جی این این سوشل

پاکستان

سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست پر پاکستان کے منتخب ہونے کے امکانات روشن

پاکستان کو 150 تا 160 ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ 5 تا 7 ووٹ کی مخالفت اور کچھ ممالک کی جانب سے ووٹ نہ ڈالنے کی صورتحال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست پر پاکستان کے منتخب ہونے کے امکانات روشن
سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست پر پاکستان کے منتخب ہونے کے امکانات روشن

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیرمستقل نشست پر آجکو ہونے والے انتخابات میں پاکستان کیلئے امکانات روشن ہیں، پاکستان پہلے ہی ایشیائی ممالک کے گروپ سے متفقہ امیدوار کے طورپر حمایت حاصل کرچکا۔

اقوام متحدہ کے ماہر تجزیہ کاروں اور مبصرین کے مطابق کل جب اقوام متحدہ کی 193 رکن پر مشتمل جنرل اسمبلی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشستوں پر 2025ء تا 2027ء کیلئے خالی نشستوں پرانتخاب کریگی تو ایشیائی ممالک کیلئے خالی نشست پر پاکستان کے منتخب ہونے کے امکانات بہت روشن ہیں کیونکہ پاکستان پہلے ہی اس نشست کیلئے ایشیائی ممالک کے گروپ سے متفقہ امیدوار کے طورپر حمایت حاصل کرچکا ہے البتہ سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کے لئے جنرل اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹوں کی دو تہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہے جس کیلئے پاکستان کے سفارتکاروں نے سخت محنت کے ساتھ راہ ہموار کرنے کا کام کیا ہے۔

بعض ذرائع کے مطابق پاکستان کو 150 تا 160 ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ 5 تا 7 ووٹ کی مخالفت اور کچھ ممالک کی جانب سے ووٹ نہ ڈالنے کی صورتحال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستانی سفیر نے غزہ کی صورتحال اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں موقف اور سفارتکاری کیلئے جو رول ادا کیا ہے اس کے باعث بھی بعض با اثر ممالک کی جانب سے اعلانیہ یا ’’خاموش‘‘ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

افغانستان اور وینزویلا بعض تکنیکی وجوہات کے باعث فی الوقت ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں ہیں جبکہ بھارت اور روس کے بعض ہمنوا ممالک کی جانب سے پاکستان کو مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے۔

2024 کے انتخابات کے لیے دستیاب 5 نشستیں، باقاعدہ تقسیم کے تحت، افریقی گروپ، ایشیا پیسیفک گروپ، لاطینی امریکی اور کیریبین گروپ، جب کہ 2 نشستیں مغربی یورپی اور دیگر گروپ (ڈبلیو ای او جی) کو دی جائیں گی، اس سال منتخب ہونے والے 5 نئے اراکین یکم جنوری 2025 کو اپنی نشستیں سنبھالیں گے اور 31 دسمبر 2026 تک کام کریں گے۔

پاکستان

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

63 اے نظرثانی کیس ، بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں جبکہ عدالت نے علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی جبکہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر 63 اے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہو چکے تھے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی، مختصر فیصلہ آ چکا تھا لیکن تفصیلی فیصلے کا انتظار کررہے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِ عامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی 2 سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں۔

علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی؟۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ آفس نے منظور نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، ان کو آئین کی سمجھ بوجھ ہے، ان کو معلوم ہے کیا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے دلائل شروع کریں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کر سکتے تھے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے، عدالت کوئی حکم جاری کر دیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بلایا تھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔

وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین تھا آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست منظور نہیں کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ بیٹھ جائیں اگر آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلا لیتے ہیں جس پر مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، باہر ہمارے 500 وکیل کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس موقع پر مصطفین کاظمی ایڈووکیٹ نے بینچ میں شریک 2 ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، 2 ججز کی شمولیت غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہرنکالنے کا حکم دے دیا اور عدالت میں سول کپڑوں میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے، علی ظفر نے جواب دیا میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سے سن رہے رہے تھے۔ ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر اب شروع ہوجائیں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہے دے۔

علی ظفر نے ایک بار پھر بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، بینچ قانونی نہیں ہے، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں مجھے اپنا دشمن نہ بنائیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ عدالت فیصلہ دے چکی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعت نے اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی، علی ظفر نے کہا کہ دلائل میں کسی نے کیا کہا وہ اہم نہیں، آپ کا فیصلہ اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آپ کی جماعت ایسا قانون بنا دے تو کیا میں کہہ سکتا ہوں مجھے پسند نہیں، یہ ججز کی پسند یا ناپسند کی بات نہیں، قانون معطل تھا، اس کے باوجود میں نے چیف جسٹس بن کر دو سینئر ججز سے مشاورت کی، ہمارے پاس ترمیمی آرڈیننس چیلنج نہیں کیا گیا، ہم اس وقت نظر ثانی کی درخواست سن رہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ میں آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کر رہا، میں کہہ رہا ہوں بینچ کی تشکیل اس قانون کے مطابق نہیں ہوئی، قانون کہتا ہے 3 رکنی کمیٹی بیٹھ کر بینچ بنائے گی، قانون کے مطابق بینچ کثرت رائے سے بنائے جائیں گے، قانون میں کمیٹی کے دو ممبران کے بیٹھ کر بینچ بنانے کی گنجائش نہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی میں نہیں آئے اور خط لکھ دیا، میں وہ خط پڑھنا چاہوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، آپ نے وہ خط پڑھا تو اسکا جواب بھی پڑھنا ہوگا، آپ ججز کو یہاں شرمندہ کرنا چاہتے ہیں، علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی بات کی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منصور نے آپ کا حوالہ بھی دیا جب آپ سینئر جج تھے، آپ بھی ایک عرصے تک چیمبر ورک پر چلے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے اعمال میں شفافیت تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا تھا قانون کو بل کی سطح معطل نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم فل کورٹ میٹنگ بلا کر ایک قانون کو ختم کر سکتے ہیں، میری نظر میں میرے کولیگ نے جو لکھا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں تھا،کل میں میٹنگ میں بیٹھنا چھوڑ دوں تو کیا سپریم کورٹ بند ہو جائے گی۔

علی ظفر نے کہا کہ جسٹس منیب 30 ستمبر کو بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس منیب کی غیر موجودگی میں بینچ کو بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جو 4 رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے، آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟

عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ بینچ قانونی ہے، یہ فیصلہ ہو جائے اس کے بعد ہی میں دلائل دے سکتا ہوں۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے علی ظفر کا اعتراض مسترد کردیا، ججز نے مشاورت کے بعد فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا فیصلہ سنادیں تو ہم نے سنا دیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کے اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ بینچ تشکیل دینے والی کمیٹی کے ممبران بینچ کا حصہ ہیں، وہ خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبران کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا، کیا اب میں نظر ثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر سکتا ہوں، کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہاں مگر مرضی کے بینچ کی عادت ہے مگر وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہوگی۔

علی طفر نے کہا کہ بہت اچھی بات ہے سر، چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات نہ کہیں، پہلے سابقہ کاموں کا کفارہ کریں، اب ہم جو کرتے ہیں بتا دیتے ہیں، سابقہ دور واپس نہیں آنے دیں گے، کیا ہمارے پاس اختیار ہے کہ زبردستی کسی کو پکڑ کر بینچ میں لائیں؟

علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، نظر ثانی اپیل میں فیصلے لکھنے والے جج کی موجودگی لازم ہے، اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، پہلے بیٹھ کر اپنے رولز بنا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سب نظر ثانی کے مقدمات لگا دیئے ہیں، ڈیڑھ بج چکا، آپ نے میرٹ پر ایک بات نہیں کی۔ سادہ سے آئینی سوالات ہیں ان کا جواب دیں، کیا 63 اے فیصلے کی وجہ سے عدم اعتماد سمیت کئی آئینی شقیں غیر فعال ہو گئیں؟

علی ظفر نے جواب میں کہا ٹھیک ہے مگر فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کیس نہیں سن سکتا، فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے وہ جج موجود ہی نہیں، اس ادارے کیلئے کچھ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہیں دے رہے، میرٹ پر دلائل دیں جس پر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ نے فیصلہ کرلیا کہ فیصلہ لکھنے والے جج کو نہیں بٹھانا تو مجھے اپنے موکل سے ملنے دیں۔

سپریم کورٹ نے علی ظفر کی استدعا منظور کرلی، عدالت نے علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کردیئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو علی ظفر کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔

بعد ازاں، آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

مشرق وسطی میں بڑھتی کشیدگی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب

ایران نے حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لیتے ہوئے اسرائیل پر درجنوں بیلسٹک میزائل داغ دیئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

مشرق وسطی میں بڑھتی کشیدگی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب

ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد مشرق وسطی میں بڑھتی کشیدگی پر آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا۔

ایران نے اپنی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے شہید سربراہ اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لیتے ہوئے اسرائیل پر درجنوں بیلسٹک میزائل داغ دیے۔

جس کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران کو خبردار کیا کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اب اسرائیل ان حملوں کا بھرپور جواب دے گا۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب کرلیا گیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کی مذمت اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی فوج کو اسرائیل کے دفاع کی ہدایت کردی، پینٹاگون کے مطابق ابھی تک کسی امریکی فوجی کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاع نہیں ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکا اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار ہے، اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے، ایران کے اسرائیل پر حملے کے بڑے اثرات سامنے آئیں گے۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

اسرائیل نے حملہ کیا تو جواب میں اس کے تمام انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائیں گے، ایرانی آرمی چیف

جوابی حملے میں پوری شدت کے ساتھ میزائلوں کی بوچھاڑ کریں گے، میجر جنرل محمد باقری

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اسرائیل نے حملہ کیا تو جواب میں اس کے تمام انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائیں گے، ایرانی آرمی چیف

ایران کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو جواب میں اس کے تمام انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائیں گے۔

اس عزم کا اظہار ایران کے آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری نے سرکاری ٹی وی پر کہا کہ جوابی حملے میں پوری شدت کے ساتھ میزائلوں کی بوچھاڑ کریں گے۔

ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کہا کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو جواب میں یہودی حکومت کے تمام بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیں گے۔

خیال رہے کہ ایران کے آرمی چیف کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر جوابی حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کو اپنی غلطی کی قیمت چکانا پڑے گی۔

قبل ازیں ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اور اس کے ارد گرد میں 3 فوجی مراکز پر 200 سے زائد میزائل مارے تھے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll