جی این این سوشل

پاکستان

بیلسٹک میزائل پروگرام: امریکی پابندیاں متعصبانہ اور سیاسی طور پر محرک ہیں، دفتر خارجہ

پاکستان نے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چینی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کو ’جانبدارانہ اور سیاسی مقاصد پر مبنی‘ قرار دے دیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

بیلسٹک میزائل پروگرام: امریکی پابندیاں متعصبانہ اور سیاسی طور پر محرک ہیں، دفتر خارجہ
بیلسٹک میزائل پروگرام: امریکی پابندیاں متعصبانہ اور سیاسی طور پر محرک ہیں، دفتر خارجہ

اسلام آباد : پاکستان نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چینی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کو ’جانبدارانہ اور سیاسی مقاصد پر مبنی‘ قرار دے دیااور واشنگٹن کے ’دوہرے معیار‘ پر کڑی تنقید کی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک چینی کمپنیوں پر عائد کی گئی امریکی پابندیاں متعصبانہ اور سیاسی طور پر محرک ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ماضی میں بھی کمپنیوں پر محض شک کی بنیاد پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی اپنے دوست ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرتے۔اس طرح کے دوہرے معیارات اور امتیازی طرز عمل عالمی عدم پھیلاؤ کی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں، فوجی عدم توازن میں اضافہ کرتے ہیں، اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے مبینہ طور پر آلات فراہم کرنے کے الزام میں ایک چینی تحقیقی ادارے اور متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

دوسری جانب پاکستان اور چین نے ہتھیاروں کے کنٹرول اور عدم پھیلاؤ پر دو طرفہ مشاورت کا نواں دور منعقد کیا۔ اس اجلاس میں دونوں ممالک نے عالمی اور علاقائی سلامتی، سائبر سکیورٹی اور مصنوعی ذہانت جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر بات چیت کی۔

سفیر طاہر اندرابی، دفتر خارجہ میں آرمز کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے ڈائریکٹر جنرل اور چینی وزارت خارجہ میں آرمز کنٹرول کے ڈائریکٹر جنرل سن شیاؤبو نے وفد کی سطح کے مذاکرات کی قیادت کی۔

دنیا

جموں کشمیر انتخابات میں بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا جھوٹا پروپیگینڈہ بے نقاب

انڈین میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے بھارت جنتا پارٹی جموں کشمیر کو فتح کرنا چاہتی ہے یہ کو ئی جمہوری طریقہ نہیں ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جموں  کشمیر انتخابات میں بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی )  کا جھوٹا پروپیگینڈہ بے نقاب

بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی )  کے صدر مملکت روندر رینا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں جموں کشمیر میں اکثریت ملنے جا رہی ہے ۔ 

انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں کسی بھی سیاسی اورجمہوری پارٹی بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی )  کے ذمہ دار عہدے پر فائز صدر مملکت روندر رینا نے اور پارٹی کے بڑے عہدے داروں نے جموں و کشمیر میں پہلے سے ہی وزارتیں بھی تقسیم کر رکھی ہیں ۔ 

ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر میں الیکشن فقط ایک دکھاوے کیلئے کروائے جا رہے ہیں تا کہ عالمی میڈیا اور باقی تمام مما لک کی نظر میں بھارت کا اچھا تاثر جائے ۔ 

انڈین میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے بھارت جنتا پارٹی جموں کشمیر کو فتح کرنا چاہتی ہے یہ کو ئی جمہوری طریقہ نہیں ہے ۔ 

ان کا کہنا تھا بھارت جنتا پارٹی نے پہلے کی جموں کے عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے تھے اور اب پھر انتخابات کی آڑ میں آ کر جھوٹے وعدے اور اس طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ اس بار پھر بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی جانب سے کہا گیا کہ ہم جموں کے عوام کیلئے ہندو سی ایم لائیں گے جبکہ جمہوریت میں کسی صورت بھی ہندو ، سکھ ، عیسائی ، مسلم پارسی کا کوئی تصور نہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ جس کو بھی جموں میں اکثریت حاصل ہو خواہ وہ سکھ ہو عیسائی ہو ہندو ہو جو بھی ہو وہی لیڈر آف دا ہاؤس ہونا چاہیے ۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی جانب سے الیکشن کے رزلٹس سے پہلے ہی کہا جا رہا ہے کہ ان کے آزاد امید واران سے رابطے ہیں وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے یہ جموں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں جبکہ انتخابات کا رزلٹ  8 اکتوبر کو دیا جائے گا ۔ 

انہوں نے کہا کہ بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا مقصد صرف جموں کے عوام کو مذہب کے نام پر دھرم کے نام پر ذات پات کے نام پر بیوقوف بنانا ہے ، انہوں نے کہا کہ سی ایم کے بننے کیلئے ایک جمہوری عمل ضروری ہے بھارت جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کو چاہیے کہ ایسے ہتھکنڈے آزمانے کے بجائے جہموری عمل پر یقین رکھے ۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد

بھارتی حکومت نے ووٹروں اور اپوزیشن کے امیدواروں کو ڈرانے کے لیے خطے میں اپنی 10 لاکھ فورس تعینات کیے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد

سری نگر: جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہئے، مسئلہ کشمیر کا واحد قابل قبول حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر کو 5 نشستیں الاٹ کی گئی ہیں، 3 مہاجروں کے لیے اور 2 پنڈتوں کے لیے جس سے ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے لیے جوڑ توڑ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ چیف منسٹر کے اختیارات میں کمی کردی گئی ہے۔

بھارتی حکومت نے ووٹروں اور اپوزیشن کے امیدواروں کو ڈرانے کے لیے خطے میں اپنی 10 لاکھ فورس تعینات کیے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی الیکشن میں منظم دھندلی کی تیاری عروج پر ہے، لیفٹیننٹ گورنر کو پولیس، پبلک آرڈر، آل انڈیا ایس وی سی اور ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق مزید اختیارات دے دیے گئے۔

حریت رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائےجانے کےبعد اب این آئی اے کے ذریعہ گرفتار دیگر افراد پر مقدمہ چل رہا ہے جن میں آسیہ اندرابی بھی شامل ہیں، 5 اگست 2019 سے نئی پارٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مرکزی دھارے کی جماعتوں اور مسلم اکثریت کو کمزور کیا جا سکے۔

 حد بندی کےتحت  کلیدی نتائج میں جموں کو 6 اضافی نشستیں اور کشمیر کو 1 مختص کردیاگیاہے. 

مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار اسرائیلی ماڈل کی پیروی کر رہا ہے جس میں مجموعی ایچ آر وی اور مسلم اکثریت علاقوں کو مسلم اقلیت میں تبدیل کررہی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مرکزی حریت قیادت یا تو نظربند ہے یا پھر انہیں این اے، ایس آئی اے، ای ڈی اور عدالتوں کے ذریعے مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ الیکشن میں بی جے پی کے حمایت یافتہ افراد کی فتح کو یقینی بنایا جائے۔

بھارتی حکومت نے ووٹروں اور اپوزیشن کے امیدواروں کو ڈرانے کے لیے خطے میں اپنی 10 لاکھ فورس بھی تعینات کی ہے۔تقریر اور اسمبلی کی آزادی کو محدود کیا اور انتخابی عمل کو اپنے پراکسیوں کے حق میں جھکا دیا ہے۔

مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے لیے ڈومیسائل کے اجراء کے ذریعے وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کررہی ہے،ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں غیر متناسب اضافہ کیا گیا۔ہندو اکثریت ظاہر کرنے کے لیے 22 حلقوں کو جیری مینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں الیکشن لڑنے والے 908 امیدواروں میں سے 40 فیصد سے زیادہ (360) آزاد امیدوار ہیں۔ ان آزاد امیدوار وں کو بی جے پی اور ایس ایف نے مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے کے غرض سے اپنے قریب رکھا ہوا ہے جبکہ اے پی ایچ سی پر پابندی ہے اور تقریباً 48 رہنما غیر قانونی حراست میں ہیں۔

نئی حد بندی کےتحت کلیدی نتائج میں جموں کو 6 اضافی نشستیں اور کشمیر کو ایک مختص کی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے گھٹن زدہ ماحول میں انتخابات، جمہوری عمل کی صداقت پر شکوک پیدا کرتے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ فوج کی موجودگی، انتخابی عمل سے زیادہ فوجی مشق کا تاثر دے رہی ہیں جس سے جموں و کشمیر میں پر امن حالات کا تاثر دینے کی کوشش کی نفی ہوتی ہے، مقبوضہ کشمیر میں آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، ہندوستانی حکومت 13 سال گزرنے کے بعد بھی تازہ مردم شماری نہیں کر سکی۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی اجازت نہیں دیں گے، محسن نقوی

پاکستان تحریک انصاف کی ڈی چوک میں احتجاج کی خواہش پوری نہیں ہو گی، وفاقی وزیر داخلہ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اسلام آباد پر دھاوا بولنے  کی اجازت نہیں دیں گے، محسن نقوی

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ جس طرح سے احتجاج ہورہا ہے ایسے اجازت نہیں دی جائے گی، پاکستان تحریک انصاف کی ڈی چوک میں احتجاج کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔

ڈی چوک اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ہم نے کل بھی درخواست کی تھی یہ احتجاج کرنے کا موقع نہیں ہے، جس طرح سے احتجاج ہورہا ہے ایسے اجازت نہیں دی جائے گی، باہر سے آئے مہمانوں کو یہ بتانا ہے کہ وہ ایک محفوظ ملک میں ہیں۔ ہماری پولیس، سکیورٹی اور ضلعی انتظامیہ پورا کام کرے گی، آئی جی سے لے کر ہر پولیس والا الرٹ ہے، ساری صورتحال آپ کے سامنے ہے، جو لوگ احتجاج کا سوچ رہے ہیں ان کو ایک بار ملک کے بارے ضرور سوچنا چاہیے، پی ٹی آئی والوں کی جو خواہش ہے وہ پوری نہیں ہونی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہمارے کسی بندے کے پاس اسلحہ نہیں ہے، اگر کہیں سے فائر ہوگا تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا، آپ ویڈیوز میں دیکھ رہے ہیں کہ جو وہاں سے لوگ آرہے ہیں ان کے پاس اسلحہ ہے، ہماری حکمت عملی کیا ہے یہ ابھی نہیں بتانی، پہلے ان کو ہماری حدود میں آنے دیں پھر بتاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پہلے پاکستانی ہیں اس کے بعد کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، علی امین گنڈا پور کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے توقع کرتا ہوں وہ پہلے پاکستان کا سوچیں پھر کسی اور کا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پورا صوبہ ہے جس مرضی شہر میں احتجاج کرلیں، اسلام آباد پر دھاوا بولا جارہا ہے اس کی اجازت نہیں دیں گے، اگر وہ اجازت سے آرہے ہوتے تو جو آئینی پروٹوکول ہوتا وہ دیتے، ہمیں باہر سے آئے مہمانوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اس وقت تک 63 افغانی پکڑے ہیں، افغانستان کے لوگ گزشتہ احتجاج میں بھی پکڑے تھے، اندازہ ہے راستوں کی بندش سے شہریوں کو مسائل ہورہے ہیں اس کیلئے معذرت خواہ ہیں، ہم یقینی بنارہے ہیں کہ ہسپتال جانے والے راستے کلیئر رکھیں، پریشانی ضرور ہے مگر پھر بھی ہم راستوں کو کلیئر رکھنے کو یقینی بنارہے ہیں۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll