جی این این سوشل

جرم

تبدیلی سرکار اور ڈینگی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

چند روز قبل میں اپنے دفتر میں ایک میٹنگ میں مصروف تھا کہ میرے فون پر ایک دوست کی کال موصول ہوئی۔ میں نے مصروفیت کی وجہ سے وہ کال نہیں سنی اور سوچا کہ ابھی میٹنگ سے فارغ ہو کر خود کال بیک کر لوں گا، لیکن پھر دوبارہ اسی دوست کی کال آنا شروع ہو گئی۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

میں نے ایک مرتبہ پھر ٹیلیفون کاٹ کر اس کو میسج کیا کہ میٹنگ میں مصروف ہوں، فارغ ہو کر واپس کال کرتا ہوں۔ یہ پیغام پڑھتے ہی میرے اس دوست نے مجھے جوابی پیغام بھیجا کہ عمران بھائی ایک ایمرجنسی ہے اس لیے فوری رابطہ کر لیں۔ یہ پیغام پڑھتے ہی میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے تقریباً روتے ہوئے مجھے کہا کہ میری بہن شدید بیمار ہے، ڈینگی کی وجہ سے اس کے پلیٹ لٹس انتہائی کم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر آپ اس کی زندگی بچانا چاہتے ہیں تو مریضہ کو فوری طور پر لاہور کے کسی اچھے ہسپتال میں لے جائیں۔ عمران بھائی! خدا کے لیے کچھ کریں، نہیں تو میری بہن مر جائے گی۔ ہم نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر لی ہے کسی سرکاری تو کیا، پرائیویٹ ہسپتال میں بھی کوئی بیڈ نہیں مل رہا۔ اللہ کے واسطے ہماری کچھ مدد کریں۔

میں نے اپنے طور پر اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ تم فون بند کرو میں کچھ کرتا ہوں۔ اپنا فون بند کرتے ہی میں نے اپنے ایک انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر ، جو لاہور کے ایک معروف نجی ہسپتال کے سی ای او ہیں، کو فون کیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے انتہائی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے کہا کہ عمران بھائی آپ کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ میرے پاس اگر ایک بیڈ کی بھی گنجائش ہو تو حاضر ہوں لیکن کیا کروں‘ ہمارے تینوں ہسپتالوں میں سے کسی ایک میں بھی نہ تو کوئی کمرہ دستیاب ہے اور نہ ہی آئی سی یو میں کوئی بیڈ خالی ہے۔ تمام ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ انکار سننے کے بعد میں نے ایک اور دوست کے ذریعے فیروزپور روڈ پر قذافی سٹیڈیم کے سامنے واقع لاہور کے ایک اور معروف ہسپتال کے مالک سے رابطہ کیا، لیکن وہاں سے بھی کچھ ایسا ہی جواب ملا۔ ادھر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق میرا وہ دوست مسلسل روتے ہوئے مجھے فون کیے جا رہا تھا کہ خدا کے واسطے کچھ کرو، اس کے فون کی ہر بیل کے ساتھ نہ صرف میری ذمہ داری بڑھتی جا رہی تھی بلکہ میری شرمندگی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ میں اس پریشانی کے عالم میں اس کی مدد کیوں نہیں کر پا رہا۔ اس پریشانی کے عالم میں، میں نے اپنے ایک اور دوست ڈاکٹر سے رابطہ کیا جو لاہور کے ایک بڑے نجی ہسپتال کے مالک بھی ہیں اور ان سے اس ساری صورتحال میں کسی خصوصی شفقت اور مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے خاص مہربانی فرمائی اور مجھے کہا کہ کوئی کمرہ یا آئی سی یو کا بیڈ دستیاب نہیں ہے لیکن میں آپ کی اور آپ کے اس دوست کی پریشانی کم کرنے کے لیے یہ ضرور کر سکتا ہوں کہ آئی سی یو کے ساتھ واقع سائیڈ روم میں اس مریضہ کو ایڈمٹ کر کے اس کا فوری علاج شروع کروا دیتے ہیں ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ فوری طور پر بہن کو لے کر متعلقہ ہسپتال پہنچ جائے۔

اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم پاکستانی کسی بھی بیماری کی صورت میں علاج معالجے کیلئے بنیادی سہولتوں سے بھی کیوں محروم ہیں؟ آئین پاکستان کے تحت جب ہر پاکستانی کو صحت اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تو پھر ہمیں علاج کیلئے کیوں دربدر ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں، ذلیل ہونا پڑتا ہے اور سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔ غریبوں کا نہ پوچھیں یہاں تو پیسے اور وسائل کے ہوتے ہوئے بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی علاج کے لیے منتیں کرنا پڑتی ہیں۔ بیشتر پرائیویٹ ہسپتالوں میں کمروں کے کرائے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کمروں سے بھی زیادہ وصول کیے جاتے ہیں، لیکن اتنے پیسے خرچ کرنے پر راضی عوام کو سہولتیں پھر بھی نہیں ملتیں۔ غریب بے چارہ تو علاج کی خواہش لیے سرکاری ہسپتالوں میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا ہی مر جاتا ہے، لیکن کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کے مطابق حکومت پاکستان کو جی ڈی پی کا 5 فیصد صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو صحت کی سہولتوں کے فقدان اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ وہ تب یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک میں صحت کی سہولتوں کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے جائیں گے‘ خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کو علاج معالجے کی تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی لیکن کیا عملاً ایسا ہوا ہے؟ اگر آپ سچ پوچھیں تو اس سوال کا جواب 'نہیں‘ میں ملے گا۔

مئی 2020ء میں جاری ہونے والے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب میں 11کروڑ 12ہزار 442 افراد کی صحت پر 90 ارب 10 کروڑ خرچ کیے گئے۔ یعنی ایک فرد کی صحت کیلئے سالانہ 818 روپے 99پیسے اور ماہانہ 68روپے 25پیسے خرچ کیے گئے۔ آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آنے والے صوبہ سندھ نے اپنے 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51 شہریوں کی صحت پر 62 ارب 50 کروڑ خرچ کیے یعنی سالانہ 1305 روپے فی شہری اور ماہانہ 108 روپے 76 پیسے خرچ کیے۔ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 افراد پر مشتمل ہے اور اس نے صحت کا بجٹ 15 ارب 20 کروڑ رکھا، یعنی سالانہ 1231 روپے 32 پیسے فی شہری اور ماہانہ 102 روپے 61 پیسے خرچ کیے۔ 2018-2019ء میں فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام نہیں ہوا تھا جس کے باعث کے پی نے اپنی3 کروڑ 52 لاکھ 3 ہزار 371 افراد پر مشتمل آبادی کیلئے 23 ارب 50 کروڑ روپے رکھے تھے۔ یوں خیبرپختونخوا نے سالانہ 769 روپے 90 پیسے فی فرد جبکہ ماہانہ 64 روپے 15 پیسے خرچ کیے۔ اسلام آباد کی بات کریں تو وفاق نے گزشتہ مالی سال صحت کے شعبے میں 12 ارب 40 کروڑ خرچ کیے جو وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے علاوہ وفاق کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں کیلئے بھی تھے۔

کورونا کے بعد ڈینگی نے حکومتی کارکردگی کے حوالے سے مزید سوال پیداکر دیے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلنے کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے جس کی نشاندہی خود محکمہ صحت کی اپنی ایک رپورٹ نے کی۔ رواں سال ڈینگی مہم کا حکم اس وقت جاری ہوا جب اموات ہونا شروع ہو گئیں۔

عوام حکومت پر بھروسہ کریں یا اپوزیشن کا اعتبار، سچ یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو مناسب علاج کی سہولت دستیاب ہونا اس کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔

اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ٹرانسمیشن و ڈسپیچ کمپنی کی اصلاحات و تنظیمِ نو کی اصولی منظوری

وزیراعظم نے کم آمدنی والے صارفین کو کم بجلی خرچ کرنے والے پنکھے فراہم کرنے کیلئے جامع پلان طلب کر لیا

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے ترسیلی نظام نیشنل ٹرانسمیشن و ڈسپیچ کمپنی کی اصلاحات و تنظیم نو کی اصولی منظوری دے دی۔

وزیراعظم نے اس حوالے سے سفارشات کو حتمی شکل دینے کیلئے کمیٹی قائم کرد ی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے کم آمدنی والے صارفین کی سہولت کیلئے کم بجلی خرچ کرنے والے پنکھے فراہم کرنےکیلئے جامع پلان طلب کر لیا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت بجلی شعبے کی اصلاحات کے جائزے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کا تیسرا اور حتمی دور منعقد ہوا۔

وزیراعظم آفس میں بجلی کے شعبے کی اصلاحات کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے سیل قائم کر دیا گیا جو پورے عمل کی کڑی نگرانی کرے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ صنعتی شعبے کو کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کیلئے بھی ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے، ہر ماہ بجلی کے شعبے کی اصلاحات کے نفاذ پر جائزہ اجلاس کی خود صدارت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کیلئے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائیں گے، حکومتی محکموں میں مؤثر سزا اور جزا کے نظام کے بغیر اصلاحات ممکن نہیں۔اجلاس کو نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے مسائل اور اس کی اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔

اجلاس کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صورتحال، نقصانات اور ان کی نجکاری و آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی گئیں۔ اجلاس کو ٹیرف ریشنالائیزیشن، صنعتوں و گھریلو صارفین کو فراہم کی جانے والی بجلی کے نرخوں کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا۔

اجلاس کو مختلف تجاویز میں گھریلو صارفین کو کھانا پکانے کے علاوہ دیگر استعمال کیلئے گیس کی بجائے بجلی استعمال کرنے کے حوالے سے مختلف لائحہ عمل پیش کئے گئے۔ وزیراعظم نے بریفنگ کی تعریف کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ منظور شدہ اصلاحات کا نفاذ معینہ مدت میں یقینی بنایا جائے۔

اجلاس میں وفاقی وزراء محمد اسحاق ڈار، احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، عطاء اللہ تارڑ، سردار اویس خان لغاری، ڈاکٹر مصدق ملک، عبدالعلیم خان، سابق وزیرِ بجلی محمد علی، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان، ارکان قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی، انجینئر قمر الاسلام، وزیرِ اعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل، چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین نیپرا اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

پڑھنا جاری رکھیں

جرم

اے این ایف کی 11 کارروائیوں میں 90 کلو گرام منشیات برآمد، 8 ملزمان گرفتار

اسلام آباد ایئرپورٹ پر شارجہ جانے والے مسافر سے 22 ہیروئن بھرے کیپسولز برآمدکیے گئے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف )نے منشیات سمگلنگ کے خلاف11 کارروائیوں کے دوران 90 کلوگرام منشیات برآمدکرکے 8 ملزمان گرفتارکر لیے۔اے این ایف ہیڈکوارٹر راولپنڈی سے جاری بیان کے مطابق لاہور ایئرپورٹ پر قطر جانے والے مسافر سے 5.3 کلوگرام آئس برآمدکی گئی۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر شارجہ جانے والے مسافر سے 22 ہیروئن بھرے کیپسولز برآمدکیے گئے، بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں کوریئر آفس میں برطانیہ بھیجے جانے والے پارسل سے 630 گرام ہیروئن برآمدکی گئی۔

لاہور میں کوریئر آفس میں برطانیہ بھیجے جانے والے پارسل سے 32 گرام ہیروئن برآمدکی گئی۔ راولپنڈی میں کوریئر آفس میں دوسری کارروائی میں برطانیہ سے بھیجے گئے پارسل سے 8 گرام ویڈ برآمدکی گئی۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے 22.8 کلو گرام چرس برآمدکی گئی ۔اسلام آباد میں 2 کارروائیوں میں 4 ملزمان سے34.8 کلوگرام چرس اور 4 کلو گرام ہیروئن برآمدکی گئی۔

رنگ رود پشاور میں کوریئر آفس میں لاہور، شکر گڑھ اور پنو عاقل بھیجے جانے والے پارسل سے14.4 کلوگرام چرس، 4.2 کلوگرام افیون اور 800 گرام آئس برآمدکرکے ملزم گرفتارکیا گیا۔

سکھر میں کوریئر آفس میں لکی مروت بھیجے جانے والے پارسل سے 5 کلوگرام چرس برآمد کر کے ملزم گرفتارکیا گیا۔ترجمان نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کے خلاف انسدادِمنشیات ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث ایک بار پھر سنگین صورتحال

چاغی میں طوفانی بارش کے باعث سیلابی صورتحال، کئ مکان گر گئے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے باعث ایک بار پھر سنگین صورتحال، چاغی میں طوفانی بارش کے باعث سیلابی صورتحال، کئ مکان گر گئے۔

بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی، کئی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہوگیا، سیلابی ریلے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوگئی۔

نوشکی، چاغی، تفتان میں حالیہ بارشوں نے نظام زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ تفتان چاغی میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ گزشتہ رات گئے ہونے والی بارش سے تفتان نوشکی چاغی سمیت دیگر 22اضلاع کے نشیبی علاقے زیر آب آگئےْ

نوشکی میں جھیل زنگی ناوڑ کے بند میں شگاف پڑنے سے جھیل کے پانی کا اخراج شروع ہوگیا ہے، جس کی فوری طور پر بھرائی کی ضرورت ہے۔ پانی کے اخراج سے جھیل کا پانی مختلف حصوں میں کم ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔

اہل علاقہ نے مطالبہ کیا ہے کہ نوشکی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت مشہور شگار گاہ کے پانی کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ نوشکی کی جھیل زنگی ناوڑ کے حفاظتی بند میں شگاف پڑنے سے نشیبی آبادی کے زیر آباد آنے کا خدشہ ہے۔

بند ٹوٹنے پر نصیر آباد، جبار اور دیگر آبادیوں میں پانی داخل ہو سکتا ہے۔ اُدھر تفتان میں سیلابی ریلے سے ایک شخض کی لاش بھی برآمد ہوئی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll