جی این این سوشل

پاکستان

سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، جسٹس اطہر من اللہ

کیا الیکشن کمیشن ہرسیاسی جماعت کا منشور پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر روسٹرم پر آگئے ، انہوں نے دلائل کا آغاز کردیا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی، وکیل نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے، کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دی ہے، الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ 81 آزادامیدواروں کے کاغذات نامزدگی مجھے مہیا کریں، میں تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو مہیا کردوں گا۔

وکیل نے مزید بتایا کہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا میرا تعلق سنی اتحاد اور اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا کے دستاویزات میں کہا تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں، حامدرضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کے لیے دیا گیا، حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامد رضا نے نہیں لکھا کہ میں آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں اترنا چاہ رہا، وکیل نے جواب دیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ حامدرضا خود کو آزاد امیدوار نہ کہیں؟ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامد رضا نے جمع نہیں کروایا، حامدرضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ تحریک انصاف کا دیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حامدرضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کیا۔

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کرلے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتاہےکہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہوں؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے بتایا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے، ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکٹ ہوتا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میں جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے تو لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ لگانا ضروری ہےنا؟ سرٹیفیکٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرےگا نا؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے، اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزاد امیدوار ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔

ا س پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کردیا ہو؟ وکیل نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لیے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلئیر کردیا ہو؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا، کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے؟

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سیریل 12 اور 20 والے امیدواروں کے وابستگی اور ڈیکلیریشن دونوں پی ٹی آئی کے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کپ جب یہ دونوں چیزیں موجود تھیں تو امیدوار کو پی ٹی آئی کا کیوں نہ سمجھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابی نشان سے کنفیوز کیوں کیا؟ جن امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکٹ بھی دیا انہیں اس جماعت کا تصور کیوں نہ کیا گیا؟ آپ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ سیریل 22 والے امیدوار کو بھی دیکھیں، جس امیدوار نے وابستگی برقرار رکھی اسے آزاد کیسے ڈیکلئیر کیا؟ جسٹس قاضئ فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیش کا جواب مجھے کلک نہیں کر رہا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائےگا نا کہ انہوں نے کیا کیا ؟ آزادامیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک امیدوار کی بات نہیں، تحریک انصاف کی بات ہورہی جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملےگا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن ایسا نہیں کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا، بلے کے نشان کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد نہیں تھا، 22 دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟

وکیل نے بتایا کہ دسمبر 2023 میں صدر مملکت عارف علوی تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا نگراں حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟ کیا کسی نگراں حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگراں حکومت اتنی ہی آزاد ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے، دنیا بھر کی باتیں کررہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہےتھے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھائے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتاہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے، پارٹی نہیں، امیدوار صرف پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتا، امیدوار کا حق ہے کہ اسے انتخابات کے لیے نشان ملے، وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے ، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلیئر کر دیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس کا جواب یہی ہے نا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟ بس ہمیں یہ بتا دیں الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر یہ سوچا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے اہم پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا، اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ صرف آبزرویشن ہیں ابھی اس متعلق کوئی فیصلہ نہیں آیا، انتخابی نشان والے فیصلے کے خلاف نظر ثانی زیر التوا ہے، چند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے اور آزادامیدوار خود کو ظاہر کیا، آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوئے، کیس میرا نہیں، سنی اتحاد کا ہے، دیکھنا ہوگا کہ اپیل میں سنی اتحاد نے کیا دلائل و حقائق سامنے رکھے، آزادامیدوار ہونے کے لیے پارٹی جوائن کرنا ضروری ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزادامیدوار نے خود کو امیدوار ظاہر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے آزاد ڈیکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن کہہ رہا کیسے شامل ہوسکتے؟ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزادامیدوار کہا اور اب جب امیدوار اپنی پارٹی میں شامل ہونا چاہ رہا تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے سننا پسند ہے، میرا اپنا دماغ بھی ہے لیکن وکیل کو سننا چاہتاہوں، وکیل الیکشن کمیشن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ تو کسی کو ملا ہی نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کے لیے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری ہے، الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیا کیے گئے دستاویزات میں تنازع ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 الیکشن کمیشن بناتا ہے جس میں امیدوار اپنا سرٹیفیکٹ دیتا ہے۔

بعد ازاں ڈی جی لا نے روسٹرم پر سنی اتحاد کا مخصوص نشستوں سے متعلق منشور پڑھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کا منشور پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مجھے ضروری لگا کہ سنی اتحاد کا منشور عدالت کے سامنے لایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا میں تمام پارٹیوں کا دیکھوں یا ایک پارٹی کا منشور دیکھوں؟ دیگر پارٹیوں کے منشور کو نظر انداز کیوں کروں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آپ کسی اور پارٹی کا منشور نہ دیکھیں، آپ میری بات سنیں۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین کو خود آزاد ڈیکلیئر کیا، آپ کے آزاد ڈیکلیئر کرنے پر وہ کامیاب ہو کر واپس اپنی ہی جماعت میں شامل ہوا، اب آپ کہہ رہے ہیں سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین خود کیسے اپنی جماعت میں شامل ہوا؟ تو یہ صورتحال آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا سنی اتحاد کونسل غیر مسلم ممبر کو تسلیم نہیں کرتا، ایسی ہی شق جے یو آئی (ف) کے منشور میں بھی ہے، مگر جے یو آئی کو تو اس کے باوجود مخصوص نشستیں دی گئیں۔

بعد ازاں وکیل سکندربشیر کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز پڑھے گئے۔

وکیل نے بتایا کہ اگر مخصوص نشست لینی ہے تو جنرل سیٹ جیتنی پڑے گی جو سنی اتحاد جیتنے میں ناکام رہی، آزادامیدواروں کا سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں۔

اسی دوران وکیل سکندر بشیر پانی پینے روکے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے سامنے دلائل دینے والے وکلا کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سکندربشیر سے مکالمہ کیا کہ فل کورٹ میں مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔

بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دیگر فریقین کے وکلا کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کیا گیا جیسے آپ کو کیا گیا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ آپ کو کتنا وقت لگےگا؟ ایک دو منٹ؟ چوکیل نے جواب دیا کہ مجھے کافی وقت دلائل دینے میں لگیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ جلد ختم کریں، پیر کا دن رکھ لیں؟ ساڑھے گیارہ بجے؟ تحریک انصاف کی لسٹ آج مہیا کردیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی لسٹ دےدوں گا۔

اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے دیگر وکلا کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ مہیا کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس یحیی آفرینی کا کہنا تھا کہ دیگر امیدواروں کے سرٹیفیکٹ اور ڈیکلیریشن بھی مہیا کردیں۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت یکم جولائی بروز پیر کی صبح 11 بج کر 30 منٹ تک ملتوی کردی۔

پاکستان

پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، شبلی فراز

بجٹ کے ذریعے پاکستانی عوام پر معاشی یلغار کردی گئی جس  کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، شبلی فراز

رہنما تحریک انصاف شبلی فراز نے کہا ہےکہ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی

رہنما تحریک انصاف شبلی فراز کا کنول شوذب کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آئیں گے تو بہتری ہوگی، فارم 47 کی مہربانی سے وہ لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں جو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے، اس بجٹ کے ذریعے پاکستانی عوام پر معاشی یلغار کردی گئی جس  کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا،سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں بحران ہے،ہمیں تشویش ہے کیس کو کھینچا جا رہا ہے،پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے کہ یہ کیسے انتخابات ہوئے ہیں، کل یو این رپورٹ میں کہا گیا ہم اسے کیس سٹڈی بنائیں گے۔

رہنما تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی معیشت نیچے جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ صاف اور شفاف الیکشن نہ ہونا ہے، جب تک عوامی نمائندے پارلیمان میں نہیں بیٹھیں گے تب تک آئی ایم ایف آپ کے فیصلے کرے گی، آئی ایم ایف کو آپ سے کوئی ہمدردی نہیں، عوامی نمائندے آئیں گے تو عوام کا خیال رکھیں گے۔

رہنما تحریک انصاف کنول شوزب نے کہا کہ  الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی ہے، سب سے بڑی جماعت سے بلا چھینا گیا اور انہیں سیاسی جماعت ماننے سے انکار کیا گیا اور ہم پر دباؤ ڈالا گیا کہ ہم آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں۔پی ٹی آئی کا نام سُنتے ہی الیکشن کمیشن تلملانا شروع کردیتا ہے، آپ آنکھوں پر پٹی نہیں باندھ سکتے، 13 جنوری پر واپس جائیں اور دیکھیں اُس کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا رویہ تھا

ان کا کہنا تھا کہ جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو چاہے اٹارنی جنرل کھڑے ہوں یا الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کھڑے ہوں جو فرنچ زبان میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کرتے ہیں اورعدالت میں ان سے پاکستان کے منتخب ہونے والے نمائندوں تک کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔

کنول شوزب نے مزید کہا کہ جب ان سے سوالات ہوتے ہیں کہ کونسے فارمولے کے تحت انہوں نے یہ نشستیں اپنی مرضی سے پارٹی کو نشستیں دیں تو وہ  جواب نہیں دیتے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

بھارت گاؤں میں ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگدڑ مچنے سے 80 سے زائد افراد ہلاک

واقعہ بروز منگل کو انڈیا کی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر جنوب مشرق میں ہاتھرس ضلع کے ایک گاؤں میں پیش آیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

بھارت گاؤں میں ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگدڑ مچنے سے 80 سے زائد افراد ہلاک

بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع ہتھراس کے گاؤں میں ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگدڑ مچنے سے 80 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

مذکورہ واقعہ بروز منگل کو انڈیا کی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر جنوب مشرق میں ہاتھرس ضلع کے ایک گاؤں میں پیش آیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش میں مذہبی رسم کی ادائیگی کیلئے شہریوں کی ایک بڑی تعداد دریائے گنگا کے کنارے موجود تھی کہ جس کے بعد اچانک بھگدڑ مچ گئی۔اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے، زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ حادثے میں کم از کم 60 لاشیں افراد کی لاشیں مردہ خانے پہنچ چکی ہیں۔اس بات کا امکان ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔“

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll