جی این این سوشل

پاکستان

سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری غیر قانونی قرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ کمیشن کی رپورٹ بھی کالعدم قرار  دے دی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری غیر قانونی قرار
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی  نے محفوظ فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ کمیشن کی رپورٹ بھی کالعدم قرار  دے دی۔

عدالت نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور محکمہ داخلہ پنجاب کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ شیریں مزاری کو 21 مئی 2022 کو اینٹی کرپشن پنجاب نے گرفتار کیا تھا۔

دنیا

سعودی عرب میں کرپشن کے الزام میں آٹھ سرکاری اداروں کے 155 ملازمین معطل

انسداد بدعنوانی کے ادارے نے وزارت داخلہ، صحت، تعلیم، مقامی اور دیہی امور اور ہاؤسنگ میں 382 ملزمان سے کرپشن کے الزامات کی تفتیش کی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سعودی عرب میں  کرپشن کے الزام میں آٹھ سرکاری اداروں کے 155 ملازمین معطل

سعودی عرب میں انسداد بدعنوانی کے ادارے ’نزاھہ‘ نے  جون 2024ء میں متعدد فوجداری اور انتظامی مقدمات کی چھان بین شروع کی، جس کے نتیجے میں وزارت داخلہ، صحت، تعلیم، مقامی اور دیہی امور اور ہاؤسنگ میں 382 ملزمان سے کرپشن کے الزامات کی تفتیش کی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دوران تفتیش تجارت، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس سروسز کی وزارتوں کے ساتھ ساتھ وزارت ثقافت، زکوٰۃ، ٹیکس اور کسٹمز اتھارٹی کے تعاون سے بدعنوانی کے متعدد جرائم جیسے رشوت، دفتری طاقت کا غلط استعمال، جعلسازی، اور منی لانڈرنگ میں ملوث 155 سرکاری ملازمین کو معطل کیا گیا۔ ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جس کے بعد کچھ ملزمان کو ضمانت پر رہا کیاگیا ہے۔

’نزاہہ‘ نے وضاحت کی کہ وہ سرکاری اداروں اور نجی اداروں پر اپنی نگرانی کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ کسی ایسے شخص کی نگرانی اور کنٹرول کیا جا سکے جو عوامی فنڈز کی خلاف ورزی کا مرتکب یا اپنے ذاتی فائدے کے حصول یا عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔

ادارہ انسداد بدعنوانی کا کہنا ہے کہ کسی بھی مالی یا ادارہ جاتی بدعنوانی کی اطلاع ادارے کے ٹول فری نمبر 980 پردی جاسکتی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

ایک جماعت کو انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے آئین کی سنگین خلاف ورزی کی، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ میں معاملے کی سماعت جاری ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس ریکارڈ آگیا ہے، 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، وکیل مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزادامیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہوگی، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایاگیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصوراعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، تین پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 256 نشستوں پر نافذ ہوا، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے مزید کہا کہ 2018 میں 60 خواتین، 10 غیر مسلم سیٹیں مخصوص تھیں، اٹارنی جنرل نے 2018 میں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے بتایا، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے 2002 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے، 2002 میں قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کا تعین کیا گیا، اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین، اقلیتیوں کی نمائندگی دینا ہے، آزادامیدوار اگر سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو انہیں پارٹی کا حصہ تصور کیاجائےگا، سیاسی جماعت جتنے مخصوص نشستوں کے لیے نام دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل منصوراعوان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ

ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری انھیں نااہل قرار دینے کے لیے تھی،یو این انسانی حقوق ورکنگ گروپ

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ انسانی حقوق ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کی حراست کا فیصلہ من مانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری انھیں نااہل قرار دینے کے لیے تھی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے گروپ کی یہ رائے سابق وزیر ذلفی بخاری کی لاء فرم کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف اقوام متحدہ میں دائر پٹیشن پر سامنے آئی۔

یواین ورکنگ گروپ نے عمران خان کو دفاع کا حق فراہم نہ کیے جانے پر تشویش ک اظہار کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

ورکنگ گروپ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پٹیشن پر پاکستانی حکومت کا مؤقف جاننے کی کوششوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll