جی این این سوشل

پاکستان

دارلحکومت میں 5 سے 17 اکتوبر تک فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری

انہوں نے کہا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے ایام میں اسلام آباد میں مقامی تعطیل ہوگی اور اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

دارلحکومت میں 5 سے 17 اکتوبر تک فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی سیکیورٹی کے سلسلے میں 5 سے 17 اکتوبر تک فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کے لیے فوج کی تعیناتی آرٹیکل245 کےتحت کی گئی ہے اور 5 سے 17 اکتوبر تک دارالحکومت میں فوج تعینات رہے گی۔

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوج کو تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

گزشتہ روز وزیر داخلہ محسن نقوی نے دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی کا عندیا دیا تھا ، انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 اکتوبر سے پاک فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو تعینات کرنا ہے اور سکیورٹی کو فول پروف بنانا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے ایام میں اسلام آباد میں مقامی تعطیل ہوگی اور اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔

انہوں نے تحریک انصاف سے دارالحکومت اور اس کے اطراف احتجاج موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں کتنے سالوں کے بعد مملکت کے سربراہان آرہے ہیں لہٰذا ہم سب کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ عوام بھی پہلے پاکستان کے مفاد اور پھر پارٹی کا مفاد دیکھیں ۔

 

پاکستان

سویلینز کا ملٹری ٹرائل:فوج میں نہ ہونے والا شخص آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے ؟ سپریم کورٹ

مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے،وکیل خواجہ حارث

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سویلینز کا ملٹری ٹرائل:فوج میں نہ ہونے والا شخص آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے ؟ سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے حوالے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا شخص آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟۔

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے  وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

جس  پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ جس  پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص فوج  میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا،  جبکہ اگر کوئی شخص محکمہ زراعت میں ہو تو اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا نہ کے ملٹری ڈسپلن کا،  ان کا مزید کہنا تھا  کہ کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟

جس پر وکیل خواجہ حارث نے دلائل  دیتے ہوئے  کہا کہ کچھ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔

 اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل8کا سیکشن 1 غیرمؤثرنہیں کردیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ  ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔

خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدرہاؤس پرحملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا مگر  آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں، کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا فوجی عدالت میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا جی فوجی عدالت میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کردے تو کیس کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے کیس کی مزید کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔ 

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیخر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستیں خارج کر دیں

پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کے ریمارکس

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیخر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستیں خارج کر دیں

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیخر آرڈیننس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت دیگر کی دائر درخواستیں خارج کر دیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

 بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرڈیننس کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کر دی ہے۔آرڈیننس کے تحت بنی کمیٹی ختم ہوگئی، کمیٹی کے فیصلوں کو پاس اینڈ کلوز ٹرانزیکشنز کا تحفظ ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ آرڈیننس کے تحت کمیٹی کے ایکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون آجائے تو آرڈیننس خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین صدر پاکستان کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے آرڈیننس کو چیلنج کیا تھا، افراسیاب خٹک، احتشام الحق اور اکمل باری نے بھی آرڈیننس کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔

واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا۔

قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔

 

 

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

بنگلہ دیش نےملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا

ریاست کی خودمختاری اور عدم مداخلت کا اصول بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہے اور اسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا، بنگلہ دیشی خارجہ سیکریٹری

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

بنگلہ دیش نےملک کے  اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا

بنگلہ دیش نے ملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کو مسترد کردیا۔

بنگلہ دیش نے بھارتی خارجہ سیکریٹری کے حالیہ تبصروں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ بنگلا دیش کے خارجہ سیکریٹری محمد جاشم الدین نے اس حوالے سے ایک واضح بیان میں کہا کہ ان کی ریاست کی خودمختاری اور عدم مداخلت کا اصول بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہے اور اسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا۔
 
بھارتی خارجہ سیکریٹری کے ثقافتی، مذہبی اور سفارتی املاک پر تبصرے کو سفارتی لحاظ سے حساس سمجھا جا رہا ہے اور اسے بنگلہ دیش کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے،تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تبصرے ہندو اقلیتوں اور بھارتی سفارتی مشنز کے مسائل کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں تنازع کی ایک وجہ ہیں۔

بنگلا دیش نے واضح کیا کہ اس کی ریاست کا سیکولر تشخص اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کا عزم غیر متزلزل ہے۔ بھارتی بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے، بنگلا دیش نے اس بات پر زور دیا کہ بیرونی تبصرے ان کے داخلی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہیں۔
 
بنگلا دیش میں عوامی لیگ کی بھارت نواز پالیسیوں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جن کے تحت بھارت کو پانی کے معاہدوں، تجارت، اور سکیورٹی معاملات میں بے جا رعایتیں دی گئیں۔ باہمی تجارت کے حوالے سے بھی بنگلا دیش نے بھارت کی غیر متوازن پالیسیوں پر اعتراض اٹھایا ہے، جہاں بھارتی برآمدات کو ترجیح دی جاتی ہے اور بنگلہ دیشی اشیا پر غیر ضروری رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔
 
بھارتی بارڈر فورس (بی ایس ایف) کے ہاتھوں بنگلا دیشی شہریوں کے قتل ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ڈھاکہ میں عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی نے اس رویے کو دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کی کمی کا سبب قرار دیا ہے۔

بھارت کی تفریحی صنعت اور میڈیا کی بنگلادیش میں موجودگی کو بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقامی ثقافت پر پڑنے والے اثرات کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے، بھارت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سافٹ پاور کے ذریعے بنگلا دیش میں اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 
بھارت کی جانب سے ٹیستہ پانی کے معاہدے میں تاخیر بنگلا دیش کے لیے ایک تکلیف دہ مسئلہ بن چکا ہے۔ بنگلا دیشی عوام اور حکومت اس معاملے کو بھارت کی عدم دلچسپی اور دوطرفہ تعلقات کے دعووں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
 
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی حکام کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات اگر احتیاط سے نہ نمٹائے گئے تو یہ سفارتی تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتے ہیں۔ بنگلادیش نے واضح پیغام دیا ہے کہ خود مختاری اور داخلی امور میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔
 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll