6.998 ارب ڈالر کا زرمبادلہ ملک ارسال کیا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق ستمبر 2020کے بعد سے لے کر اب تک سمندرپار پاکستانیوں نے آر ڈی اے کے ذریعہ پاکستان میں مجموعی طور پر 753 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اکتوبر 2023 میں سمندرپار پاکستانیوں نے آر ڈی اے کے ذریعہ پاکستان میں 50 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق سمندرپار پاکستانیوں نے ستمبر 2020 کے بعد سے لے کراب تک نیا پاکستان روایتی سرٹیفیکیٹس میں 316 ملین ڈالر، نیا پاکستان اسلامی سرٹیفیکیٹس میں 412 ملین ڈالر اور پاکستان سٹاک مارکیٹ میں 25 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

پاکستان

جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب جاری

وزیراعظم شہباز شریف تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کر رہے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب جاری

اسلام آباد: یوم دفاع و شہدا کے سلسلے میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں شہداء اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقریب جاری ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کر رہے ہیں۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اعلیٰ سول و عسکری قیادت اور دیگر معززین بھی شریک ہیں۔


وزیر اعظم شہباز شریف نے یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔

پڑھنا جاری رکھیں

تفریح

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا بطور ہولی وڈ پروڈیوسر ڈیبیو

خوراک کی تلاش میں سمندر کی تہہ تک پہنچنے والی غوطہ خور کوریا کی خاتون کی کہانی پر بنائی گئی فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا بطور ہولی وڈ پروڈیوسر ڈیبیو

پاکستان کے شہر سوات سے تعلق رکھنے والی اورعالمی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے فلم ”دی لاسٹ آف دی سی ویمن“ نامی دستاویزی فلم سے بطور ہولی وڈ پروڈیوسر ڈیبیو کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق ملالہ یوسف زئی کی مذکورہ دستاویزی فلم کو ان کی پروڈکشن کمپنی ”ایکسٹرا کریکیولر“ نے تیار کیا ہے،اسی  کے تحت ملالہ دیگر فلمیں بھی بنائیں گی۔

خوراک کی تلاش میں سمندر کی تہہ تک پہنچنے والی غوطہ خور کوریا کی خاتون کی کہانی پر بنائی گئی فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا ، مذکورہ دستاویزی فلم کو ملالہ کے ساتھ امریکی اور کورین پروڈیوسرز نے بھی پروڈیوس کیا ہے ، اس کی ہدایات کورین فلم ساز نے ہی دی ہے۔

فلم’دی لاسٹ آف دی سی ویمن’ کو امریکا کی اسٹریمنگ ویب سائٹ ایپل ٹی وی پلس پر ریلیز کیا جائے گا ، ’دی لاسٹ آف دی سی ویمن‘ کو آئندہ ماہ 11 اکتوبر کو ٹی وی پر ریلیز کردیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ملالہ یوسف زئی نے ستمبر 2022 میں اپنی فلم پروڈکشن کمپنی کو متعارف کرایا تھا اور ساتھ یہ بھی  تصدیق کی تھی کہ وہ نیٹ فلیکس اور ایپل ٹی وی سمیت دیگر اسٹریمنگ ویب سائٹس کے لیے فلمیں اور خصوصی طور پر دستاویزی فلمیں تیار کریں گی۔

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

خیبر پختونخوا کے ہندوں ، سکھوں کے میرج ایکٹ2017 کے تحت مسائل حل نہ ہوسکے

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے  میرج ایکٹ تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

خیبر پختونخوا کے ہندوں  ،  سکھوں کے  
 میرج ایکٹ2017 کے تحت   مسائل حل نہ ہوسکے

آزادی کے 77سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے ہندوں اور سکھوں کے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے ۔ 
خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا جاسکا ۔ ہندوں برادری کے شادی کے بندھن کے کچے ڈور پکے نہ ہوسکے تو میتوں کے انتم سنسکار کیلئے صوبائی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کا قضیہ تاحال حل طلب ہے۔ وطن عزیز کے آزادی کے 77سال گزرنے کے باوجود اقلیتی برادری کئی اہم مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئےہندوں  میرج ایکٹ2017میں تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے ہندوں کی اپنے مذہب کے لحاظ شادی کی  رسومات کی ادائیگی تو ہو جاتی ہے لیکن سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کو قانونی تحفظ نہیں ملتا اور  علیحدگی کی صورت میں خواتین کو حاص طور پر کئی مشکلات درپیش ہوتی ہے ۔
اسی حوالے سے جی این این میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندوں کمیونٹی کے مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے   فوکل پرسن ہارون سرب دیال  کا کہنا تھا  کہ ایکٹ کو بنے 7سال اور 4 ماہ ہوگئے ہیں ، لیکن اگر رولز نہیں ہے تو اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا ۔

ایکٹ میں ہندوں کے شادی ،علیحدگی ،اموات کی صورت میں سیکسشن اور وراثت  کےلئے قوانین تو موجود ہے لیکن رولز کی صورت میں طریقہ کار تاحال وضعہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف اگر عدالتوں کی بات کی جائے تو لوئر کورٹس سے اعلی عدالتوں تک درجنوں مقدمات التواء کا شکارہیں ۔
ہندوں مذہب کے مطابق شادیاں تو ہو جاتی ہیں لیکن اس کا سرٹیفکیٹ یا شادی پرتھ نہیں بن سکتا حالانکہ ایکٹ میں اس 25 شرائط موجود ہے جس میں میاں بیوی کی صحت ،عمر ،بیماریوں ،پہلے سے شادی شدہ ہونے اور اسی طرح گواہان اور شادی کرانے والے کے حوالے سے قوانین درج ہیں لیکن سرکاری میں اس شادی کو رجسٹرڈ کرنے کی صورت میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اسی کے ساتھ اگر کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ آجائے تو عدالت میں سب سے پہلے شادی کا سرٹیفیکیٹ یا شادی پرتھ مانگا جاتا ہے پھر بچوں کے مینٹینشش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کے حوالگی کے مسائل الگ ہیں جس کےلئے ایکٹ کی وضاحت  یعنی رولز کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہندوں میرج ایکٹ  کے رولز نہ بننے پر ہاروں سرب دیال کے اظہار خیال کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل جی این این کوبتایا  کہ رولز نہ ہونے سے شادیاں ،بچوں کی پیدائش اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں بن رہا ،جس کی وجہ سے بچوں کو نہ صرف سکول میں داخلہ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ہندوں خاندانوں کو سفر میں بھی مشکلات  پیش آرہی ہوتی ہے ۔ 

اگر شادیاں رجسٹرڈ نہیں تو قانونی طور پر ہندوں جوڑوں کی علیحدگی کی صورت میں عدالت میں کیس دائر کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کا مسئلہ سامنے آتا چونکہ رجسٹریشن نہیں ہوتی تو اکثر اوقات شوہر بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے پھر اس کی وجہ سے خواتین کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عدالت کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ انکی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں ہے ،یہ بچے کس کےہیں جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شادی کہاں رجسٹرڈ کروانی ہے بڑے شہروں میں یونین کونسل یا نیبر ہوڈ کونسل ہیں جن میں اکثریتی جگہوں پر انکے نمائندے موجود نہیں کیونکہ کسی بھی شادی کو رجسٹرڈ کرنے کےلئے اس کمیونٹی کے نمائندوں کا ہونا بہت ضروری   اس کے ساتھ انکو اس حوالے سے کوئی آگاہی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے قانونی تقاضی پورے نہیں ہو رہے ہیں اور ہرطرف مشکلات ہی مشکلات ہے ۔مہوش محب کاکا خیل نے  جائیداد میں  وراثت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثت کی تقسیم اور حصول ہندوں کمیونٹی کےلئے  بہت بڑا مسئلہ ہے اگر شادی پرتھ  رجسٹرڈ نہیں تو پھر کسی کے بیوی بچے جائیداد میں حصہ کا دعوی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح بیوہ ہندو خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔علیحدگی کی صورت میں اگر کسی خاتون کے بچے ہوں تو انکے خرچہ کا مسئلہ آجاتا ہے اور اکثر شوہر بچوں سے انکار کردیتا ہے ۔شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے مثبت حل کےلئے رولز کا وجود میں آنا بہت ضروری ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے اگر ہندوں کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے قید سے آزاد ہونے کےلئے ہندووں اور سیکھوں کو پشاور میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے وجہ سے بھی دشواریاں درپیش ہیں، ہندووں اور سکھوں کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات احسن طریقے سے ادا کرنے کےلئے انہیں شمشان گھاٹ میں جلانا بہت ضروری ہے جہاں دونوں کمیونٹیز کے لوگ اپنے پیاروں کو جلانے کے بعد انکے سولہویں سنسکار کے طور پر انکی استیوں کو دریاں میں بہایا جاتا ہے ۔

مذہبی اعتبار سے شمشان گھاٹ کاآبادی سے دور اور دریاں کے کنارے ہونا  اس کے اہم تقاضوں میں شامل ہے لیکن پشاور کے ہندوں اور سکھ برادری اپنے پیاروں کو 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر بنائے گئے شمشان گھاٹ لیکر جاتے ہیں جس پر وقت اور پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہے  اور اکثر غریب افراد اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں ۔

سکھ کمیونٹی کے رہنما اور سماجی شخصیت بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ  مسئلے کے حل کےلئے انہوں نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا اور عدالتی احکامات کی روشنی  میں جہاں صوبائی حکومت نے شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کے جگہ کےلئے رقم  مختص کی وہی پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں جگہیں بھی دیکھا دئیے لیکن یا تو وہ جگہیں شرائط پر پورا نہیں اتررہے تھے  اور یا وہاں کی مقامی آبادی نے اعتراض اُٹھا جس کی وجہ سے تاحال ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ حل نہ ہو سکا ۔
اس کی وجہ سے ہمارے مردوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ استطاعت نہ رکھنے والے افراد مجبورا اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔ 

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوں کی مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال  نے کہا کہ ایک تو پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں دوسری بات یہ کہ جہاں شمشان گھاٹ موجود ہے وہاں بھی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے مثلا کوہاٹ میں شمشان گھاٹ دشوار گزار علاقے میں ہیں جہاں میت کو جلانے کے بعد استیاں 52کلومیٹر دور خوشحال گڑھ لیکر جانا پڑتا ہے جبکہ پشاور سے 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ تو موجود ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور وہاں رسومات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہے ہیں ۔مثال کے طور پر استیوں کو دریا میں بہانے کےلئے اٹک کے مقام پر سیڑھیاں موجود نہیں اسلئے حکومت سے مطالبہ بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے ہیں کہ نوشہرہ حکیم آباد میں جگہ ہیں جو دریا کے کنارے اور آبادی سے دور بھی اور وہ ہمارے لئے مقدس بھی جبکہ پشاور ،نوشہرہ اور مردان سے آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے جس پر کسی کا اعتراض بھی نہیں لہذا اس جگہ اگر شمشان گھاٹ تعمیر کیا جائے تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ۔

سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما روی کمار سے جب ہندو اور سکھ کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو روی کمار نے جی این این کو بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کےلئے سابق دور حکومت میںٰ کام شروع ہوا جس میں ہمارے تھینک ٹینکس نے اہم کردار ادا کیا ۔ تھینک ٹینکس نے رولز کے حوالے سے  سفارشات مرتب کئے جس کو سٹیڈی کرنے کے بعد سات اعتراض لگائے گئے تاہم وہ ساتھ اعتراض بھی ختم کردیئے گئے ہیں جس کے بعد ان رولز کو صوبائی کابینہ سے بہت جلد پاس کرایا جائے گا۔
روی کمار نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف شمشان گھاٹ بلکہ مسیحی قبرسانوں کےلئے بھی  گزشتہ دور حکومت میں سیکشن فور لگا کر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کے اعتراضات یا شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زمین مختص نہیں ہوئی ۔

اس کے بعد سٹیٹ لینڈ کیلئے  حکومت سے درخواست کی گئی لیکن کچھ سیاسی وجوہات کے بنا پر صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نگران حکومت میں اس کام کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا  تاہم نئے حکومت آنے کے بعد اب جیسے ہیں محصوص نشستوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس پر دوبارہ کام کا آغاز کرینگے تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہو جائے 
قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہے اور تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق جس کےلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ انہیں تمام حقوق دیئے جائے ۔

رپورٹ سید کامران علی شاہ  (رپورٹر پشاور بیورو)

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll