- Home
- News
محقق اسلام کے علمی کارنامے اور اس کے اثرات،اسلامی اصولوں کا دفاع اور محقق اسلام کی تحقیقی کاوشیں
آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے
دین اسلام ہمہ جہت پہلو رکھتا ہے اور آفاقی دین ہونے کے سبب قیامت تک اس میں انسانیت کے لیے مکمل راہ نمائی موجود ہے۔ دین اسلام میں حق و باطل کی پہچان مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں احقاق حق اور ابطال باطل میں علماء نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ ان علماء میں بیسویں صدی کے نامور عالم دین محقق اسلام حاجی محمد علی نقشبندی کا نام سرفہرست ہے۔ 1933 میں ضلع گجرات میں پیدا ہونے والا یہ عظیم انسان دیکھتے ہی دیکھتے آسمان تحقیق پر چھا گیا۔میرے ممدوح حاجی صاحب رحمہ اللہ علیہ نے 1952 میں حفظ قرآن قرآن مکمل کیا اس کے بعد 1960 مروجہ درس نظامی مکمل فرمائی اور علم کی ترویج واشاعت میں حصہ ڈالتے ہوئے باقاعدہ 1963 میں بلال گنج لاہور میں عظیم الشان اداره جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ ابوالبرکات سید احمد شاہ ،محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد اور شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی شامل ہیں۔ دور طالب علمی سے ہی آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی عظیم روحانی خانقاہ آستانہ عالیہ حضرت کیلیانوالہ شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ نور الحسن شاہ بخاری سے بیعت کا شرف
حاصل ہوا ۔جس شہر کو حضرت مجدد الف ثانی نے قطب البلاد کا نام دیا اس شہر میں آپ نے اپنےقلم سے وہ علمی کارنامہ سر انجام دیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
آپ کی تصانیت اور علمی مقام پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنا عظیم سعادت ہے جس کے حصول کے لیے کچھ الفاظ سپرد قلم کئے جا رہے ہیں۔
آپ کی تصانیف کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اصلاح عقائد، فروغ عشق رسول وصحابہ واہل بیت،اسلام سے تعلق کی بحالی اور اصلاح معاشرہ جیسے نمایاں ترین پہلو سامنے آتے ہیں ۔ایک طرف آپ محدث اعظم اور شیخ الحدیث کے علمی و اقتصادی فیضان کے وارث تھے تو دوسری طرف حضرت خواجہ نور الحسن بخاری کے باطنی علوم کے وارث بھی تھے۔
آپ علمی حیثیت سے ایک انجمن تھے اور شان ایک ادارہ سے کم نہ تھی ۔حضرت محقق اسلام کی تصنیفات میں موطا امام محمد کی شرح شرح موطا امام محمد( تین جلدیں)، اطيب الحواشی شرح اصول الشاشی نور العینین فی ایمان آباء سید الکونین، قانونچہ رسولیہ، منکرین وجوب اللحیہ کا شرعی محاسبہ ، دشمنان امیر معاویہ کا علمی محاسبہ (دو جلدیں) ، تعارف سیدنا امیر معاویہ ،تحفہ جعفریہ (پانچ جلدیں)،فقہ جعفریہ (چار جلدیں) اور عقائد جعفریہ (چارجلدیں) شامل ہیں۔
آپ کی تصانیف کے مطالعہ کرنے سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ان میں سب سے نمایاں پہلو ناموس صحابہ واہل بیت ہے۔اس موضوع پر آپ نے قلم سے تحقیق کا حق ادا کیا اور باطل کا رد انہی کی کتب سے کیا۔رد ابطال اور دین اسلام کے موقف کو خوبصورت انداز میں بیان کرنے کے اسلوب میں جب نظر ڈالی جائے تو اس میں اسلوب زمانہ ماضی میں امام بخاری نظر آتے ہیں کہ جب انہوں نے خواب دیکھا کہ حضور اکرم کی مگس رانی (جسم اطہر سے مکھیاں وغیرہ اڑانا) کر رہے ہیں ،تعبیر یہ بتائی گئی کہ تم احادیث کو خلط ملط سے پاک کرو گے ۔
اسی طرح ماضی قریب میں اعلحضرت امام احمد رضا خان ابطال باطل میں وہی انداز اختیار کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ گئے۔ بر صغیر میں شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ کے ذریعے اسی اسلوب کو آگے بڑھایا۔ شیخ محقق کے بعد منظم انداز میں علمی ورثہ امت کے لیے قبلہ حاجی صاحب نے چھوڑا ،یہ مشقت طلب اور وقیع کام ہے کہ جس کو کرنے کے لیے ایک پوری ٹیم اور مدت دراز درکار ہو۔ آپ نے تن تنہا محض اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول کی مدد اور مرشد گرامی کے فیض سے سر انجام دیا ۔
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی حاجی صاحب نے کب لکھنا شروع کیا ؟مطالعہ کے دوران ورق گردانی کرتے اور قبلہ شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی کے مطابق آپ نے 1973 میں لکھنے کا آغاز فرمایا اور تین چار رسائل لکھے جن کی اشاعت نہ ہو سکی۔پہلی بار جب حج مبارک کے لیے تشریف لے گئے ۔ حج سے واپسی پر ایران سے اصل کتب خریدیں تو اس وقت سے ہی رد ابطال پر آپ سے گہرا مطالعہ شروع فرما دیا ۔
چھوٹے رسائل سے لکھنے کا آغاز اور پھر باطل کو رد کرنا ،اس انداز سے شروع ہوا کہ آخری دن نہیں بلکہ آخری لمحات تک جاری رہا ۔یہ عرصہ کل 23سال تک محیط ہے ۔ سب سے پہلے تحفہ جعفریہ تصنیف فرمائی اس کے بعد فقہ اور عقائدِ جعفریہ معرض وجود میں آئیں۔ عقائدِ جعفریہ میں اگر چہ تاریخ طباعت مذکور نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ آخر میں لکھی گئی کیونکہ جلد چہارم کے آخر میں سب معاونین کے حق میں تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس دوران دوسری کتب کی اشاعت بھی ہوتی رہی جیسے حضور کے والدین کے مؤمن ہونے پر نور العینین ،داڑھی کے واجب ہونے پر وجوب اللجیہ تعارف سیدنا امیر معاویہ اور حضرت امیر معاویہ کے دفاع میں دو ضخیم جلدیں دشمنان امیر معاویہ کے نام سے 1992 میں معرض وجود میں آئیں ۔ بانی جامعہ رسولیہ شیرازیہ کی تصانیف کی وسعت کی طرف جب نظر جاتی ہے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آپ کا قلم رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ امام نووی نے جب امام غزالی کی تصانیف کا ان کی عمر سے حساب لگایا تو پتہ چلا کہ آپ ہر روز آٹھ(8) صفحات لکھتے تھے۔
محقق اسلام قلم کی کثرت اس طرح تو نہیں بلکہ اس کے قریب قریب ہے کہ آپ کی تمام تصانیف کے صفحات کی کل تعداد تیرہ ہزار سینتیس (13037)ہے۔ جب کہ آغاز سے آخر تک کل دن اندازے کے مطابق آٹھ ہزار تین سو پچانوے (8395) بنتے ہیں، گویا دنوں سے صفحات کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے آپ کے قلم کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے واضح کہ ابھی اس میں دو کتابوں کا حساب نہیں ہے۔ ایک کتاب کا آپ نے مسودہ تیار فرما لیا تھا جس کا نام شان اہل بیت اور دشمنان اہل بیت کا علمی کی محاسبہ رکھا ۔وصال کےآخری روزاس کتاب کا آخری ڈیڑھ صفحہ تحریر فرمایا۔بدقسمتی سے اس کا مسودہ چوری ہو گیا ۔
اسی طرح جب بیماری اور عارضہ قلب شدت اختیار کر گیا، اس عارضہ میں بھی تفسیر قرآن لکھنے کے لیے مواد جمع کر رہے تھے اور اس کا آغاز کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک 28صفر 1417 بمطابق 14 جولائی 1996 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ اگر تفسیر قرآن اور دوسری کتاب مکمل ہو کر شائع ہو جاتی تو صفحات کی تعداد بہت بڑھ جاتی۔
پڑھنا لکھنا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا سفر و حضر میں اس پر عمل فرماتے قلم کی تیز رفتاری کا یہ عالم کہ 168 صفحات کی کتاب معارف سیدنا امیر معاویہ کا صرف دس دن میں مسودہ تیار فرما لیا۔ مکہ مکرمہ میں حج سے پہلے صرف ایک ماہ اور چند دن میں اصول فقہ کی معروف و متداول کتاب اصول الشاشی کی شرح تیار ہوگئی۔
محقق اسلام کی تصانیف جب میدان میں آئیں تو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا گیا آنا فانا ہر طرف چرچا ہو گیا۔ تمام مسالک کے علماء نے تاثرات لکھے اور پذیرائی بخشی ۔ اس سے آپ کے کتابوں کے اثرات کا پتہ چلتا ہے ۔ حافظ عبد الستار سعیدی مدظلہ العالی فرمایا کرتے کہ محقق اسلام نے دفاع صحابہ واہل بیت میں اس وقت قلم اٹھایا جب نامور لوگوں کے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے ہاتھ کا نپتےتھے ۔آپ کی کتب کی مثال ماضی قریب وبعید میں دورتک نظر نہیں آتی اوریہ کتب کا حسین گلدستہ مستقبل کے مصنف و مؤرخ کے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے۔تصانیف محقق اسلام کے تحقیقی جائزے اور منہج تحقیق کے لیے الگ سے دفتر درکار ہے جس سے آپ کی علمی عظمت اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔
حضرت محقق نے کتابوں کی صورت وراثت چھوڑی اب نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ اس کو خریدیں، پڑھیں اور آگے پھیلائیں تاکہ ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو جائے ۔جس طرح ہردور کے تقاضے ہوتے ہیں اس کے مطابق موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ
تحقیقی کام کی ترتیب نو اور تسہیل کی اشد ضرورت ہے جس کو آپ کے صاجزادگان شیخ التفسیر علامہ قاری محمد طیب صاحب مدظلہ العالی ،شیخ الحدیث علامہ رضائے مصطفے نقشبندی اور صاحب زادہ میاں محمد رضا نقشبندی وغیرہ احسن انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت محقق اسلام کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فیض سے سب کو وافر حصہ عطا فرمائے آمین ۔
تحریر: ڈاکٹر حبيب احمد
مداراس رجسٹریشن بل: حکومت نے اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے
- 2 گھنٹے قبل
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا ممکنہ شیڈول کیا ہو گا؟
- 2 گھنٹے قبل
مسلسل دو روز کمی کے بعد سونے کی قیمت میں ایک دفعہ پھر اضافہ
- 3 گھنٹے قبل
دفتر خارجہ نے میزائل پروگرام پر امریکی پابندی کے بیان کو منطق سے عاری قرار دے دیا
- 3 گھنٹے قبل
9 مئی واقعات کے ماسٹر مائنڈ بانی پی ٹی آئی کو کیفر کردار تک پہنچا کر جشن منائیں گے،عطا تارڑ
- ایک گھنٹہ قبل
سال کا سب سے مختصر دن اور طویل رات کوکونسی ہے؟
- ایک گھنٹہ قبل