جی این این سوشل

پاکستان

قتل کیس کی قیدی خاتون انتقال کے 7 ماہ بعد بے گناہ قرار

کیس کے فیصلے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ ملزمان پر جرم ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔

پر شائع ہوا

کی طرف سے

قتل کیس کی قیدی خاتون انتقال کے 7 ماہ بعد بے گناہ قرار
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

10 جنوری 2022 کو عدالت نے جرم نہ ثابت ہونے پر صائمہ فرحان نامی خاتون اور اس کے گھر کے دیگر 4 افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا مگر افسوس کے صائمہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 7 مہینے گزر چکے تھے، صائمہ کا انتقال گردے اور پیٹ میں شدید درد کی وجہ سے دوران حراست جیل کے اندر ہوا جہاں وہ تقریباً ڈیڑھ سال تک قید رہی۔

کیس کے فیصلے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ ملزمان پر جرم ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔

یہ واقعہ 24 فروری 2019 کا ہے، جب کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں رخسار نامی خاتون کی اپنے گھر میں طبیعت خراب ہوئی اور دورانِ علاج وہ سول اسپتال کراچی میں انتقال کر گئی. جس کے بعد رخسار کے گھر والوں نے 35 سالہ صائمہ اور اس کے گھروالوں پر قتل کا الزام لگایا۔ صائمہ رخسار کی دوست تھی اور اسے دینی تعیلمات بھی دیتی تھی۔ 

رخسار کی والدہ نے صائمہ اور اس کے گھر والوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے کیلئے پولیس کو درخوست دی مگر ایس ایچ او لیاقت آباد پولیس اسٹیشن اور اس کے بعد ایس ایس پی سینٹرل کی جانب سے درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ 
جس کے بعد 12 ستمبر 2019 کو عدالت کے حکم نامے سے ایف آئی آر درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں رخسار کی والدہ شہناز نے اپنی بیٹی کو قتل کرنے کا الزام لگا کر صائمہ اور اس کے خاندان کے چار دیگر افراد کا نام شامل کروایا جن میں نصرت ناز ۔صائمہ کی بہن، محمد علی اور زاہد علی صائمہ کے بھائی اور اسماء محمد علی  شامل تھے۔

مقدمہ میں سیکشن 302 اور 34 مجموعہ تعزیرات پاکستان کی سنگین دفعات شامل کی گئیں۔

رخسار کی والدہ نے مقدمہ دائر ہونے کے بعد قبر کشائی کی درخواست دی تاکہ پوسٹ مارٹم کے ذریعے موت کی وجہ کا پتہ چلایا جاسکے۔ جس کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم پر مرحومہ کی موت کو 8 ماہ سے زائد کا وقت گزر جانے کے بعد 31 اکتوبر 2019 کو قبر کشائی کی گئی۔ قبر کشائی کے بعد تفتیشی افسر کو لاش کے نمونے دیئے گئے جسے 7 دن کی تاخیر کے بعد فورینزک لیبارٹری میں جمع کروایا گیا، یاد رہے تفتیشی افسر 24 گھنٹے کے اندر نمونے جمع کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ رخسار کی موت زنک فاسفائیڈ نامی زہر کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی کہ پوسٹ مارٹم کی اس رپورٹ سے یہ ہرگز نہیں بتایا جا سکتا کہ رخسار کو زہر کس نے اور کیسے دیا۔ یاد رہے کہ اسی کیس کے ایک گواہ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر مکرم علی نے دورانِ جرح اس بات سے پردہ اٹھایا کہ زنک فاسفائیڈ زہر عام طور پر خودکشی کے لئے استعمال ہوتا ہے.

گرفتاریاں اور ضمانتیں مسترد
حکام کی جانب سے صائمہ، نصرت، اسماء، زائد اور محمد علی کی مختلف تاریخوں میں گرفتاریاں کی گئیں. صائمہ اور اسماء کو 14 فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر کو 18 فروری 2021 کو گرفتار کیا گیا.
یاد رہے ضمانت کی درخواستیں پہلے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (وہ ہی جج جنہوں نے پانچوں ملزمان کو بعد میں رہا کرنے کا حکم دیا) پھر سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مسترد کی گئیں.

6 فروری 2021 کو پانچوں ملزمان کیخلاف ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سیکشن 302 اور 34 کے تحت فردِ جرم عائد کی۔ ٹرائل کے دوران استغاثہ کی جانب سے دس گواہوں کو پیش کیا گیا مگر ان میں سے کوئی بھی قتل کا عینی شاہد نہیں تھا۔ دوران ٹرائل صائمہ کی طبیعت شدید ناساز رہنے لگی اور وہ 14 جون 2021 کو کراچی سینٹرل جیل میں انتقال کرگئی۔ دو سال سے زائد مقدمہ چلنے کے بعد 10 جنوری 2021 کو عدالت نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
صائمہ اور اس کے خاندان کے وکیل محمد اکبر خان اور ان کے ایسوسی ایٹ شیخ ثاقب احمد کے مطابق مقدمے کے دوران صائمہ بار بار اپنی رہائی کے بارے میں پوچھتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کاش ہم صائمہ کو خود بتا سکتے کہ وہ بے قصور ثابت ہوگئی ہے اور اس کی رہائی ہو گئی ہے مگر افسوس کے اب یہ ممکن نہیں۔ 
رہا ہونے والے افراد کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف پولیس کی مدد سے جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا، تاکہ وہ ہماری بہن صائمہ کی جائیداد پر قبضہ کرسکیں مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور جج صاحب نے ہمیں انصاف فراہم کیا۔ ہماری بہن ہماری آنکھوں کے سامنے جیل میں شدید اذیت کے بعد انتقال کر گئی تھی۔ ہم غریب لوگ ہیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟

اس کیس سے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل لسٹ سے نکال کر انہیں علاج کیلئے جیل سے لندن بیجھا جا سکتا ہے، شارخ جتوئی اگر کئی مہینے قتل کا مجرم ہونے کے باوجود پرائیویٹ ہسپتال میں رہ سکتا ہے، تو ایک غریب کیوں جیل میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مرے جبکہ اس پر جرم بھی ثابت نہیں ہوا تھا۔

یاد رہے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لا ء انڈیکس کے مطابق پاکستان کا فوجداری نظام انصاف دنیا میں اس وقت 139 ممالک میں سے 108 ویں نمبر پر ہے جوکہ باعثِ تشویش ہے۔


 

پاکستان

رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ کے والد افضل حسین تارڑ انتقال کرگئے

افضل تارڑ سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رہ چکے ہیں اور ماضی میں دو بار رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ کے والد افضل حسین تارڑ انتقال کرگئے

مسلم لیگ ن کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ کے والد اور سینئر سیاستدان افضل حسین تارڑ حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئے۔

میاں افضل حسین تارڑ کا شمار پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور نواز شریف کے با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ افضل تارڑ سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رہ چکے ہیں اور ماضی میں دو بار رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

وزیراعلی پنجاب مریم نواز اور پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے سینئر سیاستدان افضل تارڑ کی وفات پرگہرے دکھ کا اظہار کیا اور سائرہ افضل تارڑ اور اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور تعزیت کی، مرحوم کی نماز جنازہ آبائی گاؤں کولو تارڑ میں ادا کی جائے گی۔

مریم نواز نے کہا کہ ملک وقوم، پارٹی اور علاقے کے لئے اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ افضل تارڑ صاحب کی کمی پوری نہیں ہوسکے گی۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

خیبر پختونخوا میں تحصیل کونسل کی 6 خالی نشستوں پر پولنگ کا عمل جاری

چیئرمین تحصیل کونسل کی 6 نشستیں استعفوں کی وجہ سے خالی ہوئیں، ترجمان الیکشن کمیشن

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

خیبر پختونخوا میں تحصیل کونسل کی 6 خالی نشستوں پر  پولنگ  کا عمل جاری

خیبر پختونخوا میں تحصیل کونسل کے چیئرمینوں کی 6 خالی نشستوں پر ضمنی بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے۔

ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق چیئرمین تحصیل کونسل کی 6 نشستیں استعفوں کی وجہ سے خالی ہوئیں، تمام تحصیلوں میں پولنگ کا آغاز آج صبح 8 بجے ہوا اور پولنگ شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہے گی۔

ترجمان کے مطابق علی الصبح خواتین بھی اپنے ووٹ کے حق کے استعمال کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہیں، پولنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور ضلعی مانیٹرنگ ٹیمیں متحرک ہیں۔

ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ مرکزی کنٹرول روم سے لوکل گورنمنٹ ضمنی انتخابات کی مانیٹرنگ جاری ہے، پولنگ یا انتخابی عمل کے دوران قانون کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

جسٹس بابر ستار اور ان کی فیملی کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں،اعلامیہ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم بے بنیاد اور اور جھوٹ قرار، اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جسٹس بابر ستار اور ان کی فیملی کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت کردی، عدالت نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے اسکول چلارہی ہیں، جس کے وہ لیگل ایڈوائزر رہے اور فیس وصول کی، جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے، جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستان سکونت اختیار کی، جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت سوشل میڈیا مہم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے، جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار، اُنکی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں، جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لاء کالج اور ہاورڈ لاء کالج سے تعلیم حاصل کی۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی وجہ سے جسٹس بابر ستار کو امریکا کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا، 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll