نوازشریف کا ووٹ بینک اور پیٹرول
پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی لانگ مار چ ڈنڈے سوٹوں سے ڈر کر دھرنے میں منتقل ہونے میں ناکام رہا ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور عمل کار فرما ہے لیکن ایک بات ہے کہ اس لانگ مارچ نے عمران خان کے بیانئے کو زک ضرور پہنچائی ہے،
کیونکہ لانگ مارچ کی کامیابی و ناکامی پر ہی حکومت کی مدت کا انحصار موجود تھا اور لانگ مارچ کی جزوی ناکامی نے حکومت کی سانسیں ضرور بحال کی ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ کے زیر اثر پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا چاہ رہی تھی لیکن عمران خان کی سیاسی تحریک اور پھر اسلام آباد پر یلغار نے حکومت کو گو مگو کی کیفیت میں ڈال رکھا تھا۔اگر عمران خان کے ساتھ ان کے دعوؤں کے مطابق بیس لاکھ نہ سہی ایک دو لاکھ بندے ہی اسلام آباد میں موجود ہوتے تو شاید اب تک حالات کچھ اور ہوتے اور حکومت کیلئے بھی پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا ممکن نہ رہتا لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کو جس طرح حکومت نے ناکام بنانے کیلئے پنجاب پولیس کو میدان عمل میں اتار ااس نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو خوف زدہ کر دیا اور عمران خان جو توقع کر رہے تھے کہ ادھر کے پی کے سے میں لاکھوں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہو جاؤں گا اور پنجاب کا عوامی سمندر بھی ان کے ساتھ ہو گا تو حکومت کیلئے الیکشن کی تاریخ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا لیکن ان کی یہ خواہش بادی النظر میں پوری نہ ہوئی جس کی وجہ سے انہیں اپنا پلان چھ دن کیلئے موخرکرنا پڑا۔ خان صاحب نے پشاور میں پریس کانفرس کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وزیر داخلہ نے جس طرح بزور بازو ان کے لانگ مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی تو تحریک انصاف کی ویسی تیاری نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ مقاصد حاصل نہ کر سکے لیکن اگلی بار وہ تیاری کر کے آئیں گے(ویسے خان صاحب نے حکومت سے نکلتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ ان کی حکومت کرنے کی تیاری نہیں تھی اس لئے ساڑھے تین سال وہ سسٹم کو سمجھنے میں ہی لگے رہے اور اپوزیشن نے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا)۔اب شہباز شریف حکومت نے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق پیٹرول اور ڈیز ل کی قیمتوں کو یکمشت تیس روپے بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پیٹرول 180روپے لیٹر پر پہنچ چکا ہے۔
موجودہ حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ایک تو تیل کی قیمتیں بڑھانا تھا اور دوسرا بجٹ پیش کرنا ہے جس کیلئے اگر آئی ایم سے امداد نہ ملی تو معاشی حالات مزید بگڑ جائیں گے کیوں کہ دوست ممالک نے بھی فی الحال پاکستان کے ساتھ کوئی ایسے وعدے نہیں کئے کہ شہباز شریف حکومت خوشی کے شادیانے بجائے۔ایک بات تو طے ہے کہ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کا اثر غریب عوام پر سب سے زیادہ پڑے گا کیوں کہ پاکستان میں ہر وہ چیز جس کا پیٹرول سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد ان کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں۔کچھ ماہ قبل تک تحریک انصاف کے دیوانے پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر عوام کو عالمی دنیا میں موجود قیمتوں کا تقابل کر کے پاکستان میں ملنے والے تیل کو دنیا کا سب سے سستا تیل ثابت کرتے تھے لیکن اب یہ ڈیوٹی مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں سے وابستہ اراکین نے سنبھال لی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو معاہدے کے تحت گزشتہ حکومت کے ادوار میں تین ارب ڈالر ادا کر دیئے ہیں اور باقی کے مزید تین ارب ڈالر اس نے پاکستان کی جانب سے معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے پر روک رکھے ہیں۔ باقی کے تین ارب ڈالر رواں برس ستمبر تک ادا ہونے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں چاہے وہ آئی ایم ایف ہو یا کوئی دوست ملک تو کوئی بھی ڈوبتے ہوئے جہاز پر پاؤں نہیں رکھتا جیسے کہ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آئی ایم ایف کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پیٹرول تیس روپے یا پچاس روپے یکمشت مہنگا ہونے سے پاکستان کی عوام پر کیا اثر پڑے گا یا بجلی کے یونٹ کی قیمت بڑھنے سے غریب آدمی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ سادہ سا اصول ہے کہ آئی ایم ایف بھی محلے کے ساہو کار کی طرح اپنا پیسا سود سمیت واپس لانے کیلئے کڑی شرائط رکھ رہا ہے۔کیوں کہ کئی دوست ممالک نے بھی پاکستان کو آئی ایف ایم سے ملنے والی قرض کی قسط سے امداد کو مشروط کر رکھا ہے تا کہ وہ دیکھیں کہ عالمی ساہو کار ادارہ اگر اعتبار کر رہا ہے اور پاکستان کو اربوں ڈالر دینے پر رضا مند ہے تو وہ بھی اپنی جیبیں ہلکی کریں گے وگرنہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ معذرت کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ اب پیٹرول کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور مزید تیس روپے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق بڑھنی ہیں تو یکبارگی ہی بڑھا دیں یہ تڑپا تڑپا کر مارنے والی صورتحال سے عوام کو نکالیں اور اس کے ساتھ اشرافیہ کو بھی اپنے اللے تللے ختم کرنے ہوں گے یہ بیورو کریسی، ملٹری کریسی، اراکین پارلیمنٹ، وزیر مشیر، سابق بیورو کریٹس اور اس کے علاوہ جو اشرافیہ نے فری پیٹرول کے ”کھانچے“ لگا رکھے ہیں وہ بھی بند کرنے ہوں گے اگر یہ سب نہ کئے گئے تو ن لیگ کیلئے پنجاب میں انتخابی میدان میں اترنا اور بڑی محنت سے نوازشریف کی جانب سے بنایا گیا ووٹ بینک برقرار رکھنا پھر دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔
نوٹ :یہ تحریر لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے ، ادارہ کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔