جی این این سوشل

دنیا

یمن کے حوثی گروپ کا بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملوں کا دعویٰ

بحیرہ احمر میں 2 اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے

پر شائع ہوا

کی طرف سے

یمن کے حوثی گروپ کا بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملوں کا دعویٰ
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

یمن کے حوثی گروپ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

اتوار کو امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بیان جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہاز اور دیگر تجارتی  بحری جہازوں پر حملے ہوئے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو بحیرہ احمر میں ایک امریکی جنگی بحری جہاز اور متعدد تجارتی بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا، جو اسرائیل اور حماس کی جنگ سے منسلک مشرق وسطیٰ میں سمندری حملوں میں ممکنہ طور پر ایک بڑے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

پینٹاگون کے بیان کہا گیا کہ بحیرہ احمر میں ہوئےحملوں سے آگاہ ہیں مزید تفصیلات آنے پر شیئر کریں گے۔

بعد ازاں یمن کے حوثی گروپ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بحیرہ احمر میں 2 اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔

دنیا

بنگلہ دیش نےملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا

ریاست کی خودمختاری اور عدم مداخلت کا اصول بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہے اور اسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا، بنگلہ دیشی خارجہ سیکریٹری

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

بنگلہ دیش نےملک کے  اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا

بنگلہ دیش نے ملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا۔

بنگلہ دیش نے بھارتی خارجہ سیکریٹری کے حالیہ تبصروں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ بنگلا دیش کے خارجہ سیکریٹری محمد جاشم الدین نے اس حوالے سے ایک واضح بیان میں کہا کہ ان کی ریاست کی خودمختاری اور عدم مداخلت کا اصول بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہے اور اسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا۔
 
بھارتی خارجہ سیکریٹری کے ثقافتی، مذہبی اور سفارتی املاک پر تبصرے کو سفارتی لحاظ سے حساس سمجھا جا رہا ہے اور اسے بنگلہ دیش کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے،تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تبصرے ہندو اقلیتوں اور بھارتی سفارتی مشنز کے مسائل کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں تنازع کی ایک وجہ ہیں۔

بنگلا دیش نے واضح کیا کہ اس کی ریاست کا سیکولر تشخص اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کا عزم غیر متزلزل ہے۔ بھارتی بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے، بنگلا دیش نے اس بات پر زور دیا کہ بیرونی تبصرے ان کے داخلی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہیں۔
 
بنگلا دیش میں عوامی لیگ کی بھارت نواز پالیسیوں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جن کے تحت بھارت کو پانی کے معاہدوں، تجارت، اور سکیورٹی معاملات میں بے جا رعایتیں دی گئیں۔ باہمی تجارت کے حوالے سے بھی بنگلا دیش نے بھارت کی غیر متوازن پالیسیوں پر اعتراض اٹھایا ہے، جہاں بھارتی برآمدات کو ترجیح دی جاتی ہے اور بنگلہ دیشی اشیا پر غیر ضروری رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔
 
بھارتی بارڈر فورس (بی ایس ایف) کے ہاتھوں بنگلا دیشی شہریوں کے قتل ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ڈھاکہ میں عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی نے اس رویے کو دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کی کمی کا سبب قرار دیا ہے۔

بھارت کی تفریحی صنعت اور میڈیا کی بنگلادیش میں موجودگی کو بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقامی ثقافت پر پڑنے والے اثرات کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے، بھارت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سافٹ پاور کے ذریعے بنگلا دیش میں اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 
بھارت کی جانب سے ٹیستہ پانی کے معاہدے میں تاخیر بنگلا دیش کے لیے ایک تکلیف دہ مسئلہ بن چکا ہے۔ بنگلا دیشی عوام اور حکومت اس معاملے کو بھارت کی عدم دلچسپی اور دوطرفہ تعلقات کے دعووں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
 
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی حکام کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات اگر احتیاط سے نہ نمٹائے گئے تو یہ سفارتی تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتے ہیں۔ بنگلادیش نے واضح پیغام دیا ہے کہ خود مختاری اور داخلی امور میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔
 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

 قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی خلاف ورزی، قانونی فریم ورک اور جوابات میں تضادات

این اے او کی دفعات کرپشن اور بدعنوانی کو جرم قرار دیتی ہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

 قومی احتساب آرڈیننس  1999 کی خلاف ورزی، قانونی فریم ورک اور جوابات میں تضادات

 قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کی خلاف ورزی ،این اے او کی دفعات کرپشن اور بدعنوانی کو جرم قرار دیتی ہیں۔

ایک ’’ٹرسٹ‘‘ (القادر یونیورسٹی ٹرسٹ) کے تحت زمین، فنڈز یا کسی مالی فائدے کو بغیر شفاف دستاویزات اور قانونی تقاضوں کی پیروی کے قبول کرنا اختیار کے غلط استعمال اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ملزم کا یہ دعویٰ کہ کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا گیا اس وقت متضاد ہے جب قیمتی زمین اور کثیر رقم کی منتقلی سرکاری آڈٹ یا مالیاتی نگرانی کے بغیر ہوئی۔

2. رولز آف بزنس، 1973 کی خلاف ورزی:
ملزم نے کابینہ کے اجلاس میں"اضافی ایجنڈا آئٹم" پیش کرنے کو معمول کی بات قرار دیا اور کہا کہ یہ رولز آف بزنس کے مطابق تھا لیکن رولز آف بزنس کے مطابق کابینہ کے اراکین کو ایجنڈا آئٹمز پہلے سے فراہم کرنا لازمی ہے۔ اس اصول کی خلاف ورزی کے لیے کوئی غیر معمولی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ اتنے اہم مالی معاملے پر رازداری اور بحث کے بغیر فیصلے نے طریقہ کار کی شفافیت پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

3. مفادات کا تصادم اور عوامی عہدے کا غلط استعمال:
آئین پاکستان  کے مطابق عوامی عہدے رکھنے والے افراد ایمانداری اور اعتماد کے اصولوں کے پابند ہیں۔ ملزم کے ذاتی ساتھیوں (جیسے ملک ریاض) سے منسلک لین دین کی منظوری اور یو کے سے فنڈز کی منتقلی میں شفافیت کی کمی ان اصولوں کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرتی ہے۔

4. قانون شہادت آرڈر، 1984:
ملزم نے اہم شواہد، بشمول رازداری کے معاہدے، کی قبولیت کو چیلنج کیا اور اسے جعلسازی قرار دیا۔ لیکن قانون شہادت کے مطابق، دستاویزی شواہد کی آزاد ماہرین سے تصدیق ضروری ہے۔ اس حوالے سے متبادل فرانزک تجزیہ نہ کروانا ملزم کے دعوے کو کمزور کرتا ہے۔

5. کابینہ کے اراکین کا کردار اور جوابدہی:
ملزم نے ذمہ داری کابینہ کے اراکین پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اضافی ایجنڈا متفقہ طور پر منظور ہوا لیکن اجتماعی ذمہ داری کے ضوابط کے تحت وزیراعظم کابینہ کے فیصلوں کے لیے حتمی طور پر جوابدہ ہوتے ہیں۔

6. القادر ٹرسٹ بطور ’’شام ادارہ‘‘:
اس ٹرسٹ کا قیام اور عمل عوامی مفاد یا شفافیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگرچہ اسکالرشپس فراہم کرنے کے دعوے کیے گئے ہیں، پیش کردہ مالی ریکارڈ ٹرسٹ قوانین  کے تحت ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔

اہم دعوؤں کے مخصوص جوابی نکات دعویٰ:
190 ملین پاؤنڈ ایک پرائیویٹ سیٹلمنٹ تھی اور ریاست پاکستان سے متعلق نہیں تھی،

جوابی دلیل: یہ رقم یو کے میں مشتبہ کرپشن کی وجہ سے منجمد اثاثوں سے آئی تھی۔ ان کی واپسی میں ریاست کی شمولیت اور جوابدہی لازمی تھی۔ فنڈز کی منتقلی میں وزارت خزانہ یا وزارت قانون سے مشورہ نہ کرنا این اے او اور رولز آف بزنس کی خلاف ورزی ہے۔

دعویٰ: زمین یا فنڈز سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہیں ہوا:
جوابی دلیل: ٹرسٹ کے بانی کے طور پر، ملزم نے اہم کنٹرول برقرار رکھا۔ اثاثوں کی منتقلی بغیر مقابلہ بولی یا آزاد آڈٹ کے بالواسطہ ذاتی فائدے کے زمرے میں آتی ہے، جو این اے او  دفعات کی خلاف ورزی ہے۔

دعویٰ: استغاثہ نے اہم شواہد، بشمول نیشنل کرائم ایجنسی کے دستاویزات کو روکے رکھا:
جوابی دلیل: ملزم کی قانونی ٹیم ان دستاویزات کو عدالتی ذرائع، جیسے باہمی قانونی معاونت، کے ذریعے حاصل کر سکتی تھی۔ ایسا نہ کرنا استغاثہ کی بدنیتی کے بجائے دفاع کی عدم فعالیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دعویٰ: استغاثہ کے مقدمے میں طریقہ کار کی کوتاہیاں، بشمول غیر تصدیق شدہ دستاویزات:

جوابی دلیل: اگرچہ کچھ دستاویزات طریقہ کار کی تصدیق سے محروم ہیں، لیکن شواہد، جیسے زمین کے انتقالات، بینک لین دین، اور گواہوں کے بیانات، مالی بے ضابطگیوں کا ایک تسلسل ظاہر کرتے ہیں جو ملزم سے جڑے ہیں۔

استغاثہ کے لیے سفارشات:
فرانزک تجزیہ اور ماہر گواہوں کی شمولیت، متنازعہ دستاویزات کی فرانزک تصدیق کروائیں اور بین الاقوامی مالی جرائم کے ماہرین کو شامل کریں تاکہ فنڈز کے بہاؤ اور اثاثوں کی منتقلی کی تصدیق ہو سکے، دوسران کہ  اعتماد کی خلاف ورزی پر توجہ مرکوز کریں اور واضح کریں کہ عوامی عہدے دار کے طور پر ملزم کے اقدامات نے ریاست کے بہترین مفاد کے خلاف اعتماد کی خلاف ورزی کی۔

شفافیت اور جوابدہی کی خلاف ورزی:
 سرکاری آڈٹس کی کمی، کلیدی وزارتوں سے مشاورت کی عدم موجودگی، اور رازداری کی شقوں کو جان بوجھ کر پوشیدگی کے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے استعمال کریں۔

یہ جوابی بیانیہ اور قانونی حکمت عملی پاکستانی قانون کے تحت طریقہ کار کی کوتاہیوں، مالی بے ضابطگیوں، اور اعتماد کی خلاف ورزی کو ظاہر کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

حکومت کی پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں، ملاقاتوں اور مذاکرات کی تردید

ی ٹی آئی کو پہلے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی وضاخت دینی ہو گی، وفاقی وزیر اطلاعات

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

حکومت کی پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں، ملاقاتوں اور مذاکرات کی تردید

وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ رابطوں، ملاقاتوں اور مذاکرات کی تردید کردی ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی اسد قیصر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے،  پی ٹی آئی رہنماؤں نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت کی تھی جسے لوگوں نے دوسرا رنگ دے دیا، اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ باضابطہ مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔

عطا تارڑ نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کو پہلے اس بات کی وضاحت دینی ہو گی کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے پیچھے کون تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی باتوں کا کون اعتبار کرے گا؟ ان کا ماضی وعدہ خلافی سے بھرا پڑا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی انہوں نے عین آخری لمحے میں اپنا موقف تبدیل کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل میڈیا میں خبریں آئیں کہ وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی تناؤ ختم ہو رہا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی رہائش گاہ پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی حکومت کے اہم نمائندوں سے ملاقات ہوئی، عطا تارڑ نے ایسی ملاقاتوں کو باضابطہ مذاکرات ماننے سے انکار کیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll