سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس:یہ آئینی بینچ ہے کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہو گا، جج آئینی بینچ
کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل


اسلام آباد:اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کہا ہے کہ یہ آئینی بینچ ہے کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہو گا۔ کوئی ایسا فورم ہے جو 175 کے تحت نہ بنا ہو اور وہ سویلین کا ٹرائل کر سکے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف جسٹس امین الدین کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب الجواب کے دلائل دیئے، جس پرجسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جواب الجواب مختصر ہوتے ہیں۔ جو پوائنٹس پہلے کور نہیں کر سکے اس پر معاونت کریں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ مخالف وکلا نے فیصلے پر دلائل نہیں دیئے۔ اور بنیادی طور پر 4 پوائنٹس ہیں جو مخالف وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ عدالتیں آرٹیکل 175 کے تحت بنیں، بتائیں کیا یہ عدالت بھی اس کے تحت بنیں، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے؛ کوئی ایسا فورم ہے جو 175کے تحت نہ بنا ہو اور وہ سویلین کا ٹرائل کر سکتے ہوں،جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلے پر دلائل دے دیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ تمام پوائنٹس پر جواب دوں گا۔ اور ابھی آرٹیکل 161 پر دلائل مکمل کر لوں گا۔ تمام پوائنٹس پر تحریری جوابات بھی موجود ہیں،جسٹس امین الدین نے کہا کہ دوسری طرف کے وکلا نے کہا انٹرا کورٹ اپیل کا دائرہ محدود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ آئینی بینچ ہے کوئی ہائی کورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہو گا۔
وزارت دفاع کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ آئینی بینچ تو اپیل میں کیس واپس بھی بھیج سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم مرکزی فیصلے سے اتفاق بھی کر لیں تو اپنی رائے الگ سے دے سکتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا ایف بی علی کیس میں آرٹیکل 6 کی شق تین کے تحت بنیادی حقوق کی بات نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 6 کی شق تین میں بنیادی حقوق مستثنیٰ کر دیئے گئے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 6 کی شق تین میں نہیں آتا اگر آتا ہوتا تو بنیادی حقوق ملتے۔ اور اگر بنیادی حقوق متاثر ہوتے تو 6 کی شق ون میں آتا۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ وہ کسی مخصوص ٹرم کے لیے کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث کے مطابق یہ آرڈیننس اس مقصد کے لیے نہیں بنائے گئے تھے جس کا ذکر آرٹیکل 6 کی ذیلی شق 3 میں ہے،جسٹس محمد علی مظہر کا موقف تھا کہ شروع میں سپریم کورٹ میں بینچ 9 رکنی تشکیل دیا گیا تھا، جو بعد میں کم ہوتے ہوتے 5 رکنی رہ گیا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ 5 رکنی بینچ سے بڑا بینچ ہوتا تو ایف بی علی کیس کو دیکھ سکتے تھے۔
خواجہ حارث کے مطابق دوسری طرف کے وکلا نے کہا کہ جو ایف بی علی کیس میں کہا گیا اور جو اب کہا جارہا ہے اس میں فرق نہیں، حالانکہ فرق واضح ہے جو ایف بی علی کیس میں درج ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ان کے خیال میں ایف بی علی کیس کو نہیں سمجھا جاسکا۔
جس پر خواجہ حارث بولے؛ ہم کیسے اس معاملے کو سمجھ سکتے ہیں جب باقاعدہ وجوہات درج نہیں، اس کیس میں آئینی قانونی سوالات کا مکمل جائزہ بھی نہیں لیا گیا،خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جو فیصلہ چیلنج ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ آئین میں آرٹیکل 8(5) بھی موجود ہے، کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 8(5) کو آرٹیکل 8(3) پر فوقیت دی جائے گی، کہا گیا کہ ایف بی علی کیس کے وقت 1973 کا آئین موجود نہیں تھا۔
خواجہ حارث کے مطابق کہا گیا کہ اب چونکہ 1973 کا آئین آچکا، اسے ایف بی علی کیس پر فوقیت دی جائے گی، اس لیے ایک جج صاحب نے اکثریتی فیصلے کے اس حصے سے اتفاق نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ تو خصوصی طور پر افواج پاکستان کے اراکین کے لیے ہے، خواجہ حارث نے بتایا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 8(3) میں درج ہے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی کے لیے ہے۔
خواجہ حارث کا موقف تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں انسداد دہشتگری کا گوئی جرم نہیں تھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کسی فوجی اہلکار کے کام میں رخنہ ڈالنے کا جرم انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتا ہے، 9 مئی واقعات میں دوسرا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8(3) کے تحت یقینی ہے کہ افواج اپنے فرائض کو درست طریقے سے ادا کر سکیں، یہ یقینی بنانا مقننہ کی زمہ داری ہے، مقننہ کے آرمی ایکٹ کو صرف افواج تک محدود نہیں رکھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں بنیادی حقوق کا سوال تو آیا ہے، جس پر خواجہ حارث کا موقف تھا کہ ایف بی علی کیس چیلنج اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہورہے ہیں۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب الجواب میں دلائل جاری رکھیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما اعجاز چوہدری کی طبیعت بگڑنے پرجیل سے اسپتال منتقل کردیا
- ایک گھنٹہ قبل

پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی سے متعلق مذاکرات جاری ہیں، امریکا
- 6 گھنٹے قبل

ملکی قرضوں میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے، تاہم ادائیگیوں کے ساتھ صورتحال بہتر ہو جائے گی، وزیر خزانہ
- 3 گھنٹے قبل

بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی، چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کا کیس سننے سے انکار
- 4 گھنٹے قبل

عدالتی احکامات کے باوجود اعظم سواتی کو بیرون ملک روانگی سے روک دیا گیا
- 3 گھنٹے قبل

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کا رجحان بر قرار، نئی حد عبور کرنے کے قریب
- 4 گھنٹے قبل
سندھ حکومت کاسروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین مفت فراہم کرنے کا اعلان
- 5 گھنٹے قبل
بھارت کی جانب سےدریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے کا خدشہ
- 5 گھنٹے قبل

پاکستان امریکا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم، انٹیلیجنس شیئرنگ تیز کرنے کا فیصلہ
- ایک گھنٹہ قبل

بھارت امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں مسلسل ہٹ دھرمی دکھا رہا ہے، امریکی وزیر خزانہ
- 6 گھنٹے قبل

آئی سی سی نے ون ڈے بیٹرز کی نئی رینکنگ جاری کردی
- 2 گھنٹے قبل
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو آذربائیجان کے اعلیٰ ترین پیٹریاٹک وار میڈل سے نوازا گیا
- 38 منٹ قبل