جی این این سوشل

پاکستان

گلگت بلتستان حکومت: عشق کا پہلا باب

پر شائع ہوا

کی طرف سے

گلگت  بلتستان حکومت ایک سال مکمل کرگئی۔ سیاست کے حرف آخر اسمبلیوں تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ پچھلی صفوں پر کسی کی نظر پڑگئی اور نئی صف بندی کردی گئی۔ بنیادی عنصر میں فرق نہیں آیا مگر زیلی اور ضمنی موضوعات 180کے زاویہ پر تبدیل ہوگئے۔

فہیم اختر Profile فہیم اختر

 ہواؤں کے رخ نے ایسا پانسہ پلٹ دیا کہ لمحوں میں مسافتوں کے فاصلے اچانک طے ہوگئے۔ ہوا کے رخ پر وہ شجر بھی مڑ گئے جو اپنی جڑوں کو شاید زمین کی میخ سمجھ بیٹھے تھے۔  نومبر 2020 کے نصف میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حافظ حفیظ الرحمن، سید مہدی شاہ، فدا محمد ناشاد، مہدی شاہ کی پوری کابینہ، حافظ حفیظ الرحمن کی پوری کابینہ ہار گئی اور اکثر وہی جیتے جن پر انگلی رکھی گئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف گوکہ اپنے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو بڑی تعداد میں نہیں جتواسکی لیکن حمایت یافتہ امیدواروں کو زبردست انداز میں جتوانے میں کامیاب ہوسکی ۔ انتخابی نتائج حسب سابق و حسب دستور رقص و سرور اور الزامات کی زد میں رہے اور سب سے زیادہ حلقہ 2گلگت کے معاملات اٹکے رہے جہاں پر پیپلزپارٹی کے جمیل احمد اور تحریک انصاف کے فتح اللہ خان کے درمیان کئی روز تک مقابلہ متنازعہ بنا رہا، پیپلزپارٹی کے معاملات صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے دیکھے جبکہ تحریک انصاف کے معاملات میں فتح اللہ خان خود کھڑا رہا۔ اس وقت جو وعدے اعلانات اور دعوے پیپلزپارٹی کی جانب سے کئے گئے وہ سارے ناکام ثابت ہوگئے۔ ڈپٹی کمشنر آفس کا گھیراؤ کیا گیا، گاڑیوں کو جلایا گیا، ہوائی فائرنگ بلکہ ایک معصوم لڑکے کو گولی بھی لگ گئی۔ پیپلزپارٹی اس ساری صورتحال پہ صرف اس قیاس کے ساتھ کھڑی تھی کہ مظاہروں اور طاقت کے زریعے اپنے مطالبات منوائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اسمبلی بننے کے بعد چند ایک روز تک فتح اللہ پر گولہ باری کی گئی، وزیراعلیٰ گلگت  بلتستان خالد خورشید نے اپنی پہلی تقریر میں پیپلزپارٹی کے مطالبے پر اعلان کیا کہ وہ حلقہ2 کے لئے کمیشن بنائیں گے لیکن اس کے بعد پیپلزپارٹی کو وزارت کے برابر عہدہ ملا، تین اہم کمیٹیوں کی سرپرستی ملی وغیرہ وغیرہ جس کے بعد اب صرف یاد دہانی کے لئے کوئی پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت، ان کی پالیسیوں اور اس کے اثرات پر مفصل مضمون درکار ہے تاہم گزشتہ ایک سال میں بالخصوس اسمبلی کے معاملات میں حاصل شدہ اہداف درج بالا ہی ہیں، کونسل انتخابات میں نواز خان ناجی کی غیرت نہیں جاگتی تو مزید صورتحال واضح ہوجاتی۔

گلگت  بلتستان حکومت بھی نئے تجربوں کی خواہشمند معلوم ہورہی ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں آج کی حکومت اپوزیشن میں بہت کم نظر آئی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ہاتھ وہ چیزیں نہیں لگ رہی ہیں جس سے عوام کی نبض کو پکڑا جاسکے۔ ایسی غلطیوں کو ماضی کی حکومتوں سے زیادہ دہرایا ہے جن کے باعث گزشتہ ادوار اور ارباب اختیار پر سوالات اٹھتے نظر آئے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی اور واضح مثال گلگت  بلتستان کی عالی شان عمارت ہے جو اپنی روح کے اعتبار سے کھوکھلی سی لگ رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال تک سپیکر جی بی اسمبلی کا اپنا رویہ کنٹیجنٹ ملازمین کا جیسا رہا ہے جن کو محکمہ کی کارکردگی اور اس کے چہرے سے کوئی غرض نہیں رہی ہے تاہم ڈپٹی سپیکر نے چند اجلاسوں میں اس کو کور دینے کی کوشش کی ہے۔ اسمبلی کا مینڈیٹ ہے کہ کم از کم 120 دن تک اجلاس ہونے چاہئے لیکن گزشتہ ایک سال کے اندر 30دن بھی مشکل سے پورے نہیں ہوتے ہیں جن سے اگر تعارفی اجلاس، خصوصی اجلاس برائے قرارداد بسلسلہ عبوری صوبہ، پری بجٹ اجلاس جیسے چیزوں کو نکالا جائے تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔ اسمبلی میں حکومت کی تیاری کا عالم بھی قابل دید ہے جہاں پر صوبائی وزیر فتح اللہ، صوبائی وزیر جاوید منوا، اور مشیر خوراک شمس لون کے علاوہ کوئی اٹھ کر یہ اعلان بھی نہیں کرسکتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ ہیں اور انہیں عمران خان کی قیادت و پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ سینئر وزیرراجہ زکریا اور مشیر قانون سہیل عباس بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مجموعی صورتحال کسی صورت بہتر نہیں ہے۔ یہ شاید انوکھا اعزاز جی بی اسمبلی کو جاتا ہے جس میں ایک سال تک اسمبلی کے قائمہ کمیٹیز نہیں بن سکے اور جب بنے تو سپیکر صاحب نے کاغذ کھولنے کی زحمت نہیں کی اور خلاف دستور اقدامات بھی سرانجام دئے۔ 

خالد خورشید کی اسمبلی میں بطور قائد ایوان پہلی تقریر پر جو ردعمل دیا گیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ گلگت  بلتستان اسمبلی کو کم از کم ترجمانی کے لئے فردوس عاشق ایوان کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن ایسا نہیں ہوا جہاں ایک طرف فردوس عاشق ایوان کی یہاں تقرری کا مطالبہ کیا جانا جائز معلوم ہوتا ہے وہی پر ڈھیروں غیر ضروری عہدوں کی بندربانٹ کردی ہے۔ اس وقت اگر زیر تحریر کالم کے دوران اگر حکومتی عہدوں کی گنتی شروع کروں تو ایک کالم جتنا مزید وقت لگے گا کون کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟ جو کچھ کررہا ہے کم از کم حکومت نہیں کررہا ہے۔ عوام اور حکومت کے بیچ میں خلا ہے جو کسی بھی وقت اپنے اظہار کو پہنچ سکتا ہے۔ اب تک غیر یقینی اورغیر معمولی صورتحال کے اندیشے کے پیش نظر عوامی اظہار سامنے نہیں آسکا ہے تاہم اس کا کسی بھی وقت سامنے آنا اور حکومت کو بیک فٹ پر جاکر وضاحتیں جاری کرنا کوئی دور نہیں ہے۔

جن نئے تجربات سے موجودہ حکومت گزری ہے ان میں ایک 370 ارب روپے کا جامع ترقیاتی پیکج ہے مگر اس پیکج کے خدوخال کو اب تک عوام کے سامنے اس طرح سے نہیں لایا جاسکا ہے جس طرح سے ہونا چاہئے۔ 370 ارب کا نعرہ یا اعلان بہت جلد سی پیک کی شکل اختیار کرجائے گا جہاں پر ہر ضلع پکارے گا کہ 370میں سے ہمیں کتنے ارب ملے ہیں۔ 

ترقیاتی منصوبوں کے کاغذی مراحل پر تحریک انصاف کی حکومت کو کریڈٹ نہ دینا سراسر زیادتی بلکہ بددیانتی ہوگی۔ مختصر وقت میں جس طریقے سے منصوبوں کو فورمز سے منظور کرایا ہے وہ انتہائی حیران کن اور اس بات کا مظہر ہے کہ جی بی حکومت کے وفاقی حکومت کے ساتھ اچھے معاملات چل رہے ہیں جن سے خالد خورشید حکومت بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔ گلگت  بلتستان میں 1کھرب سے زائد کا بجٹ پیش کیا گیا جو کہ 370 ارب کے جامع پیکج کا حصہ بھی ہے۔ 50 ارب مالیات کا گلگت تا شندور ایکسپریس وے کو بڑی تیزی سے منظوری دلائی اور ٹینڈر کرایا گیا اور ابتدائی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ آئندہ سال گلگت سٹی کے سیوریج پر کام شروع ہونا ہے جس کی منظوری مل چکی ہے، ہینزل پاور پراجیکٹ کا دوبارہ ٹینڈر کرکے ملازمین کی تقرری کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں کی مستقلی اور مطالبات کی منظوری عمل میں لائی گئی۔ تتہ پانی روڈ کے متبادل روڈ کی منظوری مل چکی ہے اور متوقع طور پر آئندہ سیزن تک نیا راستہ مل جائے گا۔گلگت  بلتستان کے آئینی حیثیت کے غبارے میں بھی ایک بار پھر زور سے ہوا پھونکی گئی ہے تاہم اس کا انحصار ملکی حالات و واقعات پر ہے جو حسب دستور تیسرے سال کے بعد لڑکھڑاتے یا ادھر ادھر ہوتے نظر آرہے ہیں۔سونی جواری پارک قائم کیا گیا ہے حدود و قیود اور کارکردگی سامنے آنا باقی ہے۔

دوسری جانب عوامی مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سردیاں اپنے عروج کی جانب گامزن ہیں لیکن توانائی کا معقول حل موجود نہیں ہے، سابقہ حکومت کے ائیرمکس گیس منصوبے میں سردمہری برتی گئی، اضلاع کے ہیڈکوارٹر ہسپتال اب بھی جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں، ہسپتالوں میں ٹیکنیکل سٹاف کے معاملات درپیش ہیں، گندم سبسڈی کی مد میں رقم تو بڑھائی گئی مگر گندم پھر بھی غیر معیاری اور قلیل، شہری علاقوں میں پانی کا بحران جیسے متعدد مسائل اب بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح پہلے سے موجود تھے۔ سالار قافلہ جتنی جلد مشاورتی عمل کا آغاز کرے گا اتنے بہتر نتائج ملیں گے، موجودہ کابینہ آپس میں ہی متفق نظر نہیں آتی ہے تو اس سے اوپر کسی مرحلے پر کیا کام کریگی۔ حکومت کا دل جگر گردہ بڑا ہوتا ہے، چھوٹی باتوں کو خندہ پیشانی سے ہضم نہیں کریں گے تو کسی بڑے منصوبے کی جانب نہیں بڑھ سکیں گے۔ امید ہے عنایت کردہ محدود وسائل میں دوسرے سال عوام کے مسائل پر توجہ دینگے۔

نوٹ: یہ تحریر  لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت نے بلوچستان کے حلقہ پی بی 51 چمن کے 12 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا الیکشن کمیشن کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے تمام امیدواروں کی رضامندی سے معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام امیدواروں کو سن کر 10 روز میں فیصلہ کرے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے مخالف امیدوار اصغر خان اچکزئی کی درخواست پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن نے دوبارہ پولنگ کا حکم دیتے ہوئے اسپیکر کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما عبدالخاق اچکزئی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کس ضابطے کے تحت الیکشن کمیشن نے 12 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ الیکشن کا حکم دیا، الیکشن کمیشن نے نہ تو انکوائری کی نہ ہی کوئی اصول دیکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے 12 پولنگ اسٹیشنز کو دیکھا مگر دیگر کو نظر انداز کر دیا۔

جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن بولے کہ جن 12 پولنگ اسٹیشنز پر زیادہ ٹرن آوٹ کی درخواست کی گئی صرف انہی کو دیکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تو پورے حلقے کی دوبارہ انکوائری کروانا چاہیے تھی، اگر الیکشن کمیشن اپنا کام کر لیتا تو لوگوں کو عدالت نہ آنا پڑتا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کالعدم ٹی ٹی پی کی بزدلی اور موقع پرستی بے نقاب

ٹی ٹی پی کے رہنما دوغلے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی اپنے جنگجوؤں کی آگے سے قیادت نہیں کرتے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما دوغلے، موقع پرست، بزدل اور دھوکے باز ہیں۔ وہ ان خصلتوں کو پاکستان میں اپنے ناپاک عزائم کے لیے معصوم لوگوں کو پیادوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے رہنما دوغلے ہیں کیونکہ وہ اپنے نام نہاد مقصد کا پرچار تو کرتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے جنگجوؤں کی آگے سے قیادت نہیں کرتے، ان کی  مکمل قیادت جن میں مفتی نور ولی محسود، منگل باغ، محمد خراسانی، فقیر محمد شامل ہیں ، سبافغانستان میں مقیم ہے جبکہ ان کے جنگجو پاکستان میں ایک لاحاصل جنگ لڑ رہے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کئی کمانڈر افغانستان کے اندر مارے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر عمر خالد خراسانی، مفتی حسن سواتی، حافظ دولت خان، ملا فضل اللہ، عتیق الرحمان عرف ٹیپو گل مروت اور عمر منصور افغانستان میں نامعلوم حملہ آوروں کےہاتھوں قتل ہوئے۔ اپنے جنگجوؤں کی قیادت کرنےسے گریز کرتےریے اور بالآخر اقتدار اور پیسے کی خاطر اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں افغانستان کےاندر محفوظ اور آرام دہ ٹھکانوں میں مارے گئے۔

وہ موقع پرست اور چالاک ہیں کیونکہ وہ افغانستان میں آرام دہ زندگی گزارتے ہیں، لیکن اپنے بہکائے ہوئے ہرکاروں کو پاکستان میں سخت اور خوفناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جہاں بالآخر ان دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز نے ختم کر دیا ہے۔

پاکستان کی حکومت کے ساتھ حالیہ مفاہمتی عمل بھی اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے جہاں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے مفاہمتی عمل کی آڑ میں پاکستان میں اپنے قدم بڑھا کر موقع پرستی کا مظاہرہ کیا۔

شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ کے فتویٰ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان میں نام نہاد جہاد کے لیے غریب افغان شہریوں کو نشانہ بنانے اور آمادہ کرنے کے ذریعے ان کی ہیرا پھیری اور فریب کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال افغانستان کے صوبہ پکتیکا کا رہنے والا دہشت گرد ملک الدین مصباح ہے جو حال ہی میں شمالی وزیرستان کے غلام خان بارڈر سے پاکستان میں دراندازی کے دوران مارے گئے 7 حملہ آوروں میں شامل تھا۔

ٹی ٹی پی کے رہنما اپنے غیر ملکی آقاؤں سے مدد حاصل کرتے ہیں اور پاکستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے کے لیے ان کی کٹھ پتلیوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ پیسے کی خاطر وہ مسلمان ہونے کی مذہبی، اخلاقی اور اخلاقی اقدار کو بھول چکے ہیں اور وحشیوں کا روپ دھار رہے ہیں جو اپنے غیر ملکی آقاؤں کے کہنے پر مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی کے ارکان اور ان کے خاندانوں کو طالبان سے باقاعدہ امداد ملتی ہے اور یہ کہ افغان حکام مبینہ طور پر ٹی ٹی پی رہنما نور ولی محسود کو ماہانہ $50,500 ڈالر فراہم کرتے تھے۔

ٹی ٹی پی کے رہنما اپنے ان بہکائے ہوئے دہشتگرد ہرکاروں کااستحصال کرتے ہیں جنہیں ٹشو پیپرز کے طور پر استعمال کرنے کے بعد ضائع یا پھینک دیا جاتا ہے۔

غریب اور معصوم لوگوں کو خودکش حملوں کے لیے برین واش کیا جاتا ہے لیکن خود لیڈران اور ان کے رشتہ دار کبھی بھی لڑائی/خودکش حملوں میں حصہ نہیں لیتے۔

ٹی ٹی پی کے رہنما پاکستان کے مذہبی، اخلاقی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار سے پوری طرح غافل ہیں اور مذہبی جوڑ توڑ، جبر، دھمکی اور خوف کے ہتھکنڈوں کے ذریعے معصوم لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ پاکستانی عوام ٹی ٹی پی کے خود غرضانہ مقاصد اور ان کے "فسادی ایجنڈے" سے بخوبی واقف ہیں۔

پاکستانی عوام کی حمایت سے سیکیورٹی فورسز اپنی لگن اور عزم کے ذریعے پاکستان سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کر دیں گی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا 28ویں یومِ تاسیس کے موقع پر خصوصی پیغام

28 برسوں کے دوران ربّ ذوالجلال کی مدد اور نصرت ہمارے شاملِ حال رہی اور ہمارا پیغام ملک کے کونے کونے تک پھیلا، عمران خان

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا 28ویں یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ  یومِ تاسیس کے موقع پر کارکنان کو مبارکباد پیش کرتا اور ربّ العزّت کا شکر ادا کرتا ہوں۔

بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ان 28 برسوں کے دوران ربّ ذوالجلال کی مدد اور نصرت ہمارے شاملِ حال رہی اور ہمارا پیغام ملک کے کونے کونے تک پھیلا، اقبال کے تصوّرات اور مملکتِ خداداد پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کا ویژن روزِ اوّل سے ہماری پرامن سیاسی جدوجہد کی بنیاد ہے۔

اہوں نے کہا کہ انصاف، انسانیت اور خودداری کے آفاقی ایجنڈے کے ساتھ شروع کیا جانے والا سیاسی سفر نشیب و فراز سے گزرتا ہوا آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور قوم کی حقیقی آزادی کی منزل کے قریب تر آن پہنچا ہے، پی ٹی آئی کا 28برسوں پر محیط یہ سیاسی سفر ان آزمائشوں اور امتحانوں کا خلاصہ ہے جس کی نظیر ملکی سیاست میں نایاب ہے،

عمران خان نے مزید کہ اکہ گزشتہ دو برسوں کے دوران بالخصوص دستور و قانون کے پرخچے اڑا کر، اداروں کو تباہی کے گھاٹ اتار اور جمہوریت کا جنازہ نکال کر تحریک انصاف کو مٹانے کی وحشیانہ کوشش کی، قوم کے ہر طبقے خصوصاً نوجوانوں اور خواتین نے پی ٹی آئی کے نظریے کی پاسبانی کی اور جبر کے زور پر قوم پر ابدی غلامی مسلّط کرنے کی کوششوں کو اپنی ہمّت و استقامت سے ناکام بنایا۔

سابق وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ قوم کی حقیقی آزادی کیلئے پی ٹی آئی کا دست و بازو بننے کی پاداش میں لازوال قربانیاں پیش کرنے والے کارکنان اور ووٹرز خصوصاً اپنے شہداء اور باہمت اسیران کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں،

عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی وفاق کی تمام اکائیوں میں یکساں طور پر مقبول سیاسی قوت اور قوم کی امنگوں کی امین ہے، اپنی جماعت کے یومِ تاسیس کے موقع پر قوم سے اپنے عہد کا اعادہ کرتا ہوں کہ کبھی غلامی قبول کروں گا نہ اپنی قوم کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکنے دوں گا، پاکستان کا مستقبل آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا و فروغ میں پنہاں ہے،

ان کے حصول کی اصولی جدوجہد سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے، کارکنان اپنی صفوں میں یکسوئی اور اتحاد کا بدرجہ اتم اہتمام کریں اور ملک کو دستوری بےراہ روی اور لاقانونیت کے شکنجے سے آزاد کروانے کی جدوجہد کے فیصلہ کن مرحلے کیلئے کمربستہ ہوں

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll