جی این این سوشل

پاکستان

وزیراعظم کا شہدا کو ز بردست خراج عقیدت،پاکستان کی حفاظت، ترقی، امن اور خوشحالی ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہا کہ یہ دن ہماری اس قومی حمیت کی یاد دلاتا ہے جس سے سرشار ہو کر عظیم قوم نے طاقت کے زعم میں مبتلا دشمن کے مضموم ارادہ خاک میں ملا دیئے تھے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعظم کا شہدا کو ز بردست خراج عقیدت،پاکستان کی حفاظت، ترقی، امن اور خوشحالی ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، وزیر اعظم
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے شہدا کو ز بردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ مادر وطن کے بہادر سپوتوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حفاظت، ترقی، امن اور خوشحالی ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے، پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرےگا، دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو یہاں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں منعقدہ یوم دفاع و شہداء کی خصوصی پروقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکیا۔تقریب میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف، کابینہ کے ارکان،وزیرا عظم آزاد کشمیر ، اعلی سول و عسکری حکام ، ارکان پارلیمان، شہداء کے اہل خانہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ لمحہ میرے لئے باعث اعزاز ہے کہ میں آج افواج پاکستان کے بہادر جوانوں اور وطن پر جان قربان کرنے والے شہداء کے لواحقین سے مخاطب ہوں، یوم دفاع پاکستان ہماری قومی شناخت اور عظیم حوالہ ہے، یہ دن ان تمام شہداء کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی اور تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان جانثاروں کو جتنا بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے وہ کم ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ دن ہماری اس قومی حمیت کی یاد دلاتا ہے جس سے سرشار ہو کر عظیم قوم نے طاقت کے زعم میں مبتلا دشمن کے مضموم ارادہ خاک میں ملا دیئے تھے، افواج پاکستان کے شیر بے مثال بہادری سے سمندر، فضا اور زمین پر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اقبال کے شاہین بن کر دشمن پر اس طرح جھپٹے کہ وہ پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ، کی تعبیر بن گئے اور لاہور جم خانہ میں چائے پینے کا خواب دیکھنے والا دشمن اسلحہ پھینک کر اس سے بھی زیادہ تیزی سے فرار ہو گیا جس رفتار سے اس نے پاکستان کی سرحدوں کو عبور کرنے کی فاش غلطی کی تھی۔


انہوں نے کہا کہ ملٹری میوزیم میں موجود دشمن کے شرمناک فرار کے ثبوت ہماری آنے والی نسلوں کو افواج اور قوم کے بے مثال اتحاد، فتح کی یاد دلاتے رہیں گے، اس عظیم اور تاریخی فتح پر ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے شکر اور احسان سے ہمیشہ جھکے رہیں گے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ آج میں عظیم مائوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے لخت جگر اس وطن پر نثار کئے، اپنی ان عظیم مائوں کے آنسوئوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم ان کے بہادر بیٹوں کی قربانیاں ہرگز، ہرگز ر ائیگاں نہیں جانے دیں گے، میں عظیم شہداء کے عظیم والدین کے جذبہ ایمانی کو بیان کرنا چاہتا ہو جس نے میری آنکھیں نم کر دیں اور میرا سر فخر سے بلند کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں شہداء کے والدنی سے ملا تو ان کے دل میں اطمینان ہے، ہونٹوں پر دعا تھی کہ یااللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں شہید کے والدین ہونے کا اعزاز بخشا، ہمارے سو بیٹے بھی وطن پر قربان، یہ ہے وہ جذبہ جو پاکستان کو عظیم تر اور فوج کو ناقابل تسخیر بناتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں سلام پیش کرتا ہوں قوم کی عظیم بیٹیوں، بہنوں اور بچوں کو جنہوں نے خونی رشتوں کی لازوال قربانی دی، ان کے شوہر، بھائی ارض پاک کی حرمت پر قربان ہو گئے، میں اپنی افواج کے ہر بیٹے اور بیٹی کو سلام پیش کرتا ہوں جن کے وجود میں وطن کی محبت لہو بن کر دوڑتی ہے،


جو اپنی زندگی وطن کی حیات اور اس کی آزادی کیلئے مسکراتے ہوئے قربان کرتے ہیں، جس کا ہر افسر اور جوان شوق شہادت کے جذبہ سے سرشار ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر بازی لینے کو اپنا اعزاز سمجھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پوری قوم کو آپ کے جذبوں، صلاحیتوں اور قربانیوں پر ناز ہے، آپ کی وردی ہر بیٹی، بہن، ماں کے سر کی چادر ہے، یہ اس نظریے کی تاثیر ہے جس کیلئے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی عظیم قیادت میں تاریخی جدوجہد کی اور اپنا سب کچھ قربان کر کے یہ عظیم وطن حاصل کیا، یہ وردی سبز ہلالی پرچم کے لہرانے کی ضمانت ہے جس میں لپٹ کر جب شہید دفن ہوتا ہے تو اعلان ہوتا ہے کہ شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے قومی پرچم میں سبز اور سفید رنگ مل کر پاکستان بنتا ہے، ہماری افواج میں یہ دونوں رنگ موجود ہیں، دفاع وطن کیلئے ان دونوں رنگوں نے ہمیشہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی جانوں کی قربانی اور داد شجاعت دی۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید اور سیسل چوہدری پاکستانی پرچم کے یہی دو رنگ ہیں، اس لئے میں بڑے فخر سے یہ کہتا ہوں کہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی ہم سب کی اجتماعی اور مساوی ذمہ داری ہے، ہم سب کے شعبے الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن ہمارا محاذ ایک ہے، پاکستان کی ترقی، سلامتی اور دفاع۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک ایسے محل وقوع میں ہے جو کئی تہذیبوں کا سنگم ہے جہاں بہت سی طاقتوں کے مفادات ٹکراتے ہیں،

اس کشمکش کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں، اس لئے ناقابل تسخیر دفاع ہماری اولین قومی ضرورت ہے جس کے بغیر نہ امن ممکن ہے نہ ترقی اور خوشحالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، ہم نے اپنی 77 سالہ تاریخ میں اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اپنے کسی ہمسائے کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدیں امن کی سرحدیں ہیں، دہشت گردی اور بدامنی کے خاتمہ، خطے میں استحکام کیلئے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے،


اپنی جوہری استعداد، سپیس ٹیکنالوجی اور اعلیٰ عسکری صلاحیتوں کے تناظر میں پاکستان عالمی امن کے فروغ میں ایک ناگزیر کردار کا حامل ہے، قوموں کو خوشحالی کی منزل ہمیشہ امن کے راستے سے ملتی ہے، امن ہماری اولین خواہش ہے اور ہم اپنے تمام ہمسایو ں کے ساتھ باوقار اور پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن ہم اپنی آزادی، عزت اور مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ آج کی شاندار اور پروقار تقریب کے حوالہ سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے دشمن کے ناپاک عزائم کو بارہا شکست دی ہے لیکن اس کے مذموم ارادے آج بھی پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ ہیں لیکن آپ اللہ کے فضل و کرم سے یقین رکھیں کہ ہم دہشت گردی کا سر کچلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جہاں جہاں خوراج اور ان کے سہولت کار موجود ہیں ان کے مکمل خاتمہ تک افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشنز جاری رکھیں گے، اس کیلئے قومی اتفاق رائے الحمدللہ موجود ہے، ہم اس مقصد میں جلد سرخرو ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوری معاشرے میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے، ہمیں اس کا پورا احترام ہے لیکن اس حق کا استعمال تحمل، دلیل اور آئین کی حدود میں ہونا لازم ہے۔ 77 سال کے تجربات کا یہ آزمودہ سبق ہے کہ گالی یا گولی کسی مقصد کا حل نہیں، قوموں کی تقسیم ملکی سلامتی کیلئے خطرات پیدا کرتی ہے۔ ریاست کو کمزور کرنے والی کوئی بھی تحریک قوم کو قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں بدترین نسل کشی اور جرائم کا نشانہ بننے والے بے گناہوں کیلئے پوری قوت سے دنیا اور عالمی اداروں سے انصاف کا تقاضا کرتا رہے گا اور انسانیت کی پکار بن کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا جب تک کشمیریوں اور فلسطینی بھائیوں کو حق نہیں مل جاتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں پاکستان کیلئے عظیم قربانیاں دینے والے تمام شہداء کو ایک مرتبہ پھر اپنی اور قوم کی جانب سے سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے اہل خانہ کے صبر و استقامت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں بری، بحری، فضائی افواج، پیرا ملٹری، سول آرمڈ فورسز سمیت پاکستان کی عظمت اور تحفظ کی جنگ لڑنے والے ہر غازی ہر سپاہی کا پوری قوم کی جانب سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئیں غازیوں اور شہداء کے راستے پر چلنے کا عہد کریں، آئیں اپنے اپنے محاذ پر دفاع وطن کے جذبہ سے سرشار ہو کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں، پاکستان کی خاطر اپنی ذاتی، سیاسی خواہشات، مفادات کو قربان کریں، ہر شعبہ میں پاکستان کی فتح، کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے گاڑیں۔

تقریب میں وزیراعظم آزاد کشمیر، وزیراعلیٰ پنجاب، وفاقی اور صوبائی وزرائ، اراکین پارلیمان، سول و عسکری حکام سمیت زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں اور شہداء کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔قبل ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں منعقدہ یوم دفاع و شہداء کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تو آرمی چیف جنرل سیّد عاصم منیر نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے شہداء کی یادگار پر حاضری دی۔

پاکستان

محقق اسلام کے علمی کارنامے اور اس کے اثرات،اسلامی اصولوں کا دفاع اور محقق اسلام کی تحقیقی کاوشیں

آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

محقق اسلام کے علمی کارنامے اور اس کے اثرات،اسلامی اصولوں کا دفاع اور محقق اسلام کی تحقیقی کاوشیں

دین اسلام ہمہ جہت پہلو رکھتا ہے اور آفاقی دین  ہونے کے سبب قیامت تک اس میں انسانیت کے لیے مکمل راہ نمائی موجود ہے۔ دین اسلام میں حق و باطل کی پہچان مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں احقاق حق اور  ابطال باطل میں علماء نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ ان علماء میں بیسویں صدی کے نامور عالم دین محقق اسلام حاجی محمد علی نقشبندی کا نام سرفہرست ہے۔ 1933 میں ضلع گجرات میں  پیدا ہونے والا یہ عظیم انسان دیکھتے ہی دیکھتے آسمان تحقیق پر چھا گیا۔میرے ممدوح حاجی صاحب رحمہ اللہ علیہ نے 1952 میں حفظ قرآن قرآن مکمل کیا اس کے بعد 1960  مروجہ درس نظامی مکمل فرمائی اور علم کی ترویج واشاعت میں حصہ ڈالتے ہوئے باقاعدہ 1963 میں بلال گنج لاہور میں عظیم الشان اداره جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ ابوالبرکات سید احمد شاہ ،محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد اور شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی شامل ہیں۔ دور طالب علمی سے ہی آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی عظیم روحانی خانقاہ آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ نور الحسن شاہ بخاری سے بیعت کا شرف
حاصل ہوا ۔جس شہر کو  حضرت مجدد الف ثانی نے قطب البلاد کا نام دیا  اس شہر میں آپ نے اپنےقلم سے وہ علمی کارنامہ سر انجام دیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے جس کے حصول کے لیے کچھ الفاظ سپرد قلم کئے جا رہے ہیں۔
آپ کی تصانیف کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو  اصلاح عقائد، فروغ عشق رسول وصحابہ واہل بیت،اسلام سے تعلق کی بحالی اور اصلاح معاشرہ جیسے نمایاں ترین پہلو سامنے آتے ہیں ۔ایک طرف آپ محدث اعظم اور شیخ الحدیث کے علمی و اقتصادی فیضان کے وارث تھے تو دوسری طرف حضرت خواجہ نور الحسن بخاری  کے باطنی علوم کے وارث بھی تھے۔ 
 آپ علمی حیثیت سے ایک انجمن تھے اور شان  ایک ادارہ سے کم نہ تھی ۔حضرت محقق اسلام کی تصنیفات میں موطا امام محمد کی شرح  شرح موطا امام محمد( تین جلدیں)، اطيب الحواشی شرح اصول الشاشی نور العینین فی ایمان آباء سید الکونین، قانونچہ رسولیہ، منکرین وجوب اللحیہ کا شرعی محاسبہ ، دشمنان امیر معاویہ کا علمی محاسبہ (دو جلدیں) ، تعارف سیدنا امیر معاویہ ،تحفہ جعفریہ (پانچ جلدیں)،فقہ جعفریہ (چار جلدیں) اور عقائد جعفریہ (چارجلدیں) شامل ہیں۔

آپ کی تصانیف کے مطالعہ کرنے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ان میں سب سے نمایاں پہلو ناموس صحابہ واہل بیت ہے۔اس موضوع پر آپ نے قلم سے تحقیق کا حق ادا کیا اور باطل کا رد انہی کی کتب سے کیا۔رد ابطال اور دین اسلام کے موقف کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے کے اسلوب میں جب نظر ڈالی جائے تو اس میں اسلوب زمانہ ماضی میں امام بخاری نظر آتے ہیں کہ جب انہوں نے خواب دیکھا کہ حضور اکرم  کی مگس رانی (جسم اطہر سے مکھیاں وغیرہ اڑانا) کر رہے ہیں ،تعبیر یہ  بتائی گئی کہ تم احادیث  کو خلط ملط سے پاک کرو گے ۔

اسی طرح ماضی قریب میں اعلحضرت امام احمد رضا خان ابطال باطل میں وہی  انداز اختیار کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ گئے۔ بر صغیر میں شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ کے ذریعے اسی اسلوب کو آگے بڑھایا۔ شیخ محقق کے بعد منظم انداز میں علمی ورثہ امت کے لیے قبلہ حاجی صاحب نے چھوڑا ،یہ مشقت طلب اور وقیع کام ہے کہ جس کو کرنے کے لیے ایک پوری ٹیم اور مدت دراز درکار ہو۔ آپ نے تن تنہا محض اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول کی مدد اور مرشد گرامی کے فیض سے سر انجام دیا ۔

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی حاجی صاحب نے کب لکھنا شروع کیا ؟مطالعہ کے دوران ورق گردانی کرتے اور قبلہ  شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی کے مطابق آپ نے 1973 میں لکھنے کا آغاز فرمایا اور تین چار رسائل لکھے جن کی اشاعت نہ ہو سکی۔پہلی بار جب حج مبارک کے لیے تشریف لے گئے ۔ حج سے واپسی پر ایران سے اصل کتب خریدیں تو اس وقت سے ہی رد ابطال پر آپ سے گہرا مطالعہ شروع فرما دیا ۔
چھوٹے رسائل سے لکھنے کا آغاز اور پھر باطل کو رد کرنا ،اس انداز سے شروع ہوا کہ آخری دن نہیں بلکہ آخری لمحات تک جاری رہا ۔یہ عرصہ کل 23سال تک محیط ہے ۔ سب سے پہلے تحفہ جعفریہ تصنیف فرمائی اس کے بعد فقہ اور عقائدِ جعفریہ معرض وجود میں آئیں۔ عقائدِ جعفریہ میں اگر چہ تاریخ طباعت مذکور نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ آخر میں لکھی گئی کیونکہ جلد چہارم کے آخر میں سب معاونین کے حق میں تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
 اس دوران دوسری کتب کی اشاعت بھی ہوتی رہی جیسے حضور کے والدین کے مؤمن ہونے پر نور العینین ،داڑھی کے واجب ہونے پر وجوب اللجیہ  تعارف سیدنا امیر معاویہ اور حضرت امیر معاویہ کے دفاع میں دو ضخیم جلدیں دشمنان امیر معاویہ کے نام سے 1992 میں معرض وجود میں آئیں ۔ بانی جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی تصانیف کی وسعت کی طرف جب نظر جاتی ہے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آپ کا قلم رکنے کا نام ہی  نہیں لیتا تھا۔ امام نووی نے جب امام غزالی کی تصانیف کا ان کی عمر سے  حساب لگایا تو پتہ چلا کہ آپ ہر روز آٹھ(8) صفحات لکھتے تھے۔ 
محقق اسلام  قلم کی کثرت اس طرح تو نہیں بلکہ اس کے قریب قریب ہے کہ آپ کی تمام تصانیف کے صفحات کی کل  تعداد تیرہ ہزار سینتیس (13037)ہے۔ جب کہ آغاز سے آخر تک کل دن اندازے کے مطابق آٹھ ہزار تین سو پچانوے (8395) بنتے ہیں، گویا دنوں سے صفحات کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے آپ کے قلم کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے واضح  کہ ابھی اس میں دو کتابوں کا حساب نہیں ہے۔ ایک کتاب کا آپ نے مسودہ تیار فرما لیا تھا جس کا نام شان اہل بیت اور دشمنان اہل بیت کا علمی کی محاسبہ رکھا ۔وصال کےآخری روزاس کتاب  کا آخری ڈیڑھ صفحہ تحریر فرمایا۔بدقسمتی سے اس کا مسودہ چوری ہو گیا ۔
اسی طرح جب بیماری اور عارضہ قلب شدت اختیار کر گیا، اس عارضہ میں بھی تفسیر قرآن لکھنے کے لیے مواد جمع کر رہے تھے اور اس کا آغاز کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک   28صفر 1417 بمطابق 14 جولائی 1996 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ اگر  تفسیر قرآن اور دوسری کتاب مکمل ہو کر شائع ہو جاتی تو صفحات کی تعداد بہت بڑھ جاتی۔

پڑھنا لکھنا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا سفر و حضر میں اس پر عمل فرماتے قلم کی تیز رفتاری کا  یہ عالم کہ 168 صفحات کی کتاب معارف سیدنا امیر معاویہ کا صرف دس دن  میں مسودہ تیار فرما لیا۔ مکہ مکرمہ میں حج سے پہلے صرف ایک ماہ اور چند دن میں اصول فقہ کی معروف و متداول کتاب اصول الشاشی کی شرح تیار ہوگئی۔

محقق اسلام کی تصانیف جب میدان میں آئیں تو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا گیا آنا فانا ہر طرف چرچا ہو گیا۔ تمام مسالک کے علماء نے تاثرات لکھے اور پذیرائی بخشی ۔ اس سے آپ کے کتابوں کے اثرات کا پتہ چلتا ہے ۔ حافظ عبد الستار سعیدی مدظلہ العالی فرمایا کرتے کہ  محقق اسلام نے دفاع صحابہ واہل بیت میں اس وقت قلم اٹھایا جب نامور لوگوں کے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے ہاتھ کا نپتےتھے ۔آپ کی کتب کی مثال ماضی قریب وبعید میں دورتک نظر نہیں آتی اوریہ کتب کا حسین گلدستہ مستقبل کے مصنف و مؤرخ  کے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے۔تصانیف محقق اسلام کے تحقیقی جائزے اور منہج تحقیق کے لیے الگ سے دفتر درکار ہے جس سے آپ کی علمی  عظمت اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔
حضرت محقق نے کتابوں کی صورت وراثت چھوڑی  اب نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ اس کو خریدیں، پڑھیں اور آگے پھیلائیں تاکہ ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو جائے ۔جس طرح ہردور کے تقاضے ہوتے  ہیں اس کے مطابق موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ 
تحقیقی کام کی ترتیب نو اور تسہیل کی اشد ضرورت ہے جس کو آپ کے صاجزادگان شیخ التفسیر علامہ قاری محمد طیب صاحب مدظلہ العالی ،شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی اور صاحب زادہ میاں محمد رضا نقشبندی  وغیرہ احسن انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت محقق اسلام کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فیض سے سب کو وافر حصہ عطا فرمائے آمین ۔

تحریر: ڈاکٹر حبيب احمد

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

نیپرا نے سہ ماہی اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کردی

نیپرا سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک  روپے 75 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

نیپرا نے سہ ماہی اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کردی

اسلام آباد: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سہ ماہی اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کر دی ہے  جبکہ جولائی کے ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں37 پیسے فی یونٹ کمی کی منظوری بھی دے دی ہے ۔ 

تفصیلات کے مطابق نیپرا سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک  روپے 75 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے اور یہ فیصلہ وفاقی حکومت کو بھیجوا دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی اور 24-2023 کی تیسری سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ 0.93 روپے فی یونٹ اگست میں ختم ہو جائے گی ۔ 

نیپرا کی جانب سے  کہا گیا ہے کہ ستمبر کے بلوں میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 0.82  روپے کا اضافہ ہو گا۔

نیپرا نےمزید  بتایا کہ اتھارٹی نے جولائی کے ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 37 پیسے فی یونٹ کمی کی منظوری بھی دے دی ہے اور اس حوالے سے درخواست پر سماعت 28 اگست 2024 کو کی تھی اور یہ ریلیف ستمبر کے بلوں میں دی جائے گی۔


اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل جون کی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ  2 روپے 56 پیسے اضافے کے ساتھ اگست کے بلوں میں وصول کیا گیا تھا،  اس طرح ستمبر کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2 روپے93پیسے کی کمی ہو گی تاہم دونوں ایڈجسٹمنٹ ملا کر صارفین کو ستمبر کے بلوں میں 2  روپے 11 پیسے  فی یونٹ کا  ریلیف ملے گا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب جاری

وزیراعظم شہباز شریف تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کر رہے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب جاری

اسلام آباد: یوم دفاع و شہدا کے سلسلے میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں شہداء اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقریب جاری ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کر رہے ہیں۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، اعلیٰ سول و عسکری قیادت اور دیگر معززین بھی شریک ہیں۔


وزیر اعظم شہباز شریف نے یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll