جی این این سوشل

پاکستان

واپڈانے تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے کے الیکٹرومکینکل ورکس کے لئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا

اسلام آباد: واپڈا نے 1530 میگاواٹ کے تربیلا پانچویں توسیعی منصوبے کے الیکٹرومکینکل ورکس کا کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا ہے،کنٹریکٹ کی مالیت 24 کروڑ11 لاکھ امریکی ڈالر ہے، منصوبہ 2024ء کے وسط میں بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔

پر شائع ہوا

کی طرف سے

واپڈانے تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے کے  الیکٹرومکینکل ورکس کے لئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا
واپڈانے تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے کے الیکٹرومکینکل ورکس کے لئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا

تفصیلات کے مطابق واپڈانے تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے کے  الیکٹرومکینکل ورکس کے لئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا ہے۔ کنٹریکٹ کی مالیت 24 کروڑ 11  لاکھ  امریکی ڈالر ہے۔ الیکٹرومکینکل ورکس کا یہ کنٹریکٹ ہاربن الیکٹرک انٹرنیشنل کمپنی اور ہاربن الیکٹرک مشینری کمپنی پر مشتمل جوائنٹ ونچر کو  انٹر نیشنل بڈنگ کے بعد دیا گیا ہے۔

معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب آج واپڈا ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ پانچویں توسیعی منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد اعظم جوئیہ نے واپڈا جبکہ ژانگ یو لونگ (Zhang Yu Long)نے جوائنٹ ونچر کی جانب سے معاہدے پر دستخط کئے۔

چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین(ریٹائرڈ)، ممبر فنانس نوید اصغر، ممبر واٹر عبد ا لظاہرخان دُرانی، منیجنگ ڈائریکٹر (ایڈمنسٹریشن) خالد سلیم،سیکریٹر ی واپڈا فخرالزمان علی چیمہ، متعلقہ جنرل منیجرز اور کنسلٹنٹس کے نمائندے بھی تقریب میں موجود تھے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ واپڈا  پراجیکٹ کے سول ورکس کا کنٹریکٹ مئی میں ایوارڈ کرچکاہے۔

معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے کہا کہ کم لاگت اور ماحول دوست پن بجلی کے ذریعے ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے تربیلا کا پانچواں توسیعی منصوبہ واپڈا کا ایک اور اہم پراجیکٹ ہے اور واپڈا اس منصوبے کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

 ملک میں پانی کی صورتحال بہتر بنانے اور نیشنل گرڈ میں سستی پن بجلی میں اضافے کے تناسب میں اضافے کے لئے واپڈا کی حکمتِ عملی کا ذکر کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے کہا کہ ملک میں پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے واپڈا پانی اور پن بجلی کے 10منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ یہ تمام منصوبے 2023سے 2028-29 تک مکمل ہوں گے۔  ان منصوبوں کی تکمیل پر ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت میں 11کروڑ 70لاکھ   ایکڑفٹ اضافہ ہوگا۔ واپڈا کے مذکورہ منصوبوں کی بدولت پن بجلی کی موجودہ پیداوار دوگنا ہو جائے گی اوریہ 9 ہزار406 میگاواٹ سے بڑھ کر 20ہزار 591 میگاواٹ ہو جائے گی۔ اسی طرح نیشنل گرڈ میں واپڈا پن بجلی کی سالانہ اوسط پیداوار37 ارب یونٹ سے بڑھ کر 81ارب یونٹ ہو جائیگی۔

تربیلا کا پانچواں توسیعی منصوبہ تربیلا ڈیم کی ٹنل نمبر 5  پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ منصوبے کا منظور شدہ پی سی۔ ون 80کروڑ 70 لاکھ  امریکی ڈالر پر مشتمل ہے۔ منصوبے کے لئے آئی بی آر ڈی (ورلڈ بنک)  39 کروڑ امریکی ڈالر جبکہ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک 30 کروڑ  امریکی ڈالر مہیا کر رہا ہے۔ منصوبے کی پیداواری صلاحیت ایک ہزار530 میگاواٹ ہے۔ منصوبے کے تین پیداواری یونٹ ہیں، اور ہر یونٹ کی پیداواری صلاحیت 510میگاواٹ ہے۔ منصوبے سے 2024 ء کے وسط میں بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ نیشنل گرڈ کو ہر سال اوسطاً ایک ارب 34 کروڑ 70 لاکھ یونٹ سستی پن بجلی فراہم کرے گا۔ تربیلا کے پانچویں توسیعی منصوبے کی تکمیل پر تربیلا ڈیم سے بجلی پیداکرنے کی صلاحیت 4ہزار 888میگاواٹ سے بڑھ کر 6 ہزار 418  میگاواٹ ہو جائے گی۔

تجارت

سونے کی قیمت میں سینکڑوں روپے اضافہ

صرافہ مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں کمی ہوئی تھی، سونے کی فی تولہ قیمت میں 600 روپے کی کمی ہوئی تھی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سونے کی قیمت میں سینکڑوں  روپے اضافہ

 سونے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا،600روپےکے اضافے سے فی تولہ سونا2لاکھ 75ہز ا ر 500 روپے پرپہنچ گیا ۔


10گرام سونے کی قیمت 515 روپےکے اضافے سے2لاکھ 36 ہزار197روپے ہوگئی،عالمی مارکیٹ میں6ڈالر کے اضافے سےفی اونس سونا 2653ڈالر پرپہنچ گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز  صرافہ مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں کمی ہوئی تھی، سونے کی فی تولہ قیمت میں 600 روپے کی کمی ہوئی تھی۔


  سونا 2 لاکھ 74 ہزار 900 روپے فی تولہ ہوگیا  تھا،10گرام سونے کی قیمت میں 515 روپے کی کمی ہوئی تھی،10 گرام سونا 2 لاکھ 35 ہزار 682 روپے کا ہوگیا تھا، عالمی مارکیٹ میں سونا 6 ڈالر کی کمی سے 2647 ڈالر فی اونس کا ہوگیا  تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں جبکہ عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔ سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔

بعد ازاں، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ملائیشیا کے وزیراعظم انورابراہیم تین روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے

وہ علاقائی اورعالمی امور پر بھی بات چیت کریںگے ، پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تاریخ ،ثقافت اور عقیدے پر مبنی مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ملائیشیا کے وزیراعظم انورابراہیم تین روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے

ملائیشیا کے وزیراعظم انورابراہیم تین روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گے۔

ملائشیا کے رہنما اپنے پاکستانی ہم منصب شہبازشریف کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔انورابراہیم کے ہمراہ وزراء ، نائب وزراء اور اعلی حکام پر مشتمل اعلی سطح کا وفد بھی ہوگا ۔دورے کے دوران وہ وزیراعظم محمد شہبازشریف سے ملاقات کریںگے ۔فریقین تجارت، روابط، توانائی، زراعت، حلال صنعت ، سیاحت ، ثقافتی وفود کے تبادلوں اور عوامی رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں پاک ملائیشیا تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے وسیع ایجنڈے پرتبادلہ خیال کریںگے۔

وہ علاقائی اورعالمی امور پر بھی بات چیت کریںگے ، پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تاریخ ،ثقافت اور عقیدے پر مبنی مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں ۔

یہ دورہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll