انسٹاگرام کے صارفین میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ میٹا (جو انسٹاگرام اور فیس بک کی مالک کمپنی ہے) ان کے اسمارٹ فون کے مائیکروفون کے ذریعے ان کی باتیں سنتی ہے تاکہ ان کی گفتگو سے متعلقہ اشتہارات دکھائے جا سکیں۔
تاہم انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے حال ہی میں اس خیال کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے وضاحت کی کہ کمپنی ایسا کوئی طریقہ استعمال نہیں کرتی اور اگر ایسا کیا جاتا تو صارفین کو فوراً اس کی علامات جیسے مائیکروفون کا آن ہونا یا بیٹری کا تیزی سے ختم ہونا محسوس ہو جاتا۔
ایڈم موسیری کے مطابق یہ تاثر اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ میٹا کا اشتہاری الگورتھم صارفین کی آن لائن سرگرمی، ویب سائٹس کے وزٹس اور دلچسپیوں کی بنیاد پر اتنی مؤثر پیش گوئی کرتا ہے کہ لوگوں کو گمان ہوتا ہے جیسے ان کی باتیں سنی جا رہی ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میٹا کی جانب سے مختلف کمپنیوں سے حاصل ہونے والا صارف ڈیٹا اور لوگوں کے گروپوں میں مشترکہ دلچسپیوں کی بنیاد پر اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔ اگرچہ صارفین کو بظاہر یہ سب "اتفاق" محسوس ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ جدید ڈیٹا اینالٹکس اور انسانی نفسیات کے امتزاج کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ حال ہی میں میٹا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی AI چیٹ سروسز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ٹارگٹڈ اشتہارات کے لیے استعمال کرے گا، جو پرائیویسی سے متعلق ایک نیا سوال ضرور اٹھاتا ہے، مگر اس کا مائیکروفون سے بات سننے سے کوئی تعلق نہیں۔