جی این این سوشل

پاکستان

عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر یہی الفاظ اور ٹون ایک سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو اپ ایسا ہی جواب جمع کرواتے ؟

پر شائع ہوا

کی طرف سے

عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے  خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر توہین عدالت کا کیس، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت مکمل فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے،

سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر یہی الفاظ اور ٹون ایک سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو اپ ایسا ہی جواب جمع کرواتے ؟ کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟ ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیسز کے بعض حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں، عبوری جواب میں عدالت نے جن دو مقدمات کا حوالہ دیا تھا ان میں اور موجودہ کیس میں فرق واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ہے، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سوچ کر جواب دینے کی ہدایت کی تھی، کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس کیس سے ماتحت عدلیہ کا احترام اور مورال جڑا ہے، ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اسکا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے، ہم سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ انداز کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لئے استعمال کی جا سکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاء تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپکا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں بھی لکھا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا مبینہ تشدد کا لفظ استعمال نہیں کیا ، کیا فیصلے اب جلسوں میں ہونگے یا عدالت میں؟ اگر یہی الفاظ اور ٹون ایک سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو اپ ایسا ہی جواب جمع کرواتے ؟

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں کریمنل نوٹس کا واضح لکھا ہے۔ عدالت میں حامد خان نے ضمنی جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جواب میں جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، آپ بتائیں کہ کیا سپریم کورٹ کے جج کے حوالے سے بھی یہ الفاظ اور ٹون استعمال ہوتی تو اپ یہ جواب دیتے ؟ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے، یہاں فرق ہے سپریم کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کا وہ مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ ہم نے لکھا کہ ہماری وجہ سے اگر خاتون جج کے جزبات مجروح ہوئے تو ہم شرمندہ ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے کوئی احساسات نہیں ہوتے وہ صرف عدلیہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماتحت عدالت کے ججز ہم سے اور سپریم کورٹ کے ججز سے زیادہ اہم ہیں، خاتون جج لاہور جا رہی ہونگی موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔

جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان کی شعیب شاہین کو ہدایت ، عمران نے کہا کہ میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں، حامد خان سے پوچھو میں روسٹرم پر آنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جواز دے کر چاہ رہے ہیں کہ کاروائی اگے بڑھائی جائے یہ رسکی بات ہے، ہم پر تنقید ہوتی رہی ہے تنقید ہورہی ہے ہم نے کبھی توہین عدالت کی کروائی شروع نہیں کی ، ہم آپ کو بار بار کہہ رہے کہ یہاں حالات مختلف ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عمران خان ایک جلسے میں کھڑے ہو کر ایک جج کو دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں خود پر شرم آنی چاہیے۔ بطور لیڈر آپ کے الفاظ کے اثرات ہیں آپ ان اثرات کو جانتے ہوئے بھی جلسوں میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

اگر درخواست گزار کو ان پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آئے تو جلسے میں اس کے خلاف بات کریں گے، اس لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف کیا جلسے میں کہا جائے گا کہ آپ کے خلاف ایکشن لیں گے، آپ کے موکل کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ آپکا جواب صرف ایک جسٹیفیکیشن ہے اور کچھ نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور فتح مکہ سے ہمیں سیکھنا چاہیے، ایک خاتون ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کیس میں پی ٹی ائی کی درخواست پر میڈیکل بورڈ بنایا گیا، میڈیکل ایکسپرٹس کی کسی میڈیکل رپورٹ میں شہباز گل پر تشدد ثابت نہیں ہوا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے، کیا فیصلے اپ پرسیپشنز کی بنیاد پر ہونگے۔ عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شہباز گِل پر تشدد سے متعلق ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس معاملے پر نہ جائیں اس طرف جا کر آپ اپنے کیس کو مزید مشکل بنا دینگے، ہم نے آپکو قائم مقام چیف جسٹس کا آرڈر آپکو پڑھ کر سنایا، وہ کیس اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا۔

حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں لکھا ہے کہ انہیں اسکا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں نہ جائیں اس آرڈر شیٹ میں آپکی پوری لیگل ٹیم کا نام لکھا ہے، سب موجود تھے، ہم نے بہت سی چیزوں کو چھوڑا تھا لیکن آپ خود انکا حوالہ دے رہے ہیں۔

عدالت نے حامد خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل مکمل کریں۔

وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کہتی ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں، عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا انکا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے، وکیل نے موف اپنایا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی، آپ کے ریمارکس سے عدلیہ کے بارے میں عوام کی غلط پرسیپشن بن رہی ہے، جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کون بنا رہا ہے پرسیپشن بتائیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنان کو کبھی سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ کرنے سے روکا ؟ عدلیہ اج سب سے زیادہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے جواب کے پیرا 4 میں لکھا کہ آپ کو علم تھا کہ یہ ایک زیر التواء مقدم ہے، جانتے ہوئے بھی کیا ایسی بات کی جاسکتی تھی، جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہو گی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائیکورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟ طلال اور دانیال عزیر کیس میں عدالت کو اسکینڈلاز کرنے کی کوشش کی گئی تھی پھر بھی سزا ہوئی۔ ان کیسز میں تو ہم نے نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔

ہمیں عدالت یا ججز کو سکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا، نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی، ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کرینگے، بہاں کرمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھر میں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے، اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے فواد چوہدری کے خلاف ایک درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی تھی۔ وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپکو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟ کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم ہائیکورٹ کے باہر لوگ لے آئیں گے، وہ دھمکی دے رہے ہیںں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران خان آئندہ مزید محتاط رہیں گے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو، عمران خان کو اس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا تھا ، شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ آجانا چاہیے تھا، جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی موجود نہیں ہے، میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اُس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں لیکن یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے، عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی اور میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کا اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ اسلم بیگ کیس میں ایک زیر التوا کیس میں سپریم کورٹ کو پیغام بھیجنے پر کارروائی ہوئی اور مجھے لگتا ہے جو بیان دیا گیا وہ جوش خطابت میں غلطی ہو گئی۔ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے ایک یہ کہ معافی پر کارروائی ختم ہوتی ہے اور دوسرا کنڈکٹ پر۔ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا اور اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اسلم بیگ کون تھے؟ چلیں آگے چلیں۔

منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یقین کریں گے کہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ جیسا سلوک ہو گا اور آخری سماعت پر بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے۔ ایک خاتون جج کا نام لیا گیا، شیم کیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں اس کو صاف کیا جائے۔

سماعت کے دوران عدالتی معاون مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کے لیے کافی ہے؟

منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہے عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی کو ختم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حامی ملک میں کیا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بلاک ہونا درست تھا؟ اور ایک رہنما کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اجتماع سے جوش وخطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید جوڈیشل ایڈمنسٹریشن متاثر ہو اور عوامی دلچسپی صرف ایڈمنسٹریشن آف جوڈیشری میں ہے۔ آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔

مخدوم علی خان نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا عدلیہ مخالف تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جلسے میں کسی لیڈر کی کہی بات سے عدالتی کارروائی متاثر نہیں ہوسکتی۔

سماعت سے پہلے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انتظامیہ کوعوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کریں، یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے۔

جبکہ عمران خان نے عدالت جاتے ہوئے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ آج کلبھوشن یادیو عدالت آ رہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہی اتنا خوف کیا ہے، مجھے تو آج آتے آتے بھی پندرہ منٹ لگ گئے، عمران خان نے کہا جیل میں جا کر اور خطرناک ہو جاوں گا۔

سوال کیا گیا کہ کیا آپ غیر مشروط معافی مانگیں گے؟ کہا بعد میں بات کرونگا کہیں کوئی غلط خبر ہی نہ چل جائے ۔

گزشتہ روز عمران خان نے 19 صفحات پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے۔

تحریری جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔

جواب میں  کہا گیا ہے کہ اپنے الفاط پر خاتون جج سے پچھتاوے کا اظہار کرنے پر بھی شرمندگی نہیں ہوگی۔مجھے ضمنی جواب جمع کروانے کا موقع ملا تو پولیٹکل پوائنٹ سکورنگ کرنے والوں نے تنقید کی۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ بشمول ماتحت عدلیہ کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔خاتون ججز کی اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا حمایتی ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ  مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہائیکورٹ میں شہباز گل کیس کی اپیل زیرالتوا ہے۔مجھے لگا کہ ماتحت عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیدیا تو بات وہاں ختم ہو گئی۔شہباز گل پر ٹارچر کی خبر تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آئی۔

عمران خان نے کہا ہے کہ عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا ۔کبھی ایسا بیان دیا نہ مستقبل میں دوں گا جو کسی عدالتی زیر التوامقدمے پر اثر انداز ہو۔ عدلیہ مخالف بدنتیی پر مبنی مہم چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عدالت سے استدعا ہے کہ میری وضاحت کو منظور کیا جائے۔

تفریح

برطانو ی پارلیمنٹ نے مشہور پاکستانی اداکارہ کو ایوارڈسے نواز دیا

معروف اداکارہ ماہرہ خان کو برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز دیا گیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

برطانو ی پارلیمنٹ نے مشہور پاکستانی اداکارہ کو ایوارڈسے نواز دیا

برطانوی پارلیمنٹ نے پاکستان کی نامور ادکارہ اور شوبز اسٹا ر ماہرہ خان کے کو ان کی  ثقافتی اور فلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو اچیومنٹ  ایوارڈ سے نواز دیا۔

ماہرہ خان نےاپنی  انسٹاگرام اسٹوری میں برطانوی پارلیمنٹ کی جانب سے 6 نومبر کو ایوارڈ دیے جانے کی پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اس پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا۔

 
 
 
 
 
View this post on Instagram
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by ShowbizShowsha (@showbizshowsha)

نامور پاکستانی ادکارہ ماہرہ خان کو  شوبز میں 2 دہائیوں سے دی جانے والی خدمات اور عالمی ثقافتی سفیر کے طور پر ان کے کردار کے اعتراف میں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

ماہرہ خان کو ایوارڈ سے نوازے جانے کی تقریب میں پاکستانی ہائی کمشنر سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات نے بھی شرکت کی۔

 اس موقع پرادکارہ ماہرہ خان  کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ وصول کرنا ان کیلئے باعث فخر ہے، ہاؤس آف پارلیمنٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہرہ خان نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں خودمختار بنانا بےحد ضروری ہے جبکہ ہر سطح پر خواتین کی کامیابی کو سراہتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

کے پی حکومت کا آئی جی اسلام آباد سمیت 500 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ

صوبائی کابینہ نے کے پی ہاؤس اسلام آباد پر حملہ آور ہونےاور غیر قانونی طور پر چھاپہ مارنے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کر دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

کے پی حکومت کا  آئی جی اسلام آباد سمیت 500 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ

خیبر پختونخوا کابینہ نے آئی جی اسلام آباد سمیت 500 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

صوبائی کابینہ نے کے پی ہاؤس اسلام آباد پر حملہ آور ہونے، غیر قانونی طور پر چھاپہ مارنے اور احاطے میں گھسنے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کر دی۔

کابینہ کے فیصلے کے مطابق کے پی ہاوس سے چوری و دیگر جرائم کے مرتکب ہونے اور رہائشیوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی آر درج کی جائے، ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی متعلقہ دفعات بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی حکومت نے اسلام آباد کی متعلقہ عدالتوں میں ایسی شکایات درج کروائی تھیں لیکن اس بار مقدمہ خیبر پختونخوا میں درج کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کابینہ نے کے پی ہاؤس اسلام آباد میں پولیس ایکشن کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دی تھی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ٹرمپ  حکومت آنے سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،دفتر خارجہ

پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں، ممتاز زہرا بلوچ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ٹرمپ  حکومت آنے سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،دفتر خارجہ

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت  کے آنے سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے  کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہیں،اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں، 

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف  اور صدر مملکت نے نو منتخب امریکی صدر کو دوسری بار صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے، امریکہ میں نئی حکومت آنے سے دو طرفہ تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ حریت رہنما یاسین ملک کی بھوک ہڑتال پر شدید تشویش ہے، حریت رہنما یاسین ملک کو فوری طور پر صحت کی  سہولتیں فراہم کی جائیں۔

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضےکے حوالے سےپاکستان کامؤقف جانا پہچانا ہے، ہم مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے موقف پر قائم ہیں، بھارت کو سمجھنا چاہیے بہیمانہ حربوں سے کشمیریوں کےجذبات نہیں کچل سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین سکیورٹی صورتحال بات چیت کر رہے ہیں ، وزیر اعظم نے چینی سفارت خانے کو چینی باشندوں کی سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll