جی این این سوشل

پاکستان

پی ٹی آئی کارکنان کی ٹول پلازہ میں سرکاری سامان چوری کی ویڈیو منظر عام پر آگئی

ویڈیو میں کارکنان کو ٹول پلازہ پر دھاوا بولتے اور قیمتی سامان لے جاتے دیکھا جاسکتا ہے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پی ٹی آئی کارکنان کی  ٹول پلازہ میں سرکاری سامان چوری  کی ویڈیو منظر عام پر آگئی
پی ٹی آئی کارکنان کی ٹول پلازہ میں سرکاری سامان چوری کی ویڈیو منظر عام پر آگئی

پی ٹی آئی کارکنان کی سنگجانی ٹول پلازہ میں سرکاری سامان چوری کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی، ویڈیو میں کارکنان کو ٹول پلازہ پر دھاوا بولتے اور قیمتی سامان لے جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔

جاری ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان نے سنگجانی ٹول پلازہ پر حملہ کیا ، سرکاری کمپیوٹرز اور دیگر قیمتی سامان ساتھ لے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے پرتشدد کارکنان کے حملوں سے کئی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، مظاہرین کی جانب سے پولیس کی گاڑی بھی جلا دی گئی۔

پرتشدد کارروائیوں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی متعدد ویڈیوزمنظرعام پر آچکی ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے شرپسند عناصر کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

پولیس کے مطابق شرپسندوں کے حملوں سے ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ 70 شدید زخمی ہو چکے ہیں، پرتشدد مظاہرین کو ہر حال میں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

 

پاکستان

جسٹس جمال مندو خیل کی تلورشکار سے متعلق کیس کی سماعت سے معذرت

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان ہائیکورٹ میں تلور شکار کے خلاف کیس سن چکا ہوں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جسٹس جمال مندو خیل کی تلورشکار سے متعلق کیس کی سماعت سے معذرت

سپریم کورٹ کا تلور کے شکار کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے تلور کے شکار کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی، کیس کی سماعت جسٹس امین الدین نے کی  سربراہی میں ہوئی۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان ہائیکورٹ میں تلور شکار کے خلاف کیس سن چکا ہوں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ تلور کےشکار کا تصور مارخور کے آفیشل شکار کی طرح ہے، مارخور کے شکار کو ٹرافی ہنٹنگ کا نام دیا گیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے  کہا کہ تلور کے شکار اور آئیبیکس ٹرافی ہنٹنگ میں فرق ہے، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ تلور تو ہجرت کرنے والے پرندے ہوتے ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

علاقائی

حکومت پنجاب کی صوبہ بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں 28 نومبر تک توسیع

صوبے میں 3 دن کے لیے ہر قسم کے احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، محکمہ داخلہ پنجاب

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

حکومت پنجاب کی صوبہ بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں 28 نومبر تک توسیع

حکومت پنجاب نے سکیورٹی خطرات کے پیش نظر صوبہ بھر میں دفعہ 144 کے نفاذ میں 28 نومبر تک توسیع کر دی۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق صوبے میں 3 دن کے لیے ہر قسم کے احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق منگل 26 نومبر سے جمعرات 28 نومبر تک دفعہ 144 کے نفاذ میں توسیع کی گئی ہے، توسیع کا فیصلہ امن و امان کے قیام، انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کوئی بھی عوامی جلوس دہشت گردوں کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کی سفارش پر گزشتہ 3 دنوں سے پنجاب میں دفعہ 144 نافذ ہے۔اس سے قبل 18 نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی، جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی۔

بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے، جو اسلام آباد میں 26 نمبر چونگی پہنچ چکا ہے، جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس افسران کے خلاف شرانگیز مہم

ریاستی اداروں کی خاموشی اور اس خطرے کے خلاف کوئی واضح کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

پی ٹی آئی  کی سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس افسران کے خلاف شرانگیز مہم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے بہادر پولیس آفیسرز کی تصاویر کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنے کا معاملہ شدید بحث کا موضوع بن چکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ہتک عزت کی مہم تھریڈز، ایکس، انسٹاگرام، فیس بک اور واٹس ایپ پر چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس  میں، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، آئی جی اسلام آباد علی رضا رضوی، سی سی پی او لاہور بلال صدیق کامیانہ اور ڈی آئی جی لیاقت ملک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس عمل کے ذریعے پی ٹی آئی نے نہ صرف پولیس آفیسرز کو خطرے میں ڈالا بلکہ ان کی فیملیز کے لیے بھی تشویش کا باعث بن گیا۔ اس میں ریاستی اداروں کی خاموشی اور اس خطرے کے خلاف کوئی واضح کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی اس کارروائی کو بعض حلقے انتہاپسند اور دہشت گردوں کے حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ حکومت اور ریاستی اداروں سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس خطرناک صورتحال کے خلاف کیوں نہیں اقدامات کر رہے۔

اس صورتحال میں، سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل دہشت گردی اور شرپسندی کے پھیلاؤ کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت زور پکڑ رہی ہے۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ ایسے عناصر، جو ریاستی اداروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، کے خلاف آخر کب اور کس طرح موثر کارروائی کی جائے گی؟

پاکستان کے اندر اس وقت ایک بہت بڑی تشویش پھیل چکی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی اس طرح کی اشتعال انگیز سرگرمیاں ریاست کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہیں اور اس کا فوری تدارک ضروری ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll