جی این این سوشل

پاکستان

عدلیہ مخالف بیان: فیصل واوڈا نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا

مصطفی کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

عدلیہ مخالف بیان: فیصل واوڈا نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا
عدلیہ مخالف بیان: فیصل واوڈا نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے نوٹس پر فیصل واوڈا نے اپنا جواب جمع کروا دیا۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے جمع کرائے گئے جواب میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ میں عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں فیصل واوڈا نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی بہتری تھا، عدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے۔

انہوںنے جواب میں کہا کہ توہین عدالت کا مبینہ ملزم عدالت کی عزت کرتا ہے، کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ملزم سمجھتا ہے کہ عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بے داغ ہونا چاہیے۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے پی ٹی آئی رؤف حسن، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان اور وزیراعظم شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی جواب کے ساتھ لف کر دیئے۔

سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے جواب میں استدعا کی کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر و رکن قومی اسمبلی مصطفی کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

مصطفی کمال نے بیرسٹر فروغ نسیم کے توسط سے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرادیا، جس میں مصطفی کمال نے کہا کہ ججز باالخصوص اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا دِل سے احترام کرتا ہوں۔ عدلیہ اور ججز کے اختیارات اور ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ سے متعلق اپنے ہر بیان باالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر غیر مشروط معافی کا طلب گار ہوں۔ معزز عدالت سے معافی کی درخواست اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔

یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

بعد ازاں سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا اور رہنماء ایم کیو ایم مصطفیٰ کی پریس کانفرنس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لے لیا تھا اور سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کیا تھا۔

پاکستان

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پہلے سپریم کورٹ بار کے وکیل تھے، اٹارنی جنرل اس وجہ سے کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پرنظرثانی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، جسٹس منیب اختربینچ کا حصہ نہیں بنے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پرنظرثانی کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں چاررکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس منیب اختربینچ میں موجود نہیں تھے۔

نظرثانی درخواست سپریم کورٹ بارکی جانب سے دائر کی گئی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت خط پڑھ کرکہا کہ جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب اخترنے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے، خط کے مطابق جسٹس منیب اختر فی الوقت بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جسٹس منیب اخترکہتے ہیں ان کے خط کو سماعت سے معذرت نہ سمجھا جائے، جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بینچ کا حصہ بنیں، ابھی بینچ اٹھنے لگا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پہلے سپریم کورٹ بار کے وکیل تھے، اٹارنی جنرل اس وجہ سے کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا جسٹس منیب اختر بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کو ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب نے آج معمول کے مقدمات کی سماعت کی ہے، اگرجسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ نہ بنے تو ججز کمیٹی معاملے کا جائزہ لے گی، بنچ سے الگ ہونا ہوتوعدالت میں آ کر بتایا جاتا ہے، جسٹس منیب اخترکومنانے کی کوشش کرتے ہیں، جسٹس منیب راضی نہ ہوئے تو کل نیا بنچ سماعت کرے گا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نظرثانی کیس دو سال سے زاید عرصہ سے زیرالتوا ہے، 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے، جسٹس منیب اخترکی رائے کا احترام ہے۔

صدرسپریم کورٹ بارنے کہا کہ خواہش اور دعا ہے کہ جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ بنیں۔

بیرسٹرعلی ظفر نے بھی بینچ کی تشکیل پراعتراض کر دیا، انھوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تین ججز نے بیٹھ کر بینچ بنانے ہوتے ہیں، دوججز بیٹھ کر بینچ تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی جج کو بینچ یا کمیٹی کا حصہ بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

بیرسٹرعلی ظفرنے مؤقف اپنا کہ جب کمیٹی کی تشکیل درست نہ ہو تو فل کورٹ کو معاملہ دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ کیا قانون میں فل کورٹ کا ذکرہے؟

بیرسٹرعلی ظفرنے جواب دیا کہ بحرانی کیفیت میں فل کورٹ ہی مسئلے کا حل ہے جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بحرانی کیفیت تب ہوتی جب چار رکنی بینچ سماعت کررہا ہوتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس منیب اخترنے خط کیا فائل میں رکھنے کا لکھا ہے، میرے حساب سے ججز کے خطوط فائل کا حصہ نہیں ہوتے، شفافیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس منیب کو بینچ کا حصہ بنایا۔ اکثریتی فیصلہ دینے والے دو ججز ریٹائر ہوچکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ پانچ رکنی بینچ میں جسٹس منیب اخترنہیں آئے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس منظرعالم کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

جسٹس منیب اخترکا خط

جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں لکھا میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، ایک بار بینچ بن چکا ہو  تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کر رہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

عالیہ حمزہ کی راولپنڈی میں احتجاج پر درج دہشتگردی کے مقدمے میں عبوری ضمانت منظور

عدالت نے گرفتار آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق اور80سالہ روشن بی بی کو بھی مقدمہ سے ڈسچارج کرکے رہا کروا دیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

عالیہ حمزہ کی راولپنڈی میں احتجاج پر درج دہشتگردی کے مقدمے میں عبوری ضمانت منظور

تحریک انصاف کی خاتون رہنما عالیہ حمزہ کی 28ستمبرکو راولپنڈی میں احتجاج پر درج دہشتگردی کے مقدمے میں عبوری ضمانت منظور ہو گئی۔

تفصیلات کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت میں پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف راولپنڈی احتجاج پر درج دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت ہوئی،عدالت نے عالیہ حمزہ کی عبوری ضمانت منظور کرلی اور پولیس کو ان کی گرفتاری سے روکتے ہوئے ملزمہ کے خلاف مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔

عدالت نے گرفتار آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق اور80سالہ روشن بی بی کو بھی مقدمہ سے ڈسچارج کرکے رہا کروا دیا ، مجموعی طور پرگرفتار 6خواتین کو مقدمات سے ڈسچارج کرکے رہا کر دیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

سونے کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ جاری

24 قیراط کے حامل فی تولہ سونے کی قیمت 500روپے کی کمی سے 2 لاکھ 75 ہزار 500 روپے کی سطح پر آگئی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سونے کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ جاری

سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت کم ہو گئی۔

دوسری جانب مقامی صرافہ مارکیٹوں میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز 24 قیراط کے حامل فی تولہ سونے کی قیمت 500روپے کی کمی سے 2 لاکھ 75 ہزار 500 روپے کی سطح پر آگئی اور فی 10 گرام سونے کی قیمت بھی 428روپے کی کمی سے 2 لاکھ 36 ہزار 197 روپے کی سطح پر آگئی۔

سونے کی قیمتوں میں کمی کے برعکس فی تولہ چاندی کی قیمت بغیر کسی تبدیلی کے 3050 روپے مستحکم رہی اور فی 10 گرام چاندی کی قیمت بھی بغیر کسی تبدیلی کے 2614.88روپے کی سطح پر مستحکم رہی۔

بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 4ڈالر کی کمی سے 2653ڈالر کی سطح پر آ گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll