ادھم سنگھ سے رام محمد سنگھ آزاد تک کا سفر، جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا بدلہ لینے والاہندوستانی شہید
ادھم سنگھ نے عدالت میں اپنی مذہبی کتاب “گرو گرنتھ صاحب” پر حلف لینے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ایک مخصوص مذہب کی نمائندگی کرتی ہے نہ کہ پورے پنجاب کی۔


ویب ڈیسک: ادھم سنگھ سے رام محمد سنگھ آزاد تک کا سفر، سانحہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا بدلہ لینے والا عظیم ہندوستانی شہید۔
31 جولائی 1940 جب برطانوی عدالت نے جنرل مائیکل ڈائر کے قتل کی بنا پر ادھم سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی، جسے ادھم سنگھ نے ہنستے ہوئے قبول کر لیا۔
ادھم سنگھ 26 دسمبر 1899 کو پنجاب کے ایک گاوں سنام میں پیدا ہوا۔بچپن میں ہی اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔بیسویں صدی کے آغاز میں ہی پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں میں سیاسی ہلچل شروع ہو گئی تھی لوگوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا۔
فرہنگی حکومت نے پنجاب اور بنگال میں لوگوں کو دبانے کے لیے ہر طرح کا تشدد شروع کر دیا تھا، ان سب اقدامات کے پیچھے پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر او ڈائر کی کارستانی شامل تھی۔
جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد شائع ہونے والی اپنی کتاب India as I Knew It میں اوڈائر نے پنجاب کے حوالے سے لکھا کہ اُس وقت دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے‘ اور سیاسی ایجی ٹیشن کی فضا تھی۔
مئی 1913ء میں جب اوڈائرنے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ سنبھالا تو اسے اُس وقت کے وائسرائے نے خبردار کیا تھاکہ پنجاب وہ صوبہ ہے جس کے بارے میں حکومت سب سے زیادہ فکرمند ہے‘ یہاں کی صورتحال آتش گیر مادے کی طرح ہے‘ اگر ہمیں دھماکے سے بچنا ہے تو صورتحال سے محتاط طریقے سے نمٹنا ہوگا۔
ملک میں ایسے ہی پُر تشدد واقعات اور بغاوت کی روک تھام کے لیے 1918 میں برطانوی حکومت نے “ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ” نافظ کیا۔جس کے مطابق حکومت کو خصوصی عدالتیں بنانے کی اجازت دی گئی جس میں بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات سنے جاتے تھے اور ان کے خلاف اپیل کہیں بھی دائر نہیں کی جا سکتی۔
پھربعد ازاں اسی تناظر میں برطانوی حکومت نے ایک اور ایکٹ جاری کیا جیسے بدنام زمانہ”رولٹ ایکٹ” کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے تحت لوگوں کی رہی سہی شخصی آزادی کو بھی ختم کر دیا گیا۔
کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اس پر شدیدد ردعمل دیا۔ اس وقت لوگ انہی دو نافذ کردہ ایکٹ کے خلاف امرتسر میں احتجاج کر رہے تھے اس کے علاوہ اس جگہ پر بیساکھی(جوکہ سکھوں کا مذہبی تہوار ہے) کی تقریب کے شرکاء بھی موجود تھے جو مارشل لاء کی وجہ سے اس جگہ ٹھہر گئے۔
جبکہ دوسری طرف سے انگریز سرکار بھی کچھ بڑا منصوبہ بنا رہی تھی جس سے شاید وقتی طور پر تو برطانوی سامراج کو راحت مل سکتی تھی مگر اس نے مستقبل کے لیے حکومت کی جڑوں کو مزید کھوکھلا کر دینا تھا۔
کچھ ہی دیر کے بعد فوج کی گاڑیاں اس طرف آتی ہوئی نظر آئیں اور انہوں نے اس پُر امن احتجاج کو بغاوت سمجھتے ہوئے کرنل ڈائر(کرنل ڈائر اور لیفٹننٹ گورنر جنرل مائیل او ڈائر دو الگ الگ کردار ہے) کے حکم پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور دس منٹ تک گولیاں
چلتی رہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم اور بے گناہ شہروں کی اموات ہوئیں۔
برطانوی حکومت کے نزدیک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 350 سے 400 کے قریب ہے جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے بقول ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1000 جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔جن میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی بھی شامل تھے۔ باغات میں ہر طرف خون ہی خون تھا۔
ادھم سنگھ جو کہ اُس وقت نوجوان تھا یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور اسی وقت اس نے اپنے دل میں تہیہ کیا کہ وہ اس خون کا بدلہ ان دو لوگوں سے ضرور لے گا۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُدھم سنگھ نے 1924 میں غدر پارٹی کو جوائن کر لیا۔ 1927 میں کرنل ڈائر جس نے گولی کا حکم د دیا تھا) وہ طبعی موت مر گیا اب اس کی نظر میں صرف ایک ہی بندہ بچا تھا وہ تھا پنجاب کا سابق گورنر۔
1934 میں اُدھم سنگھ چھپتے چھپاتے برطانیہ چلا گیا اور اسی دن کا انتظار کرنے لگا۔آخر 13 اپریل 1940 وہ دن آ ہی گیا۔اس دن اُدھم سنگھ کو اطلاع ملی کے مائیکل اوو ڈائر ایسٹ ایڈین ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں شرکت کرنے کی غرض سے لندن کے کیکسٹن ہال (Caxton Hall) میں آ رہا ہے۔
ادھم سنگھ نے اوور کوٹ پہنا اور ہاتھ میں کتاب لی جس میں اس نے پستول چھپایا ہوا تھا اور جا کر ہال کی پچھلی نشتوں پر بیٹھ گیا۔کچھ ہی دیر میں مائیکل اوو ڈائر اسٹیج پر آیا اس کی دھڑکنیں بہت تیز ہو رہی تھیں وہ دن جس کا برسوں سے انتظار تھا آ پہنچا تھا اس نے ریوالور نکالا اور اسٹیج کی طرف بڑھنا شروع کر دیا، کچھ ہی دیر میں اس نے تین فائر کیے جو سیدھا مائیکل ڈائر کو جا کر لگے اور وہ وہی ڈھیر ہو گیا۔
مرتے وقت اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔مارنے کے بعد ادھم سنگھ نے خود کو برطانوی پولیس کے حوالے کر دیا اور اس پر مقدمہ چلا۔جون 1940ء کو سینٹرل کریمنل کورٹ ’اولڈ بیلی‘ میں جسٹس ایٹکنسن کے سامنے اس کا ٹرائل ہوا۔
اس دوران جج نے اس سے سوال کرتے ہوئےدرج زیل مختصر سا مکالمہ کیا ۔
جج: تیرا نام کیا ہے؟
ادھم سنگھ: رام محمد سنگھ آزاد۔
جج: یہ کیسا نام ہے؟ تیرا مذہب کیا ہے؟
ادھم سنگھ: ہندوستان۔
جج: حلف کس پر اٹھائے گا؟
ادھم سنگھ: ہیر وارث شاہ پر جسے سب پنجابی پڑھتے اور مانتے ہیں۔
ادھم سنگھ نے عدالت میں اپنی مذہبی کتاب “گرو گرنتھ صاحب” پر حلف لینے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ایک مخصوص مذہب کی نمائندگی کرتی ہے نہ کہ پورے پنجاب کی۔ اس کے برعکس ادھم سنگھ نے ایک مسلمان صوفی بزرگ اور پنجابی زبان کے نامور شاعر وارث شاہ کی لکھی ہوئی کتاب “ہیر رانجھا” پر حلف اٹھایا۔
اس نے اپنا نام ادھم سنگھ سے بدل کر رام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا۔اس نے اپنے نام میں تینوں مذاہب کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ خود کو آزاد کہلوانا پسند کیا۔
31 جولائی کو برطانوی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ان کو پھانسی کی سزا سنائی جو انہوں نے ہنستے ہوئے قبول کر لی۔اور اس کو لندن کے پینٹن وائل جیل میں دفنایا گیا۔
قیام ہندوستان کے کئی سال بعد تک اس کا جسد خاکی وطن واپس لانے کی مانگ کی جاتی رہی اور بالاآخر 1975 میں ادھم سنگھ کا جسدِ خاکی لندن سے بھارت لایا گیا۔
اس موقع وزیراعظم اندرا گاندھی، شنکر دیال شرما اور گیانی ذیل سنگھ نے وصول کیا۔ پھر اسے جلیانوالہ باغ لایا گیا، جیسے اس باغ میں مرنے والوں سے صرف یہ کہنے کیلئے آیا ہوکہ تمہارا بدلہ لے کر آگیا ہوں، پھر وہاں سے سنام گاؤں لے جایا گیا۔
ادھم سنگھ آزاد کی آخری رسومات تینوں قوموں پر ایک فرض تھا جو ایک پنڈت، ایک مولوی اور ایک سکھ گرنتھی نے پنجاب کے وزیراعلیٰ گیانی ذیل سنگھ کی قیادت میں مل کے ادا کیں۔
اور اس کے بدن کی راکھ ستلج کی لہروں کے سپرد کر دی گئی۔یہ اسی دریا ستلج کی لہریں تھیں جن میں اس سے قبل’بھگت سنگھ، ’‘ سکھ دیو‘ اور’ راج گرو ‘کی راکھ شامل تھی‘ جنہوں نے اپنی جوانیاں صبحِ آزادی کیلئے قربان کر دی تھیں۔
بعد ازاں کانگریس اور حکومت ہند نے ادھم سنگھ عرف رام محمد سنگھ آزاد کو شہید اعظم کا خطاب دیتے ہوئے اسے بھارت کا ہیرو اور شہید قرار دیا۔ جبکہ ادھم سنگھ سے قبل بھگت سنگھ کو بھی اس اعزاز سے نواز گیا تھا۔
تحریر و تحقیق: احسان اللہ اسحاق
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ژوب اور گردونواح میں 4.5 شدت کا زلزلہ، کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں
- 8 گھنٹے قبل

بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات ہوگی، بھیک نہیں مانگیں گے: چیئرمین پی سی بی
- 5 گھنٹے قبل

"جماعت اسلامی کا میئر کراچی پر کڑا وار: کارکردگی صفر، دعوے بلند
- 7 گھنٹے قبل
ضمنی انتخابات : پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدواروں پر اتفاق
- 8 گھنٹے قبل

پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند، سیلاب کا خدشہ ، ترجمان پی ڈی ایم اے
- 8 گھنٹے قبل

علیمہ خان کے بیٹوں کی گرفتاری، 9 مئی حملہ کیس میں اہم پیش رفت
- 7 گھنٹے قبل

سابق سری لنکن صد ر کو جیل بھیجے جانے کے اگلے ہی روز ہسپتال منتقل کر دیا گیا
- 5 گھنٹے قبل
ایوی ایشن جرنلسٹس کے اعزاز میں ظہرانہ ، پیپلز یونٹی کا پی آئی اے کے دفاع کا عزم
- 4 گھنٹے قبل

وزیراعظم شہباز شریف سیلاب متاثرہ علاقوں کی براہِ راست نگرانی کر رہے ہیں، عطا تارڑ
- 4 گھنٹے قبل

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے نجی اسپتالوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لازمی قرار دے دیے
- 7 گھنٹے قبل

دوسرا لڈو کیوں نا دیا؟ بھارتی شہری نے لڈو تنازع پر وزیر اعلی ہیلپ لائن پر شکایت کرا دی
- 9 گھنٹے قبل

9 مئی کے اشتہاری قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے: عظمیٰ بخاری
- 5 گھنٹے قبل