جی این این سوشل

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ
ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پاکستان

عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے اقدامات کرے ، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہاکہ یہ سربراہ اجلاس ایسے موقع پر منعقد ہورہا ہے جب غزہ میں اسرائیلی فوج کے مظالم کے باعث فلسطینیوں کو شدید ترین مصائب کا سامنا ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے اقدامات کرے ، وزیر اعظم

قازخستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایس سی او پلس سربراہ اجلاس میں پاکستان نے عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پرزوردیا ہے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

جمعرات کی سہ پہر سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہم سب کو پوری غزہ کی پٹی میں آزادانہ امدادی اشیاء کی فراہمی اور شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔

وزیراعظم نے کہاکہ یہ سربراہ اجلاس ایسے موقع پر منعقد ہورہا ہے جب غزہ میں اسرائیلی فوج کے مظالم کے باعث فلسطینیوں کو شدید ترین مصائب کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بچوں سمیت سینتیس ہزار سے زائدفلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا اقوام متحدہ تمام دیرینہ مسائل کے پرامن حل کیلئے اپنی قرارادوں پرعملدرآمد یقینی بنائے۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

اسرائیل کے غزہ کے رہائشی علاقوں میں حملے سے مزید 30 فلسطینی شہید

غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 37 ہزار 953 ہوگئی جبکہ 87 ہزار 266 سے زائد زخمی ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اسرائیل کے غزہ کے رہائشی علاقوں میں حملے سے مزید 30 فلسطینی شہید

غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بربریت کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیلی فوج کے غزہ کے رہائشی علاقوں میں حملے سے مزید 30 فلسطینی شہید ہو گئے۔

رپورٹ کے مطابق غزہ کے شہر خان یونس میں ناصر اسپتال کے قریب پانچ منزلہ عمارت پر اسرائیلی حملے میں 7 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

صہیونی فورسز کی خان یونس میں ایک اور حملے میں 12 فلسطینی لقمہ اجل بنے۔

واضح رہے کہ غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 37 ہزار 953 ہوگئی جبکہ 87 ہزار 266 سے زائد زخمی ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

درآمدات اور برآمدات  میں بڑھتا ہوا فرق کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت افسران کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹریڈ اینڈڈویلپمنٹ اسلام آباد کے ڈائریکٹرقذافی رند نے کہا کہ کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت آفسران کی کامن ٹریننگ پروگرام کے بعد مختلف شعبوں کیلئے سپشلائزڈ ٹریننگ پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

درآمدات اور برآمدات  میں بڑھتا ہوا فرق کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت افسران کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے


درآمدات اور برآمدات  میں بڑھتا ہوا فرق کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت آفسران کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

فیصل آباد:درآمدات اور برآمدات  میں بڑھتا ہوا فرق کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت آفسران کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے جس پر قابو پانے کیلئے انہیں ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے سٹیک ہولڈر زسے قریبی رابطوں اور مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات میاں فرخ اقبال چیئرمین پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن(نارتھ زون) نے زیر تربیت کامر س اینڈ ٹریڈ آفسروں کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے ایسوسی ایشن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن گارمنٹس بنانے والے یونٹس کی ملکی سطح پر واحد نمائندہ تنظیم ہے۔ ہمارے چارآفسز ہیں ہیڈ آفس کراچی کے علاوہ ریجنل آفس لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں واقع ہے۔2000سے زائد ممبران پر مشتمل ہوزری سیکٹر تقریبا پانچ لاکھ خاندانوں کو روزگار مہیا کرتا ہے سب سے زیادہ نوکریاں مہیا کرنے والا ادارہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ پی ایچ ایم اے کے ممبران گارمنٹس کی برآمدات سے تقریبا 4.4 بلین ڈالر کا زر مبادلہ  کماتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل میں کمی کی بنیادی وجہ سٹیک ہولڈرز اور پالیسی میکرز کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑھانا چاہئے تاکہ ملک کیلئے قیمتی زر مبادلہ کمایا جاسکے کیونکہ جو ممالک معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ نہ صرف اندرونی طور پر خوشحال بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹریڈ اینڈڈویلپمنٹ اسلام آباد کے ڈائریکٹرقذافی رند نے کہا کہ کامرس اینڈ ٹریڈ کے زیر تربیت آفسران کی کامن ٹریننگ پروگرام کے بعد مختلف شعبوں کیلئے سپشلائزڈ ٹریننگ پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان زیرتربیت افسران کے یہاں دوروں کا مقصد اصل سٹیک ہولڈرز سے قریبی رابطوں کو بڑھانا ہے تاکہ وہ اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے قابل عمل اور بزنس فرینڈلی فیصلے کر سکیں۔
محمد امجد خواجہ سابق چیئرمین پی ایم ایچ اے نے کہا کہ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہے کیونکہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے ساتھ ساتھ حکومت نے بجٹ میں مزید ٹیکسز کا بوجھ بھی ڈال دیا ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے کچھ نمائندے بزنس کمیونٹی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے حالانکہ ہماراسیکٹر قیمتی ذرمبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ  لوگوں کو روزگاربھی مہیا کررہا ہے۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll