جی این این سوشل

پاکستان

عمران خان کا پارٹی لیڈر شپ اور وکلاء کو ملاقاتوں کی اجازت نہ دینے پر عدالت سے رجوع

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں وزارت داخلہ، ہوم سیکرٹری ، حکومت پنجاب کے ساتھ ، جیل سپرنٹنڈنٹ اور وزارت دفاع کو فریقین بنایا گیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

عمران خان کا پارٹی لیڈر شپ اور  وکلاء کو ملاقاتوں کی اجازت نہ دینے پر عدالت سے رجوع
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی لیڈر شپ اور وکلاء کو ملاقاتوں و مشاورت کی اجازت نہ دینے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں وزارت داخلہ، ہوم سیکرٹری ، حکومت پنجاب کے ساتھ ، جیل سپرنٹنڈنٹ اور وزارت دفاع کو  فریقین  بنایا گیا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود سپرنٹنڈنٹ جیل وکلاء اور پارٹی لیڈرشپ سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے عمران خان سے مشاورت کی اجازت دی تھی۔فریقین کی بدنیتی کی وجہ سے وہ عمل بھی مکمل نہ ہوا، جیل میں اس پورے پراسس کو حساس ادارے کے اہلکار دیکھتے ہیں، سول انتظامیہ کے کام میں مداخلت کے باعث بانی پی ٹی آئی پارٹی لیڈر شپ سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کر پاتے۔

اسلام آباد ہائیکوٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کو جیل میں اسیری کے دوران دن میں 15 افراد سے ملاقات کی اجازت تھی جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اس حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔

دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ عمران خان کو جیل میں پارٹی لیڈر شپ سے مختلف امور پر مشاورت کی اجازت دی جائے، حساس اداروں کو سول انتظامیہ کے امور میں مداخلت سے روکا جائے۔

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی فنڈز نہ دینے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں

اراکین اسمبلی نے فنڈز کی بندربانٹ پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیراعلیٰ کے خلاف شکایات کردیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی فنڈز نہ دینے پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں

بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے ارکان نے فنڈز کی بندربانٹ پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو وزیراعلیٰ کے خلاف شکایات کردیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز دینے کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی سے نالاں ہو گئے اور انہوں نے پارٹی قیادت کو سرفراز بگٹی کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت نے ارکان صوبائی اسمبلی کی شکایات کا نوٹس لیا ہے، جس کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری 4 جولائی سے بلوچستان کا دورہ کریں گے، اس دوران وہ پیپلزپارٹی بلوچستان کے ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کریں گے اور ارکان کی شکایات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ارکان بلوچستان اسمبلی کو چند مخصوص ارکان کو فنڈز ملنے اور انہیں نظر انداز کرنے پر تحفظات ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار خاتون جج چیف جسٹس کے عہدے پرفائز

جوڈیشل کمیشن نے متفقہ طور پر لاہور ہائیکورٹ کیلئے جسٹس عالیہ کے نام کی منظوری دے دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار خاتون جج  چیف جسٹس کے عہدے پرفائز

لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون جج چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوگئی ہیں، جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس نامزد کردیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

تاریخ میں پہلی بار چیف جسٹس کا تقرر تین ججز کے درمیان ووٹنگ کے زریعے ہوا، جسٹس عالیہ ہائیکورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھیں۔

لاہور کی جسٹس عالیہ نیلم 1966 میں پیدا ہوئیں، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے 1995میں لاء کی ڈگری حاصل کی، جسٹس عالیہ نیلم نے قانون کے دیگر ڈپلومے بھی کر رکھے ہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم 1996 میں بطور وکیل رجسٹرڈ ہوئیں، 1998 میں ہائیکورٹ جبکہ 2008 میں سپریم کورٹ کی وکیل بنیں، جسٹس عالیہ نیلم آئینی، سول، فوجداری، دہشتگری سمیت دیگر شعبوں میں پریکٹس کرتی رہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم 2013 میں لاہور ہائیکورٹ کی ایڈہاک جج کے طور پر تعینات ہوئیں اور 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll