جی این این سوشل

دنیا

اسرائیل غزہ کے خلاف سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ ہتھیاراستعمال کر رہا ہے، حماس

امریکی انتظامیہ اور ہر وہ شخص جو دشمن کی حمایت کرتا ہے اس کے قتل عام میں شراکت دار ہے، رہنما اسامہ حمدان

پر شائع ہوا

کی طرف سے

اسرائیل غزہ کے خلاف  سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ ہتھیاراستعمال کر رہا ہے، حماس
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

حماس کے رہنما اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سفید فاسفورس جیسے ممنوعہ ہتھیاراستعمال کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں غزہ میں تین حملے کئے جس میں تقریباً ایک ہزار افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ امریکی انتظامیہ اور ہر وہ شخص جو دشمن کی حمایت کرتا ہے اس کے قتل عام میں شراکت دار ہے۔

اسامہ حمدان نے کہا اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں صحت کے شعبے پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ غزہ میں صحت کی صورتحال تباہ کن ہے۔ وہاں ابھی تک ضروری سامان تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ غزہ کی امداد کے لیے کم از کم روزانہ 300 امدادی ٹرکوں کے داخلے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل جھوٹ بول رہا ہے کہ حماس کے مزاحمتی کارکنوں نے ہسپتالوں میں اپنے لیے مقامات مختص کر رکھے ہیں۔

حماس رہنما کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کے متعلق کسی بھی فیصلے کا تعین فلسطینی عوام کو انتخابات کے ذریعے کرنا چاہیے۔ ہم جنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کے متعلق بات کرنے والے کسی بھی بیان کو قبول نہیں کریں گے۔ موجودہ جنگ آسانی سے نہیں گزرے گی۔ انہوں نے رفح راہداری کو داخلے کے لیے کھولنے میں مصر کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ طبی بحری جہاز غزہ کے ساحلوں پر بھیجے جائیں نہ کہ دیگر ملکوں کے ساحل پر۔

انہوں نے کہا کہ جرمنی کی جانب سے تحریک کی سرگرمیوں پر عائد پابندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم میں شریک ہے۔ غزہ پر نئی حقیقت مسلط کرنے کے لیے مداخلت کی کوششیں یکسر مسترد کی جاتی ہیں۔ فلسطینی عوام ایسی کوششوں کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

جرم

سیالکوٹ میں گاڑی پر فائرنگ سے 7 افراد جاں بحق

ڈی پی او سیالکوٹ کا کہنا ہے کہ   ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل، جلد از جلد گرفتار کر لایا جائے گا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سیالکوٹ میں گاڑی پر فائرنگ سے 7 افراد جاں بحق

سیالکوٹ میں گاڑی پر فائرنگ سے 7 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ قلعہ کالر والا میں دیرینہ دشمنی پرفائرنگ سے 7 افراد کے قتل کردیئے گئے ہیں، پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ دیرنہ دشمنی کا شاخسانہ لگتا ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے  نوٹس لیتے ہوئے   آر پی او گوجرانوالہ سے  رپورٹ طلب کرلی ہے، آئی جی پنجاب نے ڈی پی او سیالکوٹ کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیدیا۔

آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ   سفاک ملزمان کی گرفتاری کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں،  مقتولین کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنائی جائے۔

 ایس پی انوسٹی گیشن،ڈی ایس پی پسرور، ایس ایچ او قلعہ کالر والا اور سی آئی اے کی ٹیمیں موقع پر موجود ہیں، فرانزک ٹیمیں موقع پر موجود،  شواہد اکٹھے کر لئے گئے۔

ڈی پی او سیالکوٹ کا کہنا ہے کہ   ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل، جلد از جلد گرفتار کر لایا جائے گا۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، بیرسٹر گوہر

انٹرا پارٹی الیکشن کیس : الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کیلئے22 ستمبر تک کی مہلت دے دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، پرامید ہیں کہ الیکشن کمیشن اب پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات قبول کر لے گا۔

الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو دستاویزات جمع کرانے کے لیے 22 اکتوبر تک مہلت دے دی۔ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت ہوئی، ممبر کمیشن نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ریکارڈ ایف آئی اے سے حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے، عدالت نے ایف آئی اے سے ہمارا ریکارڈ مانگ لیا ہے، ہم نے ایف آئی اے کو کہا ہے کہ ہمیں ریکارڈ دیں ہم کاپی کرکے انہیں واپس کر دیں گے،

ہم نے ایف آئی اے کو کہا کہ آپ کی گاڑی میں ہمارا ریکارڈ پڑا ہے اسے واپس دے دیں، امید ہے 10 دن تک ہمیں ایف آئی اے سے ریکارڈ مل جائے گا، دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہمیں مزید مہلت دے دیں۔

انہوں نے کہا عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کیا ہوا ہے، امید ہے ہمیں یہ ریکارڈ مل جائے گا اور پھر پیش کریں گے، اگر ریکارڈ مل گیا تو 22 اکتوبر کو یہ کیس یہ منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، سپریم کورٹ نے نواز شریف کو کہا تھا کہ آپ پارٹی سربراہ نہیں رہیں گے تو اراکین آزاد ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دیتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں جبکہ عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔ سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔

بعد ازاں، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll