سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی پہچان پی ٹی آئی ہے اور وہ پی ٹی آئی میں ہی رہیں گے


سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کی پہچان صرف عمران خان ہے، ورنہ ان لوگوں کا پارٹی میں اپنا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے ۔
فواد چودھری نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کے لوگ کسی بھی منجھے ہوئے بندے کو پارٹی میں اوپر نہیں آنے دے رہے۔ ان لوگوں کو ڈر ہے کہ کسی سیاسی قد آور شخصیت کی آمد سے ان کا اپنا کردار ماند پڑ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کا پارٹی میں کوئی قابل ذکر کردار نظر نہیں آتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو جب جیلوں میں بند کیا گیا،تو پارٹی میں سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے موجودہ قیادت کے لوگ اوپر آ گئے۔ ان میں اکثر کا تو عوام نام بھی نہیں جانتے، یہ محض عمران خان کے نام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ رؤف حسن نے محض ایک نوٹس ملنے پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے لوگوں کے خاندانوں کو پابند سلاسل کروا دیا، جبکہ خود رؤف حسن پر نہ کوئی پرچہ ہوا، اور نہ ہی وہ کبھی جیل گئے۔ شبلی فراز محض گھر میں چھ مہینے گزارنے کے بعد سینیٹ میں لیڈر بن گئے۔ شیر افضل مروت کو بھی خان صاحب نہیں جانتے تھے، جس کی وجہ سے بعد ازاں ان دونوں کے مابین خلیج بھی پیدا ہوئی۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی پہچان پی ٹی آئی ہے اور وہ پی ٹی آئی میں ہی رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی تو عمران خان کی وجہ سے ہے۔ عمران خان سے میری دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور وہ آج بھی مجھے اپنی پارٹی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان سے میری ملاقات طے ہوئی تھی، مگر بیچ کے لوگوں نے خان صاحب کے سامنے اپنی وفا داریوں کے خطرے کا رونا ڈالا، تو خان صاحب نے مجھے کچھ عرصہ مزید رک جانے کا کہا۔
عدالت سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملنے کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملنے کے فیصلے کے بعد جج صاحب کی طرف سے معافی کا پیغام موصول ہوا کہ ان پر متعصب فیصلہ دینے کا بہت دباؤ تھا۔ ساتھ میں جج صاحب کی جانب سے یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ آپ کا نام ان لوگوں کی لسٹ میں شامل ہے جن کو الیکشن لڑنے نہیں دیا جائے گا، لہذا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔
اپنی گرفتاری کی روداد بتاتے ہوئے فواد چودھری نے بتایا کہ دکھ اس بات کا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہماری گرفتاری میں بطور سہولت کار تھے، جس کی بدولت اسلام آباد پولیس نے کورٹ آرڈر کے باوجود سپریم کورٹ سے مجھے گرفتار کر لیا۔ حتیٰ کہ رجسٹرار بھی عین موقع پر فرار ہو گیا۔
فواد چودھری نے اپنے اوپر کیے گئے تشدد کے حوالے سے کہا کہ فیڈرل منسٹر اور پارلیمینٹیرین ہونے کے باوجود میرے اوپر پوری رات بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ جس تشدد کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، اس کی ویڈیوز بنا کر اعلیٰ افسران کو بھیجی گئیں۔ چھ دن کے لیے سی آئی اے کے سیل میں رکھا جہاں پر تکالیف کو برداشت کرنا پڑا۔ کورٹ میں ایم پی او آرڈر کے منسوخ ہونے کے باوجود عدالت کے باہر دوبارہ وہی لوگ گرفتار کرنے آئے ہوئے تھے جنہوں نے پہلے تشدد کیا تھا۔ بعد ازاں ایک مشترکہ دوست کے تعاون سے تھوڑا ریلیف ملا، اور ہم نے 9 مئی کی مذمت کی کیونکہ عمران خان خود بھی سپریم کورٹ میں 9 مئی کی مذمت کر چکے تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ دوران حراست جہاں رکھا گیا، وہ جیل نہیں، ٹارچر سیل تھے۔ مجھ سمیت لاہور کے کچھ اور لوگوں کو سخت تشدد سے گزارا گیا۔
سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے انکشاف کیا کہ ہمیں زبردستی آئی پی پی کے ساتھ بٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جہانگیر ترین کو سمجھایا کہ جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا ممکن نہیں ہوگا، مگر جہانگیر ترین نے وثوق سے دعویٰ کیا کہ ہمیں 40 سیٹوں کی گارنٹی دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ صرف دباؤ کی وجہ سے آئی پی پی کے ساتھ کچھ وقت کے لیے جا بیٹھے تھے، مگر اس پارٹی میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
فواد چودھری نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے کال پر مجھ سے تشدد ہونے کے بارے میں دریافت کیا۔ میرے اقرار پر خاموش ہو گئے۔ بعد ازاں عمران خان نے پیغام پہنچایا کہ کچھ وقت کے لیے پیچھے ہٹ جاؤ۔ اس کے بعد ایک حاضر سروس نے میرے ٹویٹر اکاؤنٹ سے سیاست سے قطع تعلقی کا ٹویٹ کیا، مگر میں نے پریس کانفرنس کرنے اور عمران خان کے خلاف بات کرنے سے صریح انکار کر دیا۔
فوج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج ہمارا اثاثہ ہے، ہم سے کوئی بھی فوج کے خلاف نہیں ہے۔ مگر جس قسم کا لوگوں پر تشدد کیا گیا، ایسا کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا۔
سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے مؤقف اختیار کیا کہ فوج سے رابطے ختم کرنا پی ٹی آئی کی غلطی تھی۔ عمران خان کے کہنے پر جب ہم لوگ فوج سے دور ہوئے تو کچھ لوگوں نے فوج اور پی ٹی آئی کے بیچ غلط فہمیاں پیدا کروا دیں۔ ایک طرف عمران خان کو بتایا جانے لگا کہ فوج تمہیں مروا دے گی، جبکہ دوسری طرف فوج کو بتایا جاتا رہا کہ عمران خان کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ عمران خان کی فوج سے کوئی لڑائی نہیں تھی، یہ فوج کی اندرونی سیاست تھی، جس سے عمران خان نا بلد تھے۔ اسی اندرونی سیاست کی وجہ سے پی ٹی آئی اور فوج میں خلیج پیدا ہوئی۔ اب بھی معاملات سنبھل سکتے ہیں، فقط تلخیاں ہیں جنہیں دور کرنا ہو گا، مگر اب اسٹیبلشمنٹ کو ایک قدم پیچھے لینا پڑے گا۔
انہوں نے فوج کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر معاملات ٹھیک کرنے ہیں تو سب سے پہلے عدت کیس واپس لیں اور ایسا بھونڈا کیس بنانے پر عمران خان سے معافی مانگیں۔ فوج سے کوئی بھی لڑائی نہیں چاہتا۔ ہم بس یہ چاہتے تھے کہ فوج سیاست میں اپنا کردار محدود کردے۔

عمران خان نے بیٹوں کو پاکستان آنے سے روک دیا، احتجاجی سیاست سے لاتعلقی کا اعلان
- 2 گھنٹے قبل

شراب و اسلحہ برآمد گی کیس: عدالت نے وزیر اعلی امین گنڈا پور کے وارنٹ منسوخ کر دئیے
- 3 گھنٹے قبل

بھارت میں انسانی درندگی عروج پر، بے ہوش خاتون کے ساتھ ایمبولینس میں مبینہ اجتماعی زیادتی
- 3 گھنٹے قبل

قائد اعظم یو نیورسٹی: ہاسٹلز خالی کروانے کیلئے انتظامیہ کا آپریشن، درجنوں طلبہ گرفتار
- 2 منٹ قبل
نیا ٹرانسمیشن منصوبہ: 102 کلومیٹر لائن سے 2200 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوگی
- ایک گھنٹہ قبل

راہول گاندھی نے ٹرمپ کے بھارتی طیاروں سے متعلق بیان پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا
- 35 منٹ قبل

پنجاب آرٹس کونسل کی جانب سے ایس او پیزکی خلاف ورزی کرنے والے اداکاروں کو نوٹسز جاری
- 2 گھنٹے قبل

بھارت: جھارکھنڈ میں ہندو یاتریوں کی بس کو حادثہ،18 افراد جاں بحق،متعدد زخمی
- 3 گھنٹے قبل

چونسا کے بعد کس کا نمبر؟ آموں کی سیاست کے رنگ
- 3 گھنٹے قبل

چینی بحران: پی اے سی کی جانب سے ایف بی آر سے شوگر ملز مالکان کے نام طلب
- 2 گھنٹے قبل

مودی حکومت کو ایک اور عالمی جھٹکا، امریکی صدر ٹرمپ نے سکھ فار جسٹس کے رہنما کو خط لکھ دیا
- ایک گھنٹہ قبل

سونے کی قیمت میں مزید کمی
- 2 گھنٹے قبل