جی این این سوشل

پاکستان

تماشاگروں کا جنگل

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ہم بطور پاکستانی صرف ٹی وی اوراخبارات کی حد تک سیاسی رہ گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی جدتوں نے سیاست کو گلی،کوچے،تھڑوں اور میدانوں سے نکال کر اسے ٹی وی پر ہونے والے سیاسی مباحثوں اور اخبارات میں چھپے بیانات تک محدود کر دیا ہے۔

ملک عاصم ڈوگر Profile ملک عاصم ڈوگر

اب مزید آسانی ہو  گئی ہے، ہمارے ہاتھوں میں ہروقت موجودانٹرنیٹ والا فون اوراس میں موجود سوشل میڈیا ایپس ہمیں ہرخبر،بیان اورواقعے سے آگاہ کر دیتے ہیں۔پچھلی ڈیڑھ دہائی سے ٹی وی کے شعبہ خبراورتجزیئے سے جڑے ہونے کی وجہ سےاس تبدیلی کو ہوتے دیکھ رہا ہوں۔اس کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے اس کے سوسائٹی پر اثرات کا مشاہدہ بھی جاری ہے۔ پرائیویٹ چینلز سے قبل پی ٹی وی پر 9 بجے خبرنامے کے بعد ٹی وی کی گنجائش ختم ہوجاتی تھی۔اس کی جگہ  موسم کے حساب سے بیٹھکوں ، ڈیروں یا تھڑوں پر سیاسی گپ شب کا رواج عام تھا۔ لوگ مختلف ذرائع سے حاصل اپنی اپنی معلومات کے مطابق مقامی ،قومی اوربین الاقوامی امور پرگفتگو کرتے تھے۔ان بیٹھکوں کے ساتھ ہرعلاقےکا اپنا کلچر اور روایات بھی جڑی ہوئی تھیں۔باہمی احترام اور برداشت گفتگو کا بنیادی جزورہتے تھے۔پرویز مشرف کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو اجازت ملنے کے بعد تیز رپورٹنگ اور سب سے پہلے خبر کا کلچر متعارف کرایا گیا۔ دوسرا شام 8 بجے سے 10 تک سیاسی مباحثوں نےجگہ لی۔ یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے ہمارے ہاں سوچنے، سجھنےاور دیکھنے کے انداز کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔

تیز تر معلومات اورخبروں کی ترسیل، تجزیوں اور تبصروں کی وجہ سے ہم نے خود سوچنا چھوڑ دیا۔وہ لوگ جو خود گفتگو کے شرکاء تھے محض سامعین اور ناظرین بن کر رہ گئے۔اس سارے عمل نےعام آدمی کی نظام سے متعلق سوچ کو بہت متاثر کیا ہے۔خبروں کا بڑا حصہ سیاسی رپورٹنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کے لئے خبر کی مکمل گہرائی کی سمجھ، پوری اور درست معلومات،متعلقہ شعبے کا علم ہونا ضروری ہوتاہے۔خبر سامنےآنے کے بعد اس میں مزید تحقیق ، وقت اور وسائل بھی درکار ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں نیوز چینلز کی اٹھان سب پہلے، تیز تر، سب آگے وغیرہ پر رکھی گئی۔اس لئے مکمل اور درست خبر کی جگہ صرف بریکنگ نیوز ہی بڑا کریڈٹ بن گیاہے۔  اب اگر آپ کسی بھی چینل کو آن کریں تو خبر سے جڑے حقائق ، پالیسیز اور آئیڈیا کو چھوڑ کر واقعہ نویسی کو مکمل خبر کے طور پر پیش جا رہا ہے۔اس عمل میں بھی سنسنی خیزی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ نیوز میڈیا مینیجرز روزانہ کی بنیاد پراس ہیجان کو بڑھا نے کے نئے طریقوں پرغور کےعادی ہو چکے ہیں۔ دوسری کلاس کا تعلق نیوز چینلز پرہونے والےسیاسی ٹاک شوزسے ہے۔ہمارے ہاں شو کرنے والےاکثر افراد فیلڈ رپورٹنگ کا تجربہ ہی نہیں رکھتے۔لیکن پھر بھی سئنیر جرنلسٹ کہلاتے ہیں۔رئیل جرنلزم ان کا موضوع کار ہی نہیں۔وہ پہلے سے موجود سیاسی پوزیشننگ میں کسی ایک پر براجمان ہیں۔

موجودہ دور میں یہ تقسیم کافی واضح ہوچکی ہے۔اب لوگ ٹی وی سوئچ آن کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ پارٹی اینکر کا شو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ٹاک شوز میں ہونے والی مباحث کا کلچر، زبان اور عدم برداشت نے ہمارے سیاسی کلچر کودو طرح سے متاثر کیا ہے۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے سیاسی گفتگو کرنا بند کر دی۔ دوسرا خود سے سوچنا بند کردیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں عوامی سیاسی ڈائیلاگ معدوم ہو گیا ہے۔دوسرا غیر محسوس انداز میں دوسروں کو نظریات اور دلائل ہمارے ذہنوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ جس کا حتمی نتیجہ عدم برداشت اور مفاد پرستی کی صورت میں آرہا ہے۔اچھا ٹی وی ٹاک شو اسے سمجھا جاتا ہے جس میں زیادہ بحث ہو۔ بات تکرار سے تو تکار اور ہاتھا پائی تک جا پہنچے۔ اس رات شو کے اینکر اور پروڈیوسر کو بڑی اچھی ریٹنگ ملنے کی امید ہوتی ہے۔  یوں میڈیا کا بنیادی فکر تماشا گری میں منتقل ہو گیا ہے۔اب سرمایہ دارانہ نظام کے طاقت کے اس کھیل میں میڈیا ایک کھلاڑی بن گیا ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ملک کے عوام جو کہ اصل ہیں۔ جن کے لئے اداروں میں بیٹھے افراد نے پالیسیز تشکیل دینا ہے۔ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ میڈیا نے ان افراد سے سوال کرنا ہے کہ عوام کے یہ مسائل کب اور کیسے حل ہوں گے؟ لیکن پاورپلیئرکی حیثیت سے سوال کرنا اپنے مفادات کو زد میں لانے کے مترادف ہے۔سینئر اینکرزاور جرنلسٹ کی یہ کلاس اپنے تئیں گمان رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ ان تمام مسائل زدہ افراد کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ان اینکرز کی بڑے بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز پر لگی تصاویر، چیختے،چلاتے اور چنگھاڑتے پروموز کا مقصد صرف ریٹننگ کی دوڑ میں سب سے آگے رہنا ہے۔ان کا اپنا لائف سٹائل کسی طرح بھی ایک عام جرنلسٹ جیسا نہیں ہے۔میڈیا میں اب انھی کرداروں کا غلبہ ہے۔اگر آپ کو یقین نہیں تو صرف اسی نقطہ نظر سے ایک ہفتہ باقاعدگی سے ٹی وی چینلز دیکھ لیں۔آپ کو لگے گا کہ تماشا گروں کے جنگل میں آگئے ہیں۔

ملک عاصم ڈوگر

ملک عاصم ڈوگر جی این این میں سینئر پروڈیوسر ہیں

پڑھنا جاری رکھیں

ٹیکنالوجی

عازمین حج سوشل میڈیا پر فراڈ کمپنیوں کا نشانہ بننے سے بچیں ، سعودی حکام

حکومت کی طرف سے جاری کردہ ویزہ حاصل کریں یا جن ممالک میں یہ حج دفاتر نہیں ہیں وہاں کے عازمین یہ ویزہ ”نسک حج” (www.nusuk.sa ) کے پلیٹ فارم سے حاصل کریں

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ کے حکام نے رواں سال 1445 ہجری 2024 حج کرنے کے خواہاں عازمین کو خبر دار کیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے والی جعلی حج کمپنیوں کے فراڈ کا نشانہ بننے سے بچیں۔

سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت حج و عمرہ کے حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کا ارادہ رکھنے والے عازمین اپنے ملک میں حج دفاتر کے ذریعے سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ویزہ حاصل کریں یا جن ممالک میں یہ حج دفاتر نہیں ہیں وہاں کے عازمین یہ ویزہ ”نسک حج” (www.nusuk.sa ) کے پلیٹ فارم سے حاصل کریں۔ سعودی حکام نے کہا کہ سعودی وزارت حج و عمرہ جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے چلائی جانے والی مہموں کی گہری نگرانی کر رہی ہے جو اکثر کم اخراجات کے ساتھ حج کی ادائیگی کی پیشکش کرتی ہیں۔

سعودی وزارت حج و عمرہ نے متوقع عازمین پر زور دیا ہے کہ وہ خبر دار رہیں اور ایسی کسی پیشکش پر توجہ نہ دیں۔سعودی وزارت حج و عمرہ نے اس حوالہ سے عراق کی سپریم اتھارٹی برائے حج و عمرہ کی کوششوں کی تعریف کی جس نے عازمین کو حج کروانے کی پیش کش کرنے والی 25 سے زیادہ جعلی کمپنیوں کے ارکان کو گرفتار کیاہے۔ وزارت نے دیگر ممالک کی طرف سے اس مسئلہ پرقابو پانے کی کوششوں میں تعاون کو بھی سراہا۔ یہ بات خاص طور سے نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ عمرہ، سیاحت ، ورک، فیملی وزٹ اورٹرانزٹ ویزہ پر حج ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

وزارت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ سرکاری حکام کی طرف سے متعین کئے گئے ضابطوں پر عملدرآمد کیا جائے اورحج پیکیج کی پیشکش کرنے والی جعلی کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کرنے سے گریز کیا جائے۔ سعودی وزارت حج و عمرہ بیرون ملک جعلی حج کمپنیوں کے اشتہارات پر فعال انداز سے نظر رکھے ہوئے ہے اور تمام متعلقہ افراد پرزور دیتی ہے کہ وہ ایسی کسی بھی کمپنی بارے اطلاع دیں۔ بغیر اجازت کے حج کے واقعات کو کم کرنے کے لئے یہ تعاون ناگزیر ہے ۔ مصدقہ معلومات کے لئے عازمین سعودی وزارت حج و عمرہ کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا چینلز کو وزٹ کر سکتے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹیکنالوجی

ٹِک ٹاک فروخت کرنے کی غیر ملکی میڈیا رپورٹس درست نہیں

ٹاک ٹاک کی مالک چینی کمپنی کی جانب سے اسے فروخت نہ کیے جانے کی صورت میں سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعد امریکا میں ٹک ٹاک ایپ کا استعمال تقریباً ختم ہو جائے گا

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ٹک ٹاک کی مالک چینی کمپنی بائٹ ڈانس نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے مقبول وڈیو ایپ کو فروخت کرنے یا امریکا میں پابندی عائد کرنے والے قانون پاس کیے جانے کے بعد اس کا کمپنی کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق کمپنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ میں کہا کہ بائٹ ڈانس کا ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

کمپنی نے کہا ہے کہ بائٹ ڈانس کی جانب سے ٹِک ٹاک فروخت کرنے کی غیر ملکی میڈیا رپورٹس درست نہیں ہیں، اس پوسٹ میں مضمون کا ایک سکرین شاٹ بھی شامل ہے جس پر چینی حروف میں’’جھوٹی افواہ‘‘ کی مہر لگی ہوئی ہے۔

واضح  رہے کہ ٹاک ٹاک کی مالک چینی کمپنی کی جانب سے اسے فروخت نہ کیے جانے کی صورت میں سینیٹ سے بل کی منظوری کے بعد امریکا میں ٹک ٹاک ایپ کا استعمال تقریباً ختم ہو جائے گا۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

مریم نواز کی نیدرلینڈ کمپنیوں کو پنجاب میں سرمایہ کاری کی دعوت

ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور تجارتی تعلقات کے فروغ اور صوبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعلیٰ پنجاب نے نیدرلینڈ کی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو صوبے میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی ہے ۔

پاکستان میں نیدر لینڈ کی سفیر ہینا ئڈے سے جمعہ کے روز لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز  نے کہاکہ پنجاب فصلوں کی کاشت، آبپاشی کے طریقوں اورجدید زرعی مشینوں سمیت مختلف شعبوں میں نیدر لینڈز سے تعاون کا خواہاں ہے۔

واضح رہے کہ ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور تجارتی تعلقات کے فروغ اور صوبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا ۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll