جی این این سوشل

جی این این میں ویڈیو ڈیسک آپ کو روزانہ کی تازہ ترین سرخیاں ، شوز ، پروگرام ، ایونٹس اور بہت کچھ فراہم کرے گا جب آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستان

حدیجہ شاہ کوئٹہ پولیس کے حوالے

انسداد دہشت گردی عدالت نے بلوچستان پولیس کی حدیجہ شاہ کی حوالگی کی درخواست منظوری کر لی

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

انسداد دہشت گردی عدالت نے بلوچستان پولیس کی پی ٹی آئی کارکن حدیجہ شاہ کی حوالگی کی درخواست منظوری کر لی، عدالت نے حدیجہ شاہ کو جیل سے حراست میں لینے کی منظوری دے دی۔

تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ کوئٹہ میں درج مقدمہ میں حدیجہ شاہ کی گرفتاری مطلوب ہے۔ کوئٹہ پولیس نے خدیجہ شاہ کو گرفتار کر لیا۔کوئٹہ پولیس نے خدیجہ شاہ کے راہداری ریمانڈ کے لیے لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ملزمہ کا کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت سے وارنٹ لیا، خدیجہ شاہ سے تفتیش کرنی ہے، لہٰذا عدالت تین روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرے۔

اے ٹی سی لاہور نے خدیجہ شاہ کا دو دن کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمہ کو دو روز میں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس قابل سماعت قرار

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے سینئر جج قدرت اللہ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سابق چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔

غیر شرعی نکاح کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سینئر سول جج قدرت اللہ نے کی، اس موقع پر شکایت کنندہ خاور مانیکا عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزاروکیل رضوان عباسی نے شادی سے پہلے تعلقات پردلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہاں دو افراد آئےجنہوں نےآنکھوں سےدیکھا اورایک وہ جسےبتایا گیا،

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ قانون دیکھیں، قانون کیا کہتا ہے۔ وکیل رضوان عباسی نے جواب میں کہا کہ اس کیس میں 203 سی لاگو ہوتی ہے۔

جج قدرت اللہ نے ریمارکس دیے کہ شکایت کنندہ کے ساتھ 2 گواہ ضروری ہیں،میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ یہ شرائط پوری ہوں۔ اگرآپ کو دلائل کے لیے وقت چاہیے تو میں وقت دے دیتا ہوں۔  قانون واضح ہے اسے ہم تبدیل نہیں کر سکتے، ججمنٹ کی تب ضرورت ہوتی ہے جب قانون واضح نہ ہو۔

وکیل نے استدعا کی کہ میرے دلائل سن لیں میں تیار ہوں، میں نے سپریم کورٹ جانا ہے اس لیے ابھی سن لیں، جج نے جواب میں کہا کہ آپ مشورہ کر لیں پھر دلائل دے دیں۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ گھرمیں خاتون ملازمہ بھی تھی ٹرائل میں اس کا نام بھی آسکتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آپ قانون کو دیکھ لیں، قانون 496 بی کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟ خاور مانیکا کا بیان دیکھ لیں، اس میں کچھ بھی نہیں ہے، قانون کے مطابق شکایت کنندہ کے ساتھ دو گواہان لازم ہیں۔

واضع رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے سینئر جج قدرت اللہ کی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بھارت میں انصاف کا قتل

مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، سپریم کورٹ کا متعصباہ فیصلہ

Published by Nouman Haider

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے ہندو انتہا پسند مودی سرکار کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ فیصلے میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 تک کرانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

درخواست گزاروں نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخی ایکٹ کو چیلنج کیا تھا، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی حکومت نے 4 سال تک اس معاملے کو دانستہ طور پر لٹکائے رکھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، آرٹیکل 370 عارضی اقدام ہے، ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا، بھارتی صدر کے پاس آرڈر دینے کے اختیارات ہیں۔

خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ستمبر میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی جانب سے 2019 میں ختم کی گئی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت مکمل کی تھی۔ بھارتی چیف جسٹس دھننجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں سپریم کورٹ نے حکومتی وکلا، بھارت کے حامی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے آئینی ماہرین اور دیگر فریقین سے 16 سے زائد دنوں تک دلائل سنے تھے۔پانچ اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہو گئی ہے۔

آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آباد کاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ میں 20 سے زائد درخواستیں دائر کر دی گئی تھیں، جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کیے گئے فیصلے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔درخواست گزار نے عدالت میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ آئینی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔بھارت نے کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ماضی میں جنگیں بھی ہوئی ہیں اور 1989 سے ہزاروں افراد بھارت سے آزادی کے لیے جان کی بازی لگا چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے عوام اور ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے 2019 کے بعد میڈیا کی آزادی اور احتجاج پر پابندی عائد کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق پر بدترین پابندیاں نافذ کر دی ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll