جی این این سوشل

جرم

گیلامن پشتین کے قتل کی ممکنہ وجوہات سامنے آگئیں

ان سب اختلافات کو لے کر نعیم وزیر عرف گیلامن اور آزاد داوڑ کی ایک دوسرے کے ساتھ  بارہا تلخ کلامی بھی ہوئی تھی

پر شائع ہوا

کی طرف سے

گیلامن پشتین کے قتل کی ممکنہ وجوہات سامنے آگئیں
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور معروف شاعر حضرت نعیم عرف گیلامن وزیر جو 11 جولائی کو 72 گھنٹے کومہ میں رہنے کے بعد دم توڑ گئے تھے۔ جس نے بھی قتل کروایا  وہ سب کو معلوم ہے لیکن قتل کیوں کیا گیا ؟وہ منظور پشتین ہی تھا جس نے نعیم وزیر عرف گیلامن پشتین سے  نفرت انگیز تقریر کروائی اور انقلاب کی تحریک کو ہوا دی۔ کچھ دن بعد منظور پشستین پھر سٹیج پر کھڑا ہوکر افسوس کا اظہار کرے گا اور بات ختم ہوجائے گئ ۔
سب پشتونوں  کی نسل کشی اور قتل میں اس منظور پشستین کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا ٹی ٹی پی کا ہے ۔
منظور پشتین اب کچھ دن بعد گیلامن وزیر کے بعد کسی اور کو قربانی کا بکرا بنا دے گا اور انقلاب کی ہوا بھر دے گا اور مارا جائے گا۔
منظور پشتین کو اصل میں لاش نہیں ملتی تھی جس پر وہ اپنا مری  ہوئی تحریک پھر زندہ کرے اور معصوم پختونوں کو گمراہ کرے، کیونکہ کئی بار منظور پشتین اور پی ٹی ایم نے لاشوں کو اپنے گھناؤنے کھیل کے لیے استعمال کیا ہے، ایک بار پھر (نعیم وزیر عرف گیلامن پشتین) کی لاش کو لے کر فوجی جنریلوں  اور ریاست کے خلاف پختونوں کو اکسائے گا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ گیلامن کا قاتل ایک پختون اور اسی تحریک کا حصہ تھا، پھر اس میں فوجیوں کو کیوں قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے؟
 گیلامن پشتین کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ذاتی مفاد کو لے کر منظور پشتین اور محسن داوڑ کے دو گروپ بن گئے ہیں، اوردونوں میں کافی اختلافات چل رہے ہیں۔

ان سب اختلافات کو لے کر نعیم وزیر عرف گیلامن اور آزاد داوڑ کی ایک دوسرے کے ساتھ  بارہا تلخ کلامی بھی ہوئی تھی، حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزاد داوڑ نے دوستوں کے ساتھ ملکر گیلامن کو قتل کیا، لیکن اب پی ٹی ایم آزاد داوڑ کے بجائے جنریلوں کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی ایم کو کسی کی پرواہ نہیں بلکہ وہ لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، منظور پشتین ایک بار پھر ایکٹو ہو گیا ہے اب پھر سے معصوم پختونوں کو فوج اور ریاست کے خلاف اکسائے گا، لیکن ہمیشہ کی طرح پختون قوم منظور ٹولے کو مسترد کریں گے ۔

پاکستان

حکومت کا اتحادی بننا ہر پارٹی کی مجبوری ہے ، گورنر پنجاب

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان   نے کہا  پی ڈی ایم کی حکومت کا 18ماہ کا دور پیپلزپارٹی کے لیے بہت بھیانک خواب تھا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

حکومت کا اتحادی بننا ہر پارٹی کی مجبوری ہے ، گورنر پنجاب

گورنر پنجاب  سردار سلیم حید ر  خان کا کہنا ہے  حکومت کا اتحادی ہونا پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے  ، ن لیگ سے پیپلز پارٹی کو آج تک ایک چائے کی پیالی اور بسکٹ کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔  

 تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے صحافیوں کی غیر رسمی ملاقات  کی ،جس  میں اہم معاملات پر اظہار خیال کیا  گیا ۔ 

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان   نے کہا  پی ڈی ایم کی حکومت کا 18ماہ کا دور پیپلزپارٹی کے لیے بہت بھیانک خواب تھا، حکومت کا اتحادی ہونا پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے، ن لیگ سے پیپلز پارٹی کو آج تک ایک چائے کی پیالی اور بسکٹ کے سوا کچھ نہیں ملا، پیپلز پارٹی نے ملک کے لئے قربانی دی ہے اور ن لیگ کے ساتھ حکومت کا حصہ بنے ہیں ، ن لیگ کا اتحادی بن کر پیپلز پارٹی کو نقصان ہی ہوا ہے۔  

 آئی پی پیز قوم پر ظلم ہے اس میں اتنی کرپشن ہے کہ کمپیوٹر کے ڈیجٹ بھی کم پڑ سکتے ہیں، حکومت نے پیپلز پارٹی کے ساتھ جو تحریری وعدے کیے ان کو  پورا نہیں کیا گیا،  حکومت کے ساتھ دو بار تحریری معاہدہ ہو چکا ہے لیکن ن لیگ اس پر عملدرآمد کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے، قوم مہنگائی کے بوجھ سے پس رہی ہے آئی پی پیز قوم پر ظلم ہے، بنگلہ دیش اور افغانستان میں پاکستان کی نسبت بجلی قدرے سستی ہے، حکومتی لوگوں کی 42کمپنیاں آئی پی پیز میں ہیں ان سمیت سب کا آڈٹ ضرور ہونا چاہیے، سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس مسئلے  کو اٹھایا ۔  

سردار سلیم حیدر خان   کا کہنا تھا  حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے یہ اپنے ہی جاری کردہ نرخوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے، پیپلز پارٹی وزارتیں لینے کے حق میں نہیں حالانکہ ن لیگ دینا چاہتی ہے، چاہتے ہیں کہ ملک کے حالات بہتر ہوں اس کے لئے پیپلز پارٹی نے قربانی دی اور ن لیگ کے ساتھ حکومت بنائی ،  جنوبی پنجاب صوبہ پر پیپلز پارٹی کا موقف واضع ہے، پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب سے اراکین پنجاب اسمبلی چھٹیوں پر ہے اسمبلی اجلاس ہوتا ہے تو اس پر ضرور بات کریں گے ، پیپلزپارٹی اور ن کے لیگ درمیان نورا کشتی نہیں ہو رہی دراصل ہم نہیں چاہتے کہ اس ملک کے غریب عوام کے پیسوں سے الیکشن دوبارہ ہوتے،  8 فروری کے الیکشن کے نتائج میں کوئی بھی پارٹی الگ سے حکومت نہیں بنا سکتی تھی، پی ٹی آئی پر پابندی کے حق میں نہیں تھا،بنوں میں جس طرح کیا گیا ایسا لگا جیسے دوبارہ نو مئی کی پلاننگ کی گئی ہے، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاونٹ میں جو زخمی لڑکا دکھایا گیا وہ کرغزستان  میں زخمی ہوا تھا، پی ٹی آئی کے دور میں سرکاری افسران کے تبادلے رشوت لے کر کیے  جاتے تھے اور یہ روایت ابھی بھی قائم ہے ۔ 

 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

الیکشن کمیشن کا 41 آزاد اراکین قومی اسمبلی کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع

‏الیکشن کمیشن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو فیصلے پر وضاحت کی درخواست جمع کرادی ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

الیکشن کمیشن کا 41 آزاد اراکین قومی اسمبلی کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے 41  آزاد  ارکان قومی اسمبلی کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔‏الیکشن کمیشن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو فیصلے پر وضاحت کی درخواست جمع کرادی ہے۔

الیکشن کمیشن کی درخواست میں کہا گیا ہےکہ ‏41  آزاد ارکان  نے پارٹی وابستگی کی دستاویزات جمع کرادی ہیں، ‏دستاویزات جمع کرانے والے ارکان نے لکھا کہ وابستگی تحریک انصاف کنفرم کرےگی۔

الیکشن کمیشن نے درخواست میں کہا ہےکہ  ‏الیکشن کمیشن  ریکارڈ  میں تحریک انصاف کا کوئی پارٹی اسٹرکچر نہیں ہے، تحریک انصاف  کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں آزادارکان کی پارٹی وابستگی کون کنفرم کرےگا؟

لیکشن کمیشن کا کہنا ہےکہ  ‏بیرسٹرگوہر علی الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں پارٹی چیئرمین نہیں ہیں، سپریم کورٹ اس معاملے پر  رہنمائی کرے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر  عمل درآمد شروع کردیا ہے اور کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے 39 ایم این ایز کا نوٹیفکیشن ویب سائیٹ پر جاری کر دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی کے 39 ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

نیب ترمیمی آرڈیننس 2024 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

 نئے ترمیمی آرڈیننس میں بدنیتی پر مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا 5 سے گھٹا کر 2 سال کردی گئی، پی ڈی ایم نیب قوانین میں میں 3 بار ترامیم کر چکی ہے، درخواست میں موقف

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

نیب ترمیمی آرڈیننس 2024 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2024 اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

شہر ملک ناجی اللہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، درخواست شہری ملک ناجی اللہ کے وکیل اظہر صدیق نے جمع کروائی۔درخواست میں سیکرٹری کابینہ، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا کہ نئے ترمیمی آرڈیننس میں ریمانڈ کا دورانیہ 14 سے بڑھا کر 40 دن کردیا گیا، نئے ترمیمی آرڈیننس میں بدنیتی پر مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا 5 سے گھٹا کر 2 سال کردی گئی، پی ڈی ایم نیب قوانین میں میں 3 بار ترامیم کر چکی ہے۔

درخواست گزار کے مطابق اب یہ نیا ترمیمی آرڈیننس آگیا ہے جسے پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کیا گیا، 14 دن سے زائد ریمانڈ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بدنیتی پر مبنی جھوٹا مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا صرف 2 سال کیوں؟۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب ریفرنسز کے ملزمان 14، 14 سال سزائیں بھگتتے ہیں، یہ ایک ظالمانہ قانون ہے، ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا تھا کہ آرڈیننس کے ذریعے ایک شخص کی رائے پوری قوم پر مسلط کردی جاتی ہے۔

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ چیف جسٹس پاکستان نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ جمہوریت کے خلاف نہیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ کیا یہ ضروری نہیں ہونا چاہیے کہ صدر آرڈیننس جاری کرتے ہوئے وضاحت بھی دے، یہ آرڈیننس بھی پارلیمنٹ لے جائے بغیر پاس کیا گیا، یہ قانون کی منشا کے خلاف ہے۔

شہری نے عدالت سے استدعا کی کہ قومی احتساب آرڈیننس 2024 کو آئین کی شقوں کے برخلاف قرار دیا جائے اور قومی احتساب آرڈیننس 2024 کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو سیاسی اور انتقامی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔

مزید اپیل کی کہ فریقین کو معلومات تک رسائی کے حق کے تحت مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔یاد رہے کہ 27 مئی کو قائم مقام صدر و چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے 2 آرڈیننس جاری کردیے گئے تھے۔

نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے 2 اہم ترامیم کی گئی ہیں جس کے تحت نیب کے ریمانڈ کی مدت 14 دن سے بڑھا کر 40 دن کردی گئی ہے۔نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق مقدمے میں بدنیتی ثابت ہونے پر نیب افسران کی سزا 5 سال سے کم کرکے 2 سال کردی گئی ہے۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll