جی این این سوشل

تجارت

ملک میں بسوں اور ٹرکوں کی فروخت میں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 45 فیصد کی کمی ریکارڈ

گزشتہ سال اکتوبر میں ملک میں بسوں اور ٹرکوں کے 326 یونٹس فروخت ہوئے تھے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ملک میں بسوں اور ٹرکوں کی فروخت میں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 45 فیصد کی کمی ریکارڈ
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

اسلام آباد: ملک میں بسوں اور ٹرکوں کی فروخت میں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 45 فیصد کی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔

آل پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں ملک میں 730 یونٹس بسوں اور ٹرکوں کی فروخت ریکارڈکی گئی ہے جو گزشتہ مالی سا ل کی اسی مدت کے مقابلہ میں 45 فیصد کم ہے۔

اکتوبر میں ملک میں بسوں اور ٹرکوں کے 183 یونٹس کی فروخت ریکارڈکی گئی جو گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلہ میں 44 فیصدکم ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ملک میں بسوں اور ٹرکوں کے 326 یونٹس فروخت ہوئے تھے۔

ستمبر کے مقابلہ میں اکتوبر میں بسوں اور ٹرکوں کی فروخت میں ماہانہ بنیادوں پر ایک فیصد کی کمی ہوئی۔ ستمبرمیں ملک میں بسوں اور ٹرکوں کے 185 یونٹس کی فروخت ریکارڈکی گئی جو اکتوبر میں کم ہو کر 183 یونٹس ہو گئی۔

پاکستان

پاک بحریہ نے یومِ دفاع و شہداء کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش

شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے دشمن کی کھلی جارحیت کو پسپا کیا، ایڈمرل نوید اشرف

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پاک بحریہ نے یومِ دفاع و شہداء  کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش

پاک بحریہ نے یومِ دفاع و شہداء پاکستان عقیدت اور جوش و جذبے سے منایا۔

یہ دن ہماری مسلح افواج، شہدا، غازیوں اور قومی ہیروز کی عظیم قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے؛ جو 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے۔

اس موقع پر اپنے پیغام میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف نے شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے دشمن کی کھلی جارحیت کو پسپا کیا اور عوام کی مدد سے اس کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا۔ یہ دن مادر وطن کے دفاع کے لیے ہمارے اتحاد، قربانی کے جذبے اور قوم اور مسلح افواج کے ناقابل تسخیر رشتے کی علامت اور ان سرفرشوں کی عظمت کا مظہر ہے؛ جو اپنی منصوبہ بندی میں زیرک، حملہ کرنے میں بے خوف او دشمن کے دلوں پر ہیبت طاری کرنے والے تھے۔

نیول چیف نے اپنے بحری محافظوں کے کارہائے نمایاں اور لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بحری سرحدوں کے دفاع اور سمندری تجارتی راستوں جو کہ ہماری معیشت کے روح رواں ہیں، کی حفاظت کے لئے پاک بحریہ ہمہ وقت تیار ہے۔

دن کا آغاز بحریہ کی تمام مساجد میں ملکی سالمیت اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعاﺅں سے ہوا اور 1965ء کی جنگ کے شہداء کے ایصال ِثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔

وائس چیف آف دی نیول اسٹاف وائس ایڈمرل اویس احمد بلگرامی نے نیول ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی، فاتحہ خوانی کی اور شہداء کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی۔ مختلف فیلڈ کمانڈز اور ہیڈ کوارٹرز میں بھی شہداء کی یادگاروں پر پھول چڑھائے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔

 بحریہ کے تمام یونٹس اور تنصیبات میں پرچم کشائی کی تقریبات ہوئیں جہاں کمانڈنگ آفیسرز نے افسران اور جوانوں کے اجتماعات سے خطاب کیا اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر پاک بحریہ کے تمام جہازوں اور یونٹس کی بحری روایات کے مطابق تزئین و آرائش کی گئی۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

جرم

کچے میں آپریشن : صدر مملکت نے وزیر داخلہ سندھ کو طلب کرلیا

وزیر داخلہ سندھ کراچی میں ہونے والے اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں گے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

کچے میں آپریشن : صدر مملکت  نے وزیر داخلہ سندھ کو طلب کرلیا

کراچی: کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف ہونے والے آپریشن پر صدر مملکت آصف زرداری نے وزیر داخلہ سندھ کو طلب کرلیا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیر داخلہ سندھ ضیاء لنجار کو بلاول ہاؤس طلب کرلیا ہے، ضیاء لنجار صدر مملکت کو صوبے میں امن و امان پر بریفنگ دیں گے۔

وزیر داخلہ سندھ کراچی میں ہونے والے اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کریں گے جب کہ کچے میں ڈاکوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں ضیاء لنجار صدر مملکت کو صوبے میں قانون سازی سے بھی آگاہ کریں گے، صدر زرداری کراچی میں صوبے کے امن و امان پر اجلاس کریں گے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

خیبر پختونخوا کے ہندوں ، سکھوں کے میرج ایکٹ2017 کے تحت مسائل حل نہ ہوسکے

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے  میرج ایکٹ تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

خیبر پختونخوا کے ہندوں  ،  سکھوں کے  
 میرج ایکٹ2017 کے تحت   مسائل حل نہ ہوسکے

آزادی کے 77سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے ہندوں اور سکھوں کے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے ۔ 
خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا جاسکا ۔ ہندوں برادری کے شادی کے بندھن کے کچے ڈور پکے نہ ہوسکے تو میتوں کے انتم سنسکار کیلئے صوبائی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کا قضیہ تاحال حل طلب ہے۔ وطن عزیز کے آزادی کے 77سال گزرنے کے باوجود اقلیتی برادری کئی اہم مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئےہندوں  میرج ایکٹ2017میں تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے ہندوں کی اپنے مذہب کے لحاظ شادی کی  رسومات کی ادائیگی تو ہو جاتی ہے لیکن سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کو قانونی تحفظ نہیں ملتا اور  علیحدگی کی صورت میں خواتین کو حاص طور پر کئی مشکلات درپیش ہوتی ہے ۔
اسی حوالے سے جی این این میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندوں کمیونٹی کے مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے   فوکل پرسن ہارون سرب دیال  کا کہنا تھا  کہ ایکٹ کو بنے 7سال اور 4 ماہ ہوگئے ہیں ، لیکن اگر رولز نہیں ہے تو اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا ۔

ایکٹ میں ہندوں کے شادی ،علیحدگی ،اموات کی صورت میں سیکسشن اور وراثت  کےلئے قوانین تو موجود ہے لیکن رولز کی صورت میں طریقہ کار تاحال وضعہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف اگر عدالتوں کی بات کی جائے تو لوئر کورٹس سے اعلی عدالتوں تک درجنوں مقدمات التواء کا شکارہیں ۔
ہندوں مذہب کے مطابق شادیاں تو ہو جاتی ہیں لیکن اس کا سرٹیفکیٹ یا شادی پرتھ نہیں بن سکتا حالانکہ ایکٹ میں اس 25 شرائط موجود ہے جس میں میاں بیوی کی صحت ،عمر ،بیماریوں ،پہلے سے شادی شدہ ہونے اور اسی طرح گواہان اور شادی کرانے والے کے حوالے سے قوانین درج ہیں لیکن سرکاری میں اس شادی کو رجسٹرڈ کرنے کی صورت میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اسی کے ساتھ اگر کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ آجائے تو عدالت میں سب سے پہلے شادی کا سرٹیفیکیٹ یا شادی پرتھ مانگا جاتا ہے پھر بچوں کے مینٹینشش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کے حوالگی کے مسائل الگ ہیں جس کےلئے ایکٹ کی وضاحت  یعنی رولز کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہندوں میرج ایکٹ  کے رولز نہ بننے پر ہاروں سرب دیال کے اظہار خیال کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل جی این این کوبتایا  کہ رولز نہ ہونے سے شادیاں ،بچوں کی پیدائش اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں بن رہا ،جس کی وجہ سے بچوں کو نہ صرف سکول میں داخلہ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ہندوں خاندانوں کو سفر میں بھی مشکلات  پیش آرہی ہوتی ہے ۔ 

اگر شادیاں رجسٹرڈ نہیں تو قانونی طور پر ہندوں جوڑوں کی علیحدگی کی صورت میں عدالت میں کیس دائر کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کا مسئلہ سامنے آتا چونکہ رجسٹریشن نہیں ہوتی تو اکثر اوقات شوہر بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے پھر اس کی وجہ سے خواتین کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عدالت کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ انکی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں ہے ،یہ بچے کس کےہیں جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شادی کہاں رجسٹرڈ کروانی ہے بڑے شہروں میں یونین کونسل یا نیبر ہوڈ کونسل ہیں جن میں اکثریتی جگہوں پر انکے نمائندے موجود نہیں کیونکہ کسی بھی شادی کو رجسٹرڈ کرنے کےلئے اس کمیونٹی کے نمائندوں کا ہونا بہت ضروری   اس کے ساتھ انکو اس حوالے سے کوئی آگاہی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے قانونی تقاضی پورے نہیں ہو رہے ہیں اور ہرطرف مشکلات ہی مشکلات ہے ۔مہوش محب کاکا خیل نے  جائیداد میں  وراثت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثت کی تقسیم اور حصول ہندوں کمیونٹی کےلئے  بہت بڑا مسئلہ ہے اگر شادی پرتھ  رجسٹرڈ نہیں تو پھر کسی کے بیوی بچے جائیداد میں حصہ کا دعوی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح بیوہ ہندو خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔علیحدگی کی صورت میں اگر کسی خاتون کے بچے ہوں تو انکے خرچہ کا مسئلہ آجاتا ہے اور اکثر شوہر بچوں سے انکار کردیتا ہے ۔شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے مثبت حل کےلئے رولز کا وجود میں آنا بہت ضروری ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے اگر ہندوں کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے قید سے آزاد ہونے کےلئے ہندووں اور سیکھوں کو پشاور میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے وجہ سے بھی دشواریاں درپیش ہیں، ہندووں اور سکھوں کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات احسن طریقے سے ادا کرنے کےلئے انہیں شمشان گھاٹ میں جلانا بہت ضروری ہے جہاں دونوں کمیونٹیز کے لوگ اپنے پیاروں کو جلانے کے بعد انکے سولہویں سنسکار کے طور پر انکی استیوں کو دریاں میں بہایا جاتا ہے ۔

مذہبی اعتبار سے شمشان گھاٹ کاآبادی سے دور اور دریاں کے کنارے ہونا  اس کے اہم تقاضوں میں شامل ہے لیکن پشاور کے ہندوں اور سکھ برادری اپنے پیاروں کو 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر بنائے گئے شمشان گھاٹ لیکر جاتے ہیں جس پر وقت اور پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہے  اور اکثر غریب افراد اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں ۔

سکھ کمیونٹی کے رہنما اور سماجی شخصیت بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ  مسئلے کے حل کےلئے انہوں نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا اور عدالتی احکامات کی روشنی  میں جہاں صوبائی حکومت نے شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کے جگہ کےلئے رقم  مختص کی وہی پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں جگہیں بھی دیکھا دئیے لیکن یا تو وہ جگہیں شرائط پر پورا نہیں اتررہے تھے  اور یا وہاں کی مقامی آبادی نے اعتراض اُٹھا جس کی وجہ سے تاحال ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ حل نہ ہو سکا ۔
اس کی وجہ سے ہمارے مردوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ استطاعت نہ رکھنے والے افراد مجبورا اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔ 

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوں کی مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال  نے کہا کہ ایک تو پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں دوسری بات یہ کہ جہاں شمشان گھاٹ موجود ہے وہاں بھی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے مثلا کوہاٹ میں شمشان گھاٹ دشوار گزار علاقے میں ہیں جہاں میت کو جلانے کے بعد استیاں 52کلومیٹر دور خوشحال گڑھ لیکر جانا پڑتا ہے جبکہ پشاور سے 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ تو موجود ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور وہاں رسومات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہے ہیں ۔مثال کے طور پر استیوں کو دریا میں بہانے کےلئے اٹک کے مقام پر سیڑھیاں موجود نہیں اسلئے حکومت سے مطالبہ بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے ہیں کہ نوشہرہ حکیم آباد میں جگہ ہیں جو دریا کے کنارے اور آبادی سے دور بھی اور وہ ہمارے لئے مقدس بھی جبکہ پشاور ،نوشہرہ اور مردان سے آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے جس پر کسی کا اعتراض بھی نہیں لہذا اس جگہ اگر شمشان گھاٹ تعمیر کیا جائے تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ۔

سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما روی کمار سے جب ہندو اور سکھ کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو روی کمار نے جی این این کو بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کےلئے سابق دور حکومت میںٰ کام شروع ہوا جس میں ہمارے تھینک ٹینکس نے اہم کردار ادا کیا ۔ تھینک ٹینکس نے رولز کے حوالے سے  سفارشات مرتب کئے جس کو سٹیڈی کرنے کے بعد سات اعتراض لگائے گئے تاہم وہ ساتھ اعتراض بھی ختم کردیئے گئے ہیں جس کے بعد ان رولز کو صوبائی کابینہ سے بہت جلد پاس کرایا جائے گا۔
روی کمار نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف شمشان گھاٹ بلکہ مسیحی قبرسانوں کےلئے بھی  گزشتہ دور حکومت میں سیکشن فور لگا کر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کے اعتراضات یا شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زمین مختص نہیں ہوئی ۔

اس کے بعد سٹیٹ لینڈ کیلئے  حکومت سے درخواست کی گئی لیکن کچھ سیاسی وجوہات کے بنا پر صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نگران حکومت میں اس کام کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا  تاہم نئے حکومت آنے کے بعد اب جیسے ہیں محصوص نشستوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس پر دوبارہ کام کا آغاز کرینگے تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہو جائے 
قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہے اور تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق جس کےلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ انہیں تمام حقوق دیئے جائے ۔

رپورٹ سید کامران علی شاہ  (رپورٹر پشاور بیورو)

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll