پاکستان

5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب نتائج بھگتنا ہوں گے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں دستاویزات جمع کرنے کے لیے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی

GNN Web Desk
شائع شدہ 3 ماہ قبل پر ستمبر 18 2024، 11:30 صبح
ویب ڈیسک کے ذریعے
5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب نتائج بھگتنا ہوں گے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انٹرا پارٹی انتخابی کیس کی سماعت کے دوران ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ 5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے ہیں، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے دستاویزات جمع کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت کی استدعا کی کمیشن نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت دواکتوبرتک ملتوی کردی

ممبرسندھ نثار درانی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیس سماعت کی، چییرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے وکیل آج پیش نہیں ہو سکتے، تین ہفتوں کا وقت دے دیں۔

ممبر بلوچستان نے پوچھا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کیا چمکنی میں ہوئے تھے؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ نہیں، انتخابات اسلام آباد میں بھی ہوئے تھے، دستاویزات جمع کروانی کے لیے 10 تک کا وقت دیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے کہا کہ یہ آپ نے اچھا کہا کہ ان شاء اللہ آپ کو ریکارڈ دے دیں گے۔

اس موقع پر ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ ویسے آپ نے الیکشن کہاں کرائے تھے؟ 5 سال کے اندر آپ نے انتخاب نہیں کروائے، 5 سال کے بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

کمیشن نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ اگر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو ہم اب بھی تسلیم نہیں کرتے تو کیا مستقبل ہوگا، جس پر ڈی جی پولیٹیکل فنانس نے کہاکہ پارٹی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں رہے گا۔

ممبر خیبرپختونخوا نے کہا کہ فرض کریں ہم پی ٹی آئی انٹرا پارٹی تسلیم نہیں کرتے؟ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی پر 5سال کی پابندی لگ سکتی ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر ہم کیا کارروائی کرسکتے ہیں۔

جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آپ کو اس معاملے پر بھرپور معاونت فراہم کریں گے تاہم اس معاملے پر الیکشن کمیشن جو کرسکتا تھا اس نے کرلیا۔