Advertisement
پاکستان

جب تک آئین میں کوئی نئی ترمیم نہیں ہوتی، اسی آئین پر عمل کرنا ہوگا ، سپریم کورٹ آئینی بینچ

عدالت کسی سیاسی دباؤ کے بجائے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے فیصلہ کرے گی، جسٹس امین الدین

GNN Web Desk
شائع شدہ 23 days ago پر Oct 8th 2025, 3:52 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
جب تک آئین میں کوئی نئی ترمیم نہیں ہوتی، اسی آئین پر عمل کرنا ہوگا ، سپریم کورٹ آئینی بینچ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں بدھ کے روز 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ چیف جسٹس کے اختیارات، مدتِ ملازمت اور عدالتی خودمختاری میں تبدیلیوں سے متعلق اس ترمیم نے ملکی سیاسی اور قانونی حلقوں میں گہری بحث کو جنم دیا ہے۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، اس اہم آئینی تنازعکی سماعت کر رہا ہے۔

بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ عدالت نے درخواست گزاروں کی استدعا پر سماعت کو براہِ راست نشر (لائیو اسٹریمنگ) کرنے کی اجازت بھی دے دی، تاکہ عوام اس اہم مقدمے کی کارروائی براہِ راست ملاحظہ کر سکیں۔

سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ اور وکلا دونوں آئین پر انحصار کرتے ہیں، اور جب تک آئین میں کوئی نئی ترمیم نہیں ہوتی، اسی آئین پر عمل کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کسی سیاسی دباؤ کے بجائے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے مشاہدہ پیش کیا کہ چاہے 26ویں ترمیم درست ہو یا غلط، عدالت نے تاحال اسے معطل نہیں کیا، اس لیے یہ معاملہ قانونی طور پر عدالت کے سامنے ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ اس وقت عدالت اصل مقدمے پر نہیں بلکہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست پر غور کر رہی ہے، جس کا فیصلہ مقدمے کی آئندہ سمت کا تعین کرے گا۔

26ویں آئینی ترمیم، جو اکتوبر 2024 میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کی گئی تھی، عدالتی اختیارات میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنی۔ اس کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (سوموٹو) کا اختیار ختم کر دیا گیا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کی گئی، اور ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو اختیار دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس کے طور پر نامزد کرے۔

یہ ترمیم نہ صرف عدلیہ کی خودمختاری بلکہ اختیارات کی تقسیم کے بنیادی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کے باعث اسے مختلف وکلا تنظیموں، بار کونسلز اور سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس کے خلاف درخواست گزاروں میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، مختلف بار ایسوسی ایشنز، اور کئی سینئر وکلا شامل ہیں۔

سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل ایڈووکیٹ حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ 26ویں ترمیم کو غیر معمولی طریقے سے متعارف کرایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم رات کے وقت جلدبازی میں پارلیمان سے منظور کی گئی، اور اس وقت سپریم کورٹ میں 17 جج صاحبان موجود تھے، جن میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ معاملہ آئین کے بنیادی خدوخال سے متعلق ہے، اس لیے اس کی سماعت فل کورٹ یعنی سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل بینچ کو کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق اس وقت کے لحاظ سے سولہ رکنی فل کورٹ بن سکتا تھا، اور موجودہ آٹھ رکنی بینچ کے تمام ججز اُس وقت بھی سپریم کورٹ کا حصہ تھے، لہٰذا فل کورٹ ہی اس معاملے کا مناسب فورم ہے۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 26ویں ترمیم نے پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کے اختیار کو ختم کیا، جو عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق، اس ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کی تشکیل میں بھی تبدیلی کی گئی، جس کے بعد ججز کم اور غیر عدالتی ارکان زیادہ ہو گئے، اور ”عدلیہ اقلیت میں چلی گئی“۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ترمیم فی الحال آئین کا حصہ ہے، جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ بلاشبہ یہ آئین کا حصہ ہے مگر اس کی کئی دفعات آئین کی بنیادی روح سے متصادم ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جب تک کوئی ترمیم ختم یا معطل نہیں کی جاتی، عدالت اسی آئین کو بنیاد بنائے گی۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے دو تہائی ارکان نے آزادانہ طور پر ووٹ نہیں دیا، تو عدالت 26ویں ترمیم کو طریقہ کار کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کالعدم قرار دے۔

متبادل طور پر انہوں نے کہا کہ عدالت ان دفعات کو ختم کرے جو عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتی ہیں، جیسے کہ چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ترمیم شدہ آرٹیکل 175A(3)، ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی سے متعلق آرٹیکل 175A(1)، اور آئینی بینچز کی تشکیل سے متعلق دفعات۔

درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ عدالت اعلان کرے کہ اصل آرٹیکل 175A(3) بدستور نافذ العمل ہے اور وفاقی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کو اسی کے مطابق چیف جسٹس مقرر کرے۔ ان کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ (عمل و طریقہ کار) ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد میں ترمیم) ایکٹ 2024 بھی غیر آئینی ہیں، کیونکہ یہ دونوں قوانین 26ویں ترمیم پر مبنی ہیں، جو خود غیر آئینی ہے۔

Advertisement
بلوچستان حکومت میں کوئٹہ میں موبائل انٹرنیٹ ڈیٹا سروس معطل کر دی

بلوچستان حکومت میں کوئٹہ میں موبائل انٹرنیٹ ڈیٹا سروس معطل کر دی

  • 6 hours ago
پاک فوج دفاع وطن کے لیے پرعزم ، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا ، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاک فوج دفاع وطن کے لیے پرعزم ، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا ، ڈی جی آئی ایس پی آر

  • 5 hours ago
سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری، ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد تک اضافے کی منظوری

سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری، ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد تک اضافے کی منظوری

  • 6 hours ago
پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری

پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری

  • 8 hours ago
سعودی  عرب   نے  اہم تبدیلیاں کرتے ہوئے نئی عمرہ پالیسی کا اعلان کر دیا

سعودی عرب نے اہم تبدیلیاں کرتے ہوئے نئی عمرہ پالیسی کا اعلان کر دیا

  • 8 hours ago
نیٹ فلکس کی مقبول سائنس فکشن سیریز ’’اسٹرینجر تھنگز‘‘ کے آخری سیزن کا ٹریلر جاری

نیٹ فلکس کی مقبول سائنس فکشن سیریز ’’اسٹرینجر تھنگز‘‘ کے آخری سیزن کا ٹریلر جاری

  • an hour ago
کینیڈا میں   ایک اور سکھ رہنما کا قتل، بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کا مبینہ نیٹ ورک بے نقاب

کینیڈا میں ایک اور سکھ رہنما کا قتل، بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کا مبینہ نیٹ ورک بے نقاب

  • 4 hours ago
پنجاب میں قبضہ مافیا  کا راج ختم، پراپرٹی آرڈیننس منظور

پنجاب میں قبضہ مافیا کا راج ختم، پراپرٹی آرڈیننس منظور

  • 7 hours ago
خیبر پختونخوا کی نئی کابینہ تشکیل دیدی گئی، گورنر آج حلف لیں گے

خیبر پختونخوا کی نئی کابینہ تشکیل دیدی گئی، گورنر آج حلف لیں گے

  • 8 hours ago
بھارتی ٹی وی کے بے بنیاد پراپیگنڈے کی تردید، اسرائیل کو تسلیم کیا  اور نہ ہی فوجی تعاون زیر غور ہے،پاکستان

بھارتی ٹی وی کے بے بنیاد پراپیگنڈے کی تردید، اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی فوجی تعاون زیر غور ہے،پاکستان

  • 4 hours ago
کاروبای ہفتے کے آخری روز سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ

کاروبای ہفتے کے آخری روز سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ

  • 2 hours ago
جنگ بندی میں افغان طالبان کی جانب سے فتنہ الخوارج کیخلاف کارروائیاں  شامل ہیں،  وزیرا طلاعات

جنگ بندی میں افغان طالبان کی جانب سے فتنہ الخوارج کیخلاف کارروائیاں شامل ہیں، وزیرا طلاعات

  • 7 hours ago
Advertisement