افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے حال ہی میں ایک نئی پابندی کے تحت جامعات میں 680 کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جن میں تقریباً 140 کتابیں خواتین مصنفات کی لکھی ہوئی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق یہ کتابیں ان کے مطابق "شرعی اصولوں" اور طالبان کی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں تعلیمی اداروں سے ہٹایا جا رہا ہے۔
ان پابندیوں کے نتیجے میں افغانستان کا تعلیمی ماحول مزید محدود اور یکطرفہ ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر خواتین کے علمی کردار کو سختی سے محدود کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل طالبان حکومت لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم، خواتین کے بیوٹی پارلرز، اور بعض علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ پر بھی پابندیاں لگا چکی ہے، جس پر اندرون و بیرون ملک انسانی حقوق کی تنظیمیں گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف علمی آزادی متاثر ہو رہی ہے بلکہ افغانستان مزید تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔