پاکستان اس وقت شدید معاشی اور انسانی بحران سے گزر رہا ہے، جہاں حالیہ مون سون بارشوں اور بھارت کی جانب سے ڈیموں کا پانی چھوڑنے کے باعث پیدا ہونے والے سیلاب نے صرف دیہی علاقوں کو ہی نہیں، بلکہ صنعتی مراکز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اس تباہی نے نہ صرف لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ حکومتی اندازوں کے مطابق زرعی اور صنعتی بحالی کی بنیاد پر 2026 تک جی ڈی پی میں 4.2 فیصد ترقی کی امید کی جا رہی تھی، لیکن حالیہ سیلاب نے ان توقعات کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
پنجاب اور سندھ کے بڑے علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں، جہاں کپاس، مکئی، دھان اور سبزیوں کی فصلیں بڑی حد تک تباہ ہو چکی ہیں۔ زراعت سے جڑا صنعتی شعبہ، خصوصاً ٹیکسٹائل اور چاول کی برآمدات، اس بحران سے شدید متاثر ہوئے ہیں، جبکہ خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
کئی ماہرین معاشیات اور سابق وزراء نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ تباہی 2022 کے سیلاب سے بھی زیادہ نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کم از کم 7 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
مرکزی بینک اور حکومت کی جانب سے اگرچہ امید دلائی جا رہی ہے کہ یہ جھٹکا وقتی ہوگا، لیکن زمینی حقائق، خاص طور پر کسانوں اور صنعتی مراکز کی حالت، ایک بڑے اور دیرپا بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے فوری اور مؤثر تعاون نہ ملا تو پاکستان کو خوراک، برآمدات اور مجموعی معیشت کے محاذ پر ایک شدید چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔























