جی این این سوشل

پاکستان

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی براہ راست سماعت کی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، چیف جسٹس
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں، اگر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، سارے مسائل حل ہو جاتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی براہ راست سماعت کی۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فراہم کرنے کا کہا گیا تھا ، سپریم کورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجہ نے اسی سے متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، بطور جماعت حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، سنی اتحاد کونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تمام دستاویزات موجود ہیں جو سوالات سے متعلق ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے پاس تمام سوالات ہیں، سب دستاویزات بھی عدالت میں دکھاؤں گا، اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں کہ الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ، دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی، تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا ہے، آخری جگہ پارٹی لکھا، اس میں کوئی خاص فرق ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پولیٹکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے، آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل سنی اتحاد کونسل اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا حریف بننے کے معاملے سے تعلق نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا، کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کیلئے رجوع کیا تھا؟ ۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے تو سارے مسئلے حل ہو جاتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹرز ہیں جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی شکایت کر رہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کی لیول پلیئنگ نہ ملنے کی شکایت ہمارے سامنے نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں ،دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا ،ایک جماعت شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے جنہیں ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پرپارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے، پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، امیدوار حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر ابھی غیر متعلقہ ہے،مناسب ہو گا ،ابھی سیاسی جماعت اور کیس پر فوکس کریں۔

جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کوپارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوارتصور ہو گا،  آزاد امیدوار وہی ہو گا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔

جسٹس منیب نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا اور کاغذات بطور تحریک انصاف امیدوار منظور ہوئے اور امیدوار منتخب ہو گئے تو الیکشن کمیشن کے قوانین کیسے تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو، یہ الگ بحث ہے لیکن امیدوارپارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔

جسٹس منیب کے ریمارکس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد کونسل میں تحریک انصاف کے کامیاب امیدوارشامل ہوئے، سیاسی جماعت میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں، اس پر جسٹس منیب نے کہا سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا تنازع کی وجہ بن گیا۔

چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے بطور آزاد امیدوار بیٹ کیوں نہیں مانگا؟ آپ نے خود کو تحریکِ انصاف ظاہر کرنا چاہا، آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو سہی، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے ہیں، آپ اب آزاد امیدوار نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ میں پی ٹی آئی امیدوار نہیں، آزاد امیدوار ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، سپریم کورٹ پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، تحریکِ انصاف نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا،پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ تحریکِ انصاف کے ممبران کو ہی ہوتا، انتخابات لڑ لیتے، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کریں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بہت احترام سے، اگر سب سچ بولنا شروع کریں تو وہ بہت کڑوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو سچ بولتا ہوں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بلے والے فیصلے پر نظرِ ثانی زیرِ التواء ہے، ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ میں زیادہ آزاد امیدوار ہوں اور 2 سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہو گا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں 2 سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازع کو حل کریں کہ اس کا کیا جواب ہے؟ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 24 جون تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا۔

تجارت

 پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اختتام پرہنڈرڈانڈیکس 177 پوائنٹس کی کمی

دوسری جانب  انٹر بینک میں کاروبار کے اختتام پر  ڈالر 7 پیسے مہنگا ہوا، انٹربینک میں ڈالر 277.64 روپے سے بڑھ کر 277.71 روپے پر بند ہوا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

 پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اختتام پرہنڈرڈانڈیکس 177 پوائنٹس کی کمی

 پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اختتام پرہنڈرڈانڈیکس 177 پوائنٹس کی کمی سے 81 ہزار 114 پوائنٹس پر بند ہوا۔
تفصیلات کے مطابق دن بھر مجموعی طور پر 441 کمپنیوں کے شیئرز میں کاروبار ہوا ، 132 کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 241 کے شیئرز میں کمی ہوئی ، مارکیٹ میں 29 کروڑ 52 لاکھ سے زائد شیئرز کا لین دین ہوا ۔
سٹاک مارکیٹ میں 13 ارب 88 کروڑ سے زائد مالیت کے شیئرز کے سودے ہوئے، مارکیٹ کی بلند ترین سطح 81,321 جبکہ کم ترین سطح 80,352 پوائنٹس رہی ۔  

دوسری جانب  انٹر بینک میں کاروبار کے اختتام پر  ڈالر 7 پیسے مہنگا ہوا، انٹربینک میں ڈالر 277.64 روپے سے بڑھ کر 277.71 روپے پر بند ہوا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس،علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا

نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، وکیل عمران خان

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

آرٹیکل 63 اے نظر ثانی  کیس،علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 (اے) نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے مطابق تین رکنی کمیٹی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج اور چیف جسٹس پاکستان کے نامزد کردہ جج پر مشتمل ہو گی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت بینچز کی تشکیل کے لیے تین آزاد ججز کو فیصلہ سازی کی ذمہ داری دی گئی، تین ججز کی اجتماعی دانش کے بعد ہی بینچ کی تشکیل اور مقدمات کی سماعت کی جا سکتی ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 23 ستمبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے تین رکنی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی، جسٹس منصور علی شاہ کی عدم موجودگی کے بعد چیف جسٹس اور ان کے نامزدکردہ جج نے نظرثانی درخواست مذکورہ بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2 ججز کے فیصلے کو تین رکنی کمیٹی کا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ حقیقت ہے کہ کمیٹی اجلاس میں 3 ممبران کی بجائے 2 نے شرکت کی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نامکمل کمیٹی مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے اور بینچز تشکیل نہیں دے سکتی، 2جج موجودہ نظرثانی درخواست بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کے مجاز نہیں۔

درخواست میں مزید مؤقف اپنایا گیا ہے کہ موجودہ بینچ نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے کا اہل نہیں، 23 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے نامزد کردہ جج نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا، کمیٹی کے مذکورہ دونوں ممبران نے خود کو بھی اس بینچ میں شامل کیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے اس لیے دونوں جج خود کو بینچ سے الگ کر لیں۔

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر تشکیل کردہ بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی، جسٹس منیب کے پیش نہ ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

 آئی ایس ایس آئی میں پاکستان کے آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ کے عنوان پر کانفرنس کا انعقاد

سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل، آئی ایس ایس آئی کے خیر مقدمی کلمات۔ اور کانفرنس کا تعارف ڈاکٹر طلعت شبیر، ڈائریکٹر، چائنا پاکستان اسٹڈی سینٹر، آئی ایس ایس آئی نے پیش کیا۔ اجلاس کے مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین تھے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

 آئی ایس ایس آئی  میں   پاکستان کے آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ  کے عنوان   پر کانفرنس کا انعقاد

 اسلام آباد :آئی ایس ایس آئی نے “پاکستان کے قدیم آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ” کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔

 انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی ایس ایس آئی) نے 30 ستمبر 2024 کو “پاکستان کے قدیم آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثہ” کے عنوان سے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔

افتتاحی سیشن میں قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن کے سیکرٹری حسن ناصر جامی کے بطور مہمان خصوصی کے ریمارکس شامل تھے۔ سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل، آئی ایس ایس آئی کے خیر مقدمی کلمات۔ اور کانفرنس کا تعارف ڈاکٹر طلعت شبیر، ڈائریکٹر، چائنا پاکستان اسٹڈی سینٹر، آئی ایس ایس آئی نے پیش کیا۔ اجلاس کے مہمان خصوصی سینیٹر مشاہد حسین تھے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے تاریخ اور ورثے پر زور دیا کہ وہ قوم کی طاقت کے ذرائع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کو جغرافیائی سیاست اور جیو اکنامکس سے بڑھ کر قومی ثقافت، تاریخ اور ورثے کو شامل کرنا چاہیے۔ پاکستان سیاحت کے سنگم پر کھڑا ہے، اپنی تاریخی اہمیت سے مالا مال ہے۔ لندن کے برٹش میوزیم میں سوات سے بدھ مت کے مجسمے رکھے گئے ہیں، ہماری تاریخ کے ثقافتی روابط کی مثال دی  جاتی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان یونیسکو کے چھ عالمی ثقافتی ورثوں کا گھر ہے اور اس فہرست میں مزید اضافہ کرنے کے بے پناہ امکانات ہیں۔ انہوں نے کرتارپور راہداری پر روشنی ڈالی، جو بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے علاوہ ثقافتی سفارت کاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی ورثے سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہوں نے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ سب سے پہلے، انہوں زور دیا کہ مارکیٹنگ اور میڈیا پاکستان کو ایک اہم سیاحتی مقام کے طور پر فروغ دینے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں اس کے بعد بدھ مت اور سکھ مت سے منسلک مذہبی اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایڈونچر ٹورازم کو فروغ دینے سے پاکستان کے متنوع مناظر اور بیرونی سرگرمیوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، پاکستانی کھانوں کا تعارف اجاگر کرنا سیاحوں کے مجموعی تجربے کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

اس کو  کامیاب بنانے کے لیے، سیاحت، ثقافت اور میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال شامل ہے۔ ایک ٹاسک فورس کا قیام جو پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے کے لیے وقف ہو اور ان اقدامات کے ساتھ، ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کو ایک پرکشش تہذیب کی طرف توجہ دلائی جا سکتی ہے۔

سفیر سہیل محمود نے پاکستان کے ہزار سال پرانے، کثیرالجہتی آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس میں وادی سندھ اور بدھسٹ گندھارا کی تہذیبیں شامل ہیں۔ انہوں نے 1950 میں شائع ہونے والی ڈاکٹر مورٹیمر وہیلر کی کتاب ‘پاکستان کے 5000 سال’ کا حوالہ دیا، جس میں  بنیادی سچائی یہ ہے کہ پاکستان ہزار سال پرانی تاریخ اور ورثے کے ساتھ ایک قوم ہے۔ پاکستان کی شان و شوکت اور تنوع میں کچھ مماثلتیں ہیں۔ قبل از تاریخ سے لے کر قرون وسطی اور جدید دور تک، یہ سرزمین اور اس کے لوگ مسلسل تبدیلی اور ترقی کے ایک دلچسپ سفر پر گامزن ہیں۔ یہ جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

سفیر سہیل نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کانفرنس کا بنیادی مقصد پاکستان کے شاندار ورثے کی کہانی اپنے لوگوں اور بیرون ملک موجود دوستوں کو سنانا ہے۔ کانفرنس کا مقصد اس بات پر غور کرنا ہے کہ کس طرح سائٹس اور نوادرات کی بہترین دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے اور عالمی سطح پر آگاہی بڑھانے کے لیے اس معلومات اور علم کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے۔ اس سمت میں اقدامات تجویز کرنے کے لیے، کانفرنس میں تین سیشنز کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں پاکستان اور بیرون ملک کے نامور ماہرین آثار قدیمہ، تاریخ دان، ماہرین اور ماہرین نے شرکت کی۔

مستقبل کے لیے راستہ تجویز کرتے ہوئے، سفیر سہیل محمود نے چار سمتوں کی سفارش کی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اور اہم بات یہ ہے کہ اس آثار قدیمہ اور تہذیبی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک جامع، مربوط اور مربوط قومی کوشش کی جائے۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ اور انسانی اور مالی وسائل میں اضافے کا عزم شامل ہونا چاہیے۔ دوم، بین الاقوامی ماہرین اور اداروں کے ساتھ شراکت داری، جیسے کہ یونیسکو، جدید ٹیکنالوجی اور علم کا استعمال کرتے ہوئے مقامات اور نوادرات کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ تیسرا، اس ورثے کو پاکستان کی ’سافٹ پاور‘ کے حصے کے طور پر پیش کرنے اور پاکستان کے پروفائل کو ایک اعلیٰ ثقافتی مقام کے طور پر پیش کرنے کے لیے نوجوانوں، اثرورسوخ اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے ایک مسلسل میڈیا مہم کی ضرورت ہے۔ آخر میں، ترقی پذیر ثقافتی مقامات کو سیاحت کے پائیدار طریقوں پر توجہ دینی چاہیے جو مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بناتے ہیں اور ثقافتی اور لوگوں کے درمیان تبادلے کو فروغ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں، انہوں نے بین الاقوامی بہترین طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔

ڈاکٹر طلعت شبیر، ڈائریکٹر چائنا پاکستان سٹڈی سنٹر  نے اپنے تعارفی کلمات میں پاکستان کی بھرپور ثقافتی اور تاریخی میراث کی اہمیت پر زور دیا، جس کی جڑیں وادی سندھ اور گندھارا جیسی قدیم تہذیبوں میں پیوست ہیں۔ ڈاکٹر شبیر نے پاکستان کی قومی شناخت اور ثقافتی تنوع کی علامتوں کے طور پر موہنجو داڑو اور ٹیکسلا جیسے مشہور آثار قدیمہ کے مقامات کو اجاگر کیا۔

انہوں نے ان انمول ثقافتی اثاثوں کے تحفظ اور تحفظ پر زور دیتے ہوئے آج کی پولرائزڈ دنیا میں ان کی مطابقت پر زور دیا۔ ڈاکٹر شبیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کس طرح ان قدیم تہذیبوں کا ورثہ عالمی امن، باہمی افہام و تفہیم اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے تاریخ دانوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کی اجتماعی ذمہ داری کو تسلیم کریں، اسے ایک مزید پرامن اور جامع مستقبل کی تعمیر کے ذریعہ کے طور پر دیکھیں۔

حسن ناصر جامی، سیکرٹری قومی ورثہ اور ثقافتی ڈویژن نے اپنے کلمات میں پاکستان کی قدیم تہذیبوں پر روشنی۔ انہوں نے وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں بتایا کہ جو اپنی جدید شہری منصوبہ بندی، صفائی کے نظام، اور تجارتی نیٹ ورکس کے لیے مشہور ہے، جو 3300 سے 1900 قبل مسیح تک پھیلی تھی۔

مسٹر جامی نے مہر گڑھ اور گندھارا جیسی دیگر قابل ذکر تہذیبوں کا بھی تذکرہ کیا اور خطے میں ثقافتی تنوع اور فکری کامیابیوں میں ان کی شراکت پر زور دیا۔ انہوں نے ثقافتی سفارت کاری، سیاحت اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے ورثے سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ تحفظ نہ صرف شناخت کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں سے ایک کے نگہبان کے طور پر مقام دلانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے بنیادی ڈھانچے، تحقیق اور بین الاقوامی تعاون میں سرمایہ کاری کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ عالمی سطح پر ان سائٹس کو فروغ دیا جا سکے اور انہیں تعلیمی تحقیقات اور سیاحت کے مراکز میں تبدیل کیا جا سکے۔ ان وراثت کو محفوظ رکھ کر، پاکستان عالمی سطح پر اپنی تاریخی اہمیت کا دوبارہ دعویٰ کر سکتا ہے اور مقامی کمیونٹیز کے لیے اقتصادی مواقع کو فروغ دے سکتا ہے

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll