Advertisement
پاکستان

پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیا ن رابطہ متوقع

پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عامرریاض کہتے ہیں کہ یہ عہدہ زمینی سطح پر امن یا جنگ میں کسی بھی صورتحال کو ممکن بنانے کے لیے حتمی کردار ادا کرتا ہے۔

GNN Web Desk
شائع شدہ 6 hours ago پر May 12th 2025, 4:21 pm
ویب ڈیسک کے ذریعے
پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیا ن  رابطہ متوقع

 


پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے مابین ہاٹ لائن پر ہونے والی گفتگو پر ہیں اور امریکہ سے لےکر چین تک اسی سے متعلق سوالات  گردش کر رہے ہیں  کہ کیا یہ بات چیت خطے میں پائیدار امن کو ممکن بنا سکے گی۔


اس کے ساتھ یہ بھی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پائیدار امن کے لیےدونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کا کردار کتنا ہے اور رابطہ ہونے پر وہ کس حد تک فیصلہ سازی کر سکتے ہیں۔

پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عامرریاض کہتے ہیں کہ یہ عہدہ زمینی سطح پر امن یا جنگ میں کسی بھی صورتحال کو ممکن بنانے کے لیے حتمی کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی بات چیت کے بعد وہ سیز فائر کو ممکن بنا سکتے ہیں اور کسی بھی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ایکشن لے سکتے ہیں یا حالات خراب ہونے کی صورت میں اپنی فوجوں کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ ڈی جی ایم اوز کے مابین جب بھی بات ہوتی ہےوہ چیزوں کو درست سمت میں لانے کے لیے ہوتی ہے۔


ہمارےہاں ہر ہفتے ڈی جی ایم اوز کا رابطہ ہوتا ہے۔وہ پیشہ ورانہ گفتگو کرتے ہیں اور آپریشنل تعاون میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دورکرنے پر بات کرتے ہیں۔ وہ باہمی گفتگو سےامن برقرار رکھ سکتے ہیں۔

 

تاہم لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عامر ریاض کا کہنا تھا مستقل امن کےلیے دونوں ممالک کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز اور اس کے بعد اعلٰی ترین حکومتی شخصیات میں بات چیت ضروری ہے۔

 

پاکستانی فوج کے ایک اور سابق سینیئر آفیسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے مطابق دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز 1971 کے بعد سے ہاٹ لائن پر اس وقت بات کرتے ہیں جب کشمیر میں کنٹرول لائن پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رابطہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

اعجاز اعوان نے مزید بتایا کہ پیر کے روز دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کی گفتگو کے ممکنہ موضوعات سیز فائر میں توسیع، افغانستان میں کابل اور قندھار میں قونصلیٹ سے دہشت گردی کی کارروائیاں اور دیگر سکیورٹی معاملات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر یہ ہاٹ لائن کنٹرول لائن پر سیزفائر کے لیے ہی کام کرتی رہی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دور میں اس کو زیادہ موثر بنانے کے لیے انڈین فوجی قیادت کے ساتھ سیز فائر اور اس ہاٹ لائن رابطے کی ازسر نو تجدید کی تھی۔

 

خالد نعیم لودھی نے کہا کہ اس سلسلے میں کمیونیکیشن بہتر بنانے پر بات چیت بھی گفتگو کا حصہ ہے تاہم مکمل اور پائیدار سیز فائر کا مقصد آہستہ آہستہ حاصل ہو گا۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی نے کہا کہ آج کی گفتگو میں سیزفائر کو مستقل بنانے، مسئلہ کشمیردریائے سندھ کے پانی اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کے ذریعے بلواسطہ انڈین حملوں پر بات چیت اہم ہے۔‘

 

خالد نعیم لودھی نے ایک سوال کےجواب میں بتایا کہ معمول میں بھی یہ دونوں افسران آپریشنل معاملات آپس میں طے کرتے ہیں تاہم ان کی گفتگو کا ایک پہلو یہ ہےکہ پاکستانی ڈی جی ایم او کے پاس کسی بھی فیصلے کے لیے وسیع اختیارات ہوتے ہیں جبکہ انڈین ڈی جی ایم او کے پاس مینڈیٹ محدود ہوتا ہے۔’آج ہونے والی بات چیت کے لیے یقیناً دونوں نے اپنے اپنے چیفس سے مینڈیٹ لیا ہے۔

Advertisement