جی این این سوشل

پاکستان

تاریخ کی دہرائی اور مخفی علوم!

پر شائع ہوا

کی طرف سے

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن جتنی جلدی تاریخ پاکستان میں دہرائی جاتی ہے شاید اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملے گی۔

عمران یعقوب خان Profile عمران یعقوب خان

نومبر 2017ء میں فیض آباد میں تحریک لبیک نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے کا پس منظر سب کو معلوم تھا۔ پہلے سے دباؤ میں آئی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا گھیراؤ کیا جا رہا تھا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اس جماعت کو متحرک کیا گیا تو آج کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے ان کے دھرنے کی حمایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے علاوہ شیخ رشید اور اعجازالحق کا ذکر بھی کیا، جو خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس دھرنے کی حمایت کرتے رہے۔ گولڑہ شریف میں ختم نبوت کے نام پر ایک کانفرنس کرائی گئی جس میں عمران خان شریک ہوئے اور تحریک لبیک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آج احتجاجی مارچ اور ممکنہ دھرنے کو روکنے کی ذمہ داری بحیثیت وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی ہے، انہوں نے عام انتخابات میں اپنے پوسٹرز پر مجاہد ختم نبوت لکھوایا اور مذہب کارڈ کو بھرپور استعمال کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اس احتجاج اور تحریک انصاف کی طرف سے اس کی حمایت کے بعد 'انقلابی اینکرز‘ نے بھی مجاہدین ختم نبوت کا روپ دھار کر مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو دیوار سے لگایا۔ اس تحریک کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان قومی اسمبلی سے استعفوں کے اعلانات کرائے گئے اور مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی فضا قائم کی گئی۔ اب تحریک لبیک ایک بار پھر احتجاج پر ہے اور اگلا منظرنامہ بھی ماضی کے اوراق سے جھانکتا نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے خلاف فضا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی رپورٹ ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے کے بعد شروع ہوئی اور اسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔ اب پھر یہ فضا بن رہی ہے اور مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک پیج کا تاثر پرزہ پرزہ ہو چکا ہے۔ 6 اکتوبر کو ایک اہم عہدے پر تقرر کا اعلان ہوا اور اس پر کھینچا تانی شروع ہوئی، 20 دن کی اس کھینچا تانی نے ایک پیج کا تاثر ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اب معاملہ بظاہر حل کر لیا گیا ہے اور جس نوٹیفکیشن کا شدت سے انتظار تھا وہ سامنے آ چکا ہے لیکن کشیدگی کا تاثر برقرار ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی بلکہ حکومت کی طرف سے شعوری کوشش کی جا رہی ہے کہ کشیدگی کا تاثر برقرار رہے۔

اس نوٹیفکیشن کے آنے سے پہلے مخفی علوم اور اعدادوشمار کا چرچا رہا۔ نوٹیفکیشن آنے کے بعد بھی مخفی علوم کی کارستانیاں زبان زدعام ہیں اور اس نوٹیفکیشن کو اگلے ماہ کے جزوی چاند گرہن کی تاریخوں سے ملا کر دیکھا جا رہا ہے۔ مخفی علوم یا علم الاعداد سے مجھے کوئی لگاؤ ہے نہ ادراک، لیکن ایسے عوامل سے ہٹ کر یوں لگتا ہے کہ معاملات اب ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں اور ایسے ٹکراؤ زیادہ دیر نہیں چلتے، چند ہفتے ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کے ساتھ ایک بار پھر کوئی پراسرار عمل جوڑنے کی بات ہو تو 4 دسمبر کی تاریخ اہم لگتی ہے جب دنیا میں مکمل سورج گرہن ہوگا۔ سورج اور چاند گرہن کے ساتھ صدیوں سے توہمات وابستہ ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسے توہمات پر یقین رکھتی ہے اور ان کا اعتقاد کی حد تک یقین ہے کہ گرہن سے بڑی بڑی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں 1999ء میں سورج گرہن کے بعد دو ماہ کے اندر اس وقت کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔

سورج گرہن کچھ کرے گا یا نہیں لیکن تصادم کی کیفیت یونہی چلتی رہی تو یقینا اس کا الزام 4 دسمبر کے گرہن پر ہی آئے گا۔ اگر مان لیا جائے کہ4 دسمبر کا گرہن حکومت کے لیے منحوس ہو سکتا ہے تو اگلے الیکشن اپریل یا مئی میں ممکن ہو سکتے ہیں۔ ان مہینوں میں بھی جزوی گرہن لگیں گے،30 اپریل 2022ء کا جزوی سورج گرہن پاکستان یا گرد و نواح میں نظر نہیں آئے گا اور اسے مغربی، جنوب مغربی امریکا، بحرالکاہل، بحر اوقیانوس اور انٹارکٹکا کے علاقوں میں دیکھا جا سکے جبکہ پندرہ سولہ مئی 2022ء کا جزوی چاند گرہن یورپ، ایشیا، افریقہ سمیت دنیا کے بڑے حصے میں دیکھا جائے گا اور یہ جزوی چاند گرہن ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی دیکھا جا سکے گا۔ اگر پراسرار علوم پر یقین رکھنے والوں کی بات مان لی جائے تو اس حساب سے 4 دسمبر کے مکمل سورج گرہن نے اگر حکومت کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا تو اپریل اور مئی انتخابی مہینے ہوں گے اور جزوی گرہن ان انتخابات میں بھی رنگ دکھائیں گے۔

مخفی علوم کے ماہرین کی مدد لینے والے سیاسی کرداروں کو اب دسمبر کی فکر کرنی چاہئے۔ فکر دو طرح کی ہو گی۔ حکومت میں بیٹھے پراسرار علوم پر یقین رکھنے والے حکومت بچانے کے لیے ماہرین کی خدمات لیں گے اور اپوزیشن بحرانوں میں ڈولتی حکومتی نیّا کو ڈبونے کے لیے 'بابوں‘ سے رجوع کرے گی۔ دسمبر اگر فیصلہ کن ہوا تو پھر اپریل اور مئی کی فکر ہر کسی کو ستائے گی اور اپنے اپنے زائچوں میں ممکنہ نحوستوں کو دور کرانے کے لیے عملیات کا نیا دور چلے گا اور اس بار چونکہ سب اقتدار کی فکر میں ہوں گے تو نحوستوں سے نجات کے چلّے سب کی ضرورت بن جائیں گے۔

پراسرار علوم پر یقین رکھنے والوں کے خیال میں گرہن ایک بلا ہے جو آسمان سے انسانوں کی تباہی کے لیے آتی ہے جس کو روکنے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں لیکن اس کا راستہ چاند اور سورج نے روک کر اپنی قربانی دے دی ہے اور اس نے خود کو بلا کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ ضعیف الاعتقاد لوگ یہ مانتے ہیں بلا چونکہ طاقتور ہے اور اس نے سورج اور چاند کو اپنے منہ میں لے لیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔ پرانے زمانے میں پہاڑی قبائل‘ جن تک علم کی روشنی نہیں پہنچی تھی‘ گرہن کے وقت ایک میدان میں جمع ہوکر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے شور شرابا کرتے برتن ٹین وغیرہ بجاتے تھے تاکہ اس بلا کو کسی طرح اپنے سے دور کریں۔ بعض منچلے پتھر بھی پھینکتے تھے تاکہ اگر وہ شور شرابے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تو وہ ان پتھروں کے خوف سے دور ہٹ جائے۔ اب ایسے مناظر تو کم ہی دکھائی دیں لیکن مخفی علوم میں مہارت کے دعویدار چلے کاٹتے ہیں، عام انسان کو ڈرا دینے والے عجیب و غریب عمل کرتے ہیں اور ان کی کمزوری سے کھیلتے ہیں۔

مجھے چونکہ ان مخفی اور پراسرار علوم پر یقین نہیں چنانچہ صرف یہ فکر ستا رہی ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کی خاطر کب تک بلیک میل کرتے اور ہوتے رہیں گے؟ کب تک تاریخ کو دہرایا جاتا رہے گا؟ کیوں ہر 10سال بعد جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے؟

حکمران جماعت 'ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان‘کے نعروں کے پیچھے چھپ کر حالیہ تنازع کواپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن ایک شخصیت کو ذاتی دوستی کی وجہ سے قریب رکھنے کی کوشش کو اصولوں کی لڑائی کا نام دینا ابن الوقتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہی جماعت باقی سب کو ملک کے ایک مضبوط ادارے کے دشمن کا تاثر دے کر مطعون کرتی رہی، جب تک مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوا ادارے کے ساتھ اچھے تعلقات کی سینے پر سجے تمغے کی طرح نمائش کی جاتی رہی اب اپنے مفادات کی خاطر اسی ادارے کے سامنے ڈٹ جانے کا تاثر دینا طوطا چشمی اور مفاد پرستی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟؟

اس سے قبل یہ آرٹیکل روزنامہ دنیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کرم : قبائلی کشید گی میں اضافہ ، حکومتی ہیلی کاپٹر پر بھی فائر نگ

لوئر کرم کے علاقے بگن اور علیزئی کے درمیان کل شام حالات کشیدہ ہونے کے بعد فریقین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو تاحال جاری ہے

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

 ضلع کرم میں کل شام مختلف گاؤں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جس میں اب تک 30 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر پاراچنار جانے والے خیبرپختونخوا حکومت کے وفد کے ہیلی کاپٹر پر بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کی ہے، حکام کے مطابق فائرنگ کے واقعہ میں ہیلی کاپٹر اور حکومت وفد محفوظ رہا۔

دوسری جانب کرم سانحہ سمیت پختونخوا میں دہشت گردی کےبڑھتے واقعات کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی نے 25 نومبر کو صوبے بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی ایک روزہ دورے پر پارا چنار جانا تھا، وزیرداخلہ نے فائرنگ سے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کرنا تھی، تاہم ان کا دورہ خراب موسم کے باعث ملتوی کر دیا گیا ہے۔

ادھر ضلع کرم میں کل شام مختلف گاؤں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جس میں اب تک 30 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

لوئر کرم کے علاقے بگن اور علیزئی کے درمیان کل شام حالات کشیدہ ہونے کے بعد فریقین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو تاحال جاری ہے، فریقین ایک دوسرے کو بھاری اور خودکار اسلحہ سے نشانہ بنارہے ہیں۔

واقعہ کے بعد حالات معمول سے باہر ہوگئے اور فریقین ایک دوسرے خلاف مورچہ زن ہیں۔ رات گئے فریقین نے ایک دوسرے پر لشکر کشی بھی کی ، جس کے نتیجے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔

پاراچنار شہر سے 60 کلومیٹر فاصلے پر واقع علاقہ بگن اور لوئر علیزئی کے لوگ اُس وقت مورچہ زن ہوئے جب 21 نومبر کو مسافر قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، اس حملے کے نتیجے میں 7 خواتین، 3 بچوں سمیت 43 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ضلع کرم کے تین مقامات اپر کرم کے گاؤں کنج علیزئی اور مقبل ، لوئر کرم کے بالش خیل اور خار کلی سمیت لوئر علیزئی اور بگن کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ تاحال جاری ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق جی او سی 9 ڈیو کوہاٹ میجر جنرل ذوالفقار علی بھٹی بھی پاراچنار پہنچ چکے ہیں، گورنر کاٹیج پاراچنار میں اہم جرگہ متوقع ہے۔

دریں اثنا پاراچنار شہر میں ماحول سوگوار ہے تمام کاروباری مراکز سوگ کے طور پر بند رہے، ضلع کرم میں تمام تعلیمی ادارے بھی مکمل طو رپر بند ہیں۔

پاراچنار کو دیگر اضلاع سے لنک کرنے والی واحد سڑک 12 اکتوبر سے بند ہونے سے اپر کرم کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

تفریح

درجنوں ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی کی نویں برسی آج منائی جارہی ہے

جمیل الدین عالی نے  1965 ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران  لکھے گئے ملی نغموں سے شہرت حاصل کی

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پاکستان کے معروف دانشور،شاعر،ادیب اورشہرہ آفاق ملی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی کو دنیا سے رخصت ہوئے نو سال کا عرصہ بیت گیا،انہوں نے جو بھی لکھا خوب لکھا،جیوے جیوے پاکستان اور اے وطن کے سجیلے جوانوجیسے نغموں سے شہرت پائی۔

جمیل الدین عالی 20جنوری 1925ءکو دہلی کے ایک علمی وادبی گھرانے میں پیدا ہوئے،انہوں نے بیک وقت شاعر، ادیب، محقق اور کالم نگار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

جمیل الدین عالی نے  1965 ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران  لکھے گئے ملی نغموں سے شہرت حاصل کی،ان کے مشہور نغموں  میں اے وطن کے سجیلے جوانوں،اتنے بڑے جیون ساگر میں توں نے پاکستان دیااور اس کے علاوہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ”ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ہم مصطفوی ہیں“ شامل ہیں۔

جمیل الدین عالی کو اردو ادب کے لئے طویل خدمات کے اعتراف میں 1991ءمیں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور2004ءمیں تمغہ امتیازسے نوازاگیاتھا، جمیل الدین  عالی طویل علالت کے بعد 23 نومبر 2015ءکو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

اسلام آ باد : حکومت نے ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کروانے کیلئے کمرکس لی

گولڑا موڑجی ٹی روڈ، چھبیس چونگی، نیومارگلہ روڈ ون الیون کے مقام پر بند کیا گیا ہے۔ ایران ایوینو کو ڈی 12 کے مقام سے بند کردیا گیا۔ جی ٹی روڈ کو بھی مختلف مقامات سے بند کردیا گیا

Published by Web Desk

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سےغیرقانونی احتجاج اوردھرنے کی اجازت نہ دینے کے احکامات پروفاقی حکومت نے عمل درآمد کروانے کیلئے کمرکس لی۔ 

پی ٹی آئی کے کل کے احتجاج کے پیشِ نظر فیض آباد پل سے اسلام آباد آنے اور جانے والے راستے آج بند کر دیے گئے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ جانے والا راستہ جزوی بند کیا گیا ہے۔

اسلام آباد اورلاہورمیں موٹرویزکے تمام انٹری پوائنٹس بھی بند ہیں، لاہور سے اسلام آباد جانے والے راستے ٹھوکر نیاز بیگ، بابو صابو انٹرچینج، سگیاں پل اور شاہدرہ چوک بھی بند ہیں، رنگ روڈ کو بھی 2 دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں داخلے کے لیے ایکسپریس وے کھنہ پل کے مقام پردونوں اطراف سے بند کیا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں میٹرو بس سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔

گولڑا موڑجی ٹی روڈ، چھبیس چونگی، نیومارگلہ روڈ ون الیون کے مقام پر بند کیا گیا ہے۔ ایران ایوینو کو ڈی 12 کے مقام سے بند کردیا گیا۔ جی ٹی روڈ کو بھی مختلف مقامات سے بند کردیا گیا۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

Trending

Take a poll