جی این این سوشل

پاکستان

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں جبکہ عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔ سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔

بعد ازاں، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

صحت

سندھ میں پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز رپورٹ،مجموعی تعداد 26 تک پہنچ گئی

رواں برس اب تک صوبے میں 7 کیسز سامنے آئے ہیں، قومی ادارہ برائے صحت

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سندھ میں پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز رپورٹ،مجموعی تعداد 26 تک پہنچ گئی

سندھ میں پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے بعد ملک بھر میں کیسز کی مجموعی تعداد 26 تک پہنچ گئی ہے۔

اسلام آباد میں قومی ادارہ برائے صحت میں انسداد پولیو کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری کے ایک حکام نے بتایا کہ کراچی شرقی اور سجاول کے اضلاع میں تازہ ترین کیسز کی تصدیق ہوئی ہے، دونوں اضلاع میں اس سال رپورٹ ہونے والا یہ پہلا کیس ہے، مزید کہا کہ رواں برس اب تک صوبے میں 7 کیسز سامنے آئے ہیں۔

ملک بھر میں پولیو کے 26 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سے 22 بلوچستان اور سندھ سے جبکہ 2 کیسز خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئے، اس کے علاوہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں ایک ایک کیس کی تصدیق ہوئی۔

وزیر اعظم کی فوکل پرسن برائے انسدادِ پولیو عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ یہ دل دہلا دینے والی بات ہے کہ پاکستانی بچوں کو اب بھی ایک ایسی بیماری کا خطرہ لاحق ہے جسے دستیاب پولیو ویکسین کی مدد سے آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے، اگر کوئی بچہ اس کا شکار ہو جائے تو بچہ ساری زندگی کے لیے مفلوج ہو جاتا ہے، بار بار پولیو ویکسینیشن بچوں کو اس خوفناک بیماری کے فالج کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تمام والدین، اساتذہ، بزرگوں اور پڑوسیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں اور تمام بچوں کو فوری طور پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوائیں۔

عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ کہیں بھی کوئی بچہ اس وقت تک محفوظ نہیں ہے جب تک کہ پاکستان میں تمام بچوں کو بار بار پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاتے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

توشہ خانہ ٹو کیس، عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرم جرم کی کارروائی مؤخر

مجھے وکلاء سے مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی، اپنے وکلاء سے مشاورت کی اجازت دی جائے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

توشہ خانہ ٹو کیس، عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرم جرم کی کارروائی مؤخر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کیس میں فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔

اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت سینٹرل جیل اڈیالہ میں کی، دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے وکیل ذوالفقار عباسی نقوی اور عمیر مجید لیگل ٹیم کے ہمراہ پیش ہوئے۔

وکیل انتظار پنجھوتہ نے جج سے استدعا کی ملزمان کی جانب سے وکیل کی تقرری نہ ہو سکی، ہمیں وقت دیا جائے، پہلے مقدمے کی سماعت آئندہ منگل کے بعد تک ملتوی کی جائے تاکہ ملزمان اپنی پیروی کے لیے اچھے وکیل کا تقرر کرسکیں۔

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جج سے کہا کہ مجھے وکلاء سے مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی، اپنے وکلاء سے مشاورت کی اجازت دی جائے۔

پراسیکیوشن نے اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے وکیل کی جانب سے سماعت اگلے منگل تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کی جائے۔

پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت ملزمان کو وکیل مقرر کرنے کے لیے اتنی لمبی تاریخ نہ دے،کل ملزمان سے ملاقات کا دن ہے،کل ہی ملزمان اپنے وکلا سے بیٹھ کر وکیل کا تقرر کر لیں۔

بعد ازاں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 5 اکتوبر تک ملتوی گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، بیرسٹر گوہر

انٹرا پارٹی الیکشن کیس : الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کیلئے22 ستمبر تک کی مہلت دے دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، پرامید ہیں کہ الیکشن کمیشن اب پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات قبول کر لے گا۔

الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو دستاویزات جمع کرانے کے لیے 22 اکتوبر تک مہلت دے دی۔ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت ہوئی، ممبر کمیشن نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ریکارڈ ایف آئی اے سے حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے، عدالت نے ایف آئی اے سے ہمارا ریکارڈ مانگ لیا ہے، ہم نے ایف آئی اے کو کہا ہے کہ ہمیں ریکارڈ دیں ہم کاپی کرکے انہیں واپس کر دیں گے،

ہم نے ایف آئی اے کو کہا کہ آپ کی گاڑی میں ہمارا ریکارڈ پڑا ہے اسے واپس دے دیں، امید ہے 10 دن تک ہمیں ایف آئی اے سے ریکارڈ مل جائے گا، دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہمیں مزید مہلت دے دیں۔

انہوں نے کہا عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کیا ہوا ہے، امید ہے ہمیں یہ ریکارڈ مل جائے گا اور پھر پیش کریں گے، اگر ریکارڈ مل گیا تو 22 اکتوبر کو یہ کیس یہ منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔ وزیر قانون نے میرے ساتھ کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا، سپریم کورٹ نے نواز شریف کو کہا تھا کہ آپ پارٹی سربراہ نہیں رہیں گے تو اراکین آزاد ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دیتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll