جی این این سوشل

جرم

پشاور: داؤدزئی میں مرداورخاتون قتل

پشاور میں قتل کا اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے 

پر شائع ہوا

کی طرف سے

پشاور:تھانہ داؤدزئی کی حدودمیں مرداورخاتون قتل
پشاور:تھانہ داؤدزئی کی حدودمیں مرداورخاتون قتل

جی این این کے مطابق پشاور کے تھانہ داؤدزئی کی حدود میں مرد و خاتون کو ناجائز تعلقات کے الزام میں قتل کردیا گیا ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ورثاء نے دونوں مقتولین کو پھانسی دی اور خاتون کو خاموشی سے دفنا دیا۔ مرد کی تدفین کے موقع پر پولیس کو علم ہوا تو لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا، جس سے مرد کو پھانسی دینے کا انکشاف ہوا ۔ پولیس کاکہنا ہے کہ مقتولہ ،مقتول کی رشتے میں چاچی لگتی تھی۔  پولیس  کی جانب سے مقدمہ درج  کر کے تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ 

یہ بھی پڑھیں : پاکستان میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح میں کمی   

https://gnnhd.tv/urdu/news/7018

پاکستان

جسٹس بابر ستار کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک اور خط

آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیچھے ہٹنے کا پیغام دیا گیا ہے، جسٹس بابر ستار

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

جسٹس بابر ستار کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک اور خط

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک اور خط لکھ دیا۔

جسٹس بابر ستار نے انکشاف کیا کہ آڈیو لیکس کیس میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاپ آفیشل کی طرف سے مجھے پیغام دیا گیا سرویلینس کے طریقہ کار کی اسکروٹنی کرنے سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی ، میں نے یہ نہیں سمجھا کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے عمل کو کافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔  پی ٹی اے سے متعلقہ مقدمات میں بدنیتی پر مبنی مہم کا فوکس عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے ایک دھمکی آمیز حربہ معلوم ہوتا ہے 

انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس میں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں، متعلقہ وزارتوں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی ، آئی بی، ایف آئی اے، ریگولیٹری باڈیز پی ٹی اے ، پیمرا کو عدالت نے نوٹس جاری کئے تھے۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

اٹارنی جنرل آف پاکستان کی عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی تردید

تاثر دیا جارہا ہے کہ عدلیہ یا ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہیں، منصور اعوان

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اٹارنی جنرل  آف پاکستان کی  عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی تردید

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے کہا ہے کہا حکومت یا ریاستی ادارے کے کسی بھی افسر نے کسی قسم کا نہ براہ راست رابطہ کیا ہے، نہ وہ کرتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار کے خط پر درعمل دیتے ہوئے منصور اعوان کا کہنا تھا کہ آج کل تاثر دیا جارہا ہے کہ عدلیہ یا ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ ریاست کی کچھ حساس معلومات ہوتی ہیں، حساس معلومات کے حوالے سے اٹارنی جنرل یا ایڈووکیٹ جنرل  رابطہ کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نہ حکومت نہ ہی ریاستی ادارہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ کرسکتا ہے، ایسا تاثر  بنایا جا رہا ہے جیسے عدلیہ  اور ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں، درخواست کی گئی تھی کہ سرویلینس سے متعلق معاملات پر بریفنگ ان کیمرا کی جائے، بدقسمتی سے تاثر کچھ ایسا لیا گیا کہ کیس کا فیصلہ کسی ایک رخ  پر کردیا  جائے ایسا نہیں تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ کمیونی کیشن کی، ایک خط لکھا، اس خط کی روشنی میں یا اس خط کے مندرجات رپورٹ کچھ اس طرح سے ہوئے جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کوئی مداخلت ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  ان جج صاحب کو ایک مخصوص کیس کے حوالے سے کوئی پیغام اس طرح کا گیا یا انہوں نے سمجھا یا کسی ایسے شخص کی طرف سے گیا جو نہیں جانا چاہیے تو میں نے سوچا کہ میں اس چیز کی وضاحت ضرور کردوں۔

منصور اعوان نے مزید کہا کہ خط لکھنے کا مقصد مداخلت نہیں ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے خط کا متن سوشل میڈیا پر بھی آیا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں مداخلت کا تاثر دیا جارہا ہے۔ 

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آڈیولیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس ، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے فیصلہ محفوظ کیا

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس ، بانی چیئرمین  پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے فیصلہ محفوظ کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سابق وزیراعظم عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈزریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے دلائل دیے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ رقم جرم سے حاصل کردہ رقم تھی؟ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ وہ رقم حکومت پاکستان کو آنی چاہیئے تھی، وہ پیسہ ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بھیجا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک ریاض اور فیملی نے رقم پاکستان سے منی لانڈرنگ کی؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے امجد پرویز سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ رقم این سی اے نے بھیجی یا ملک ریاض نے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملک ریاض کی این سی اے کے ساتھ آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ ہوئی۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ کے پاس اس کی کوئی دستاویز نہیں، ساری زبانی باتیں ہیں، آپ سے پہلے پوچھا تھا کہ فریزنگ یا ڈی فریزنگ کا آرڈرآپ کے پاس ہیں؟ آپ نے کہا کہ اُن میں سے کوئی دستاویز آپ کے پاس موجود نہیں ہے، کیا آپ کے پاس آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے کوئی شواہد موجود ہیں؟ آپ صرف وہ بات کریں جس کے آپ کے پاس شواہد موجود ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سوال بہت سادہ ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟ آپ تو اپنی دستاویزات میں اس سوال کا جواب دے بھی چکے ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرڈر میں لکھا کہ یہ پیسہ ریاستِ پاکستان کا ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں غلط بھیجی گئی، ایسٹ ریکوری یونٹ نے وزیرِ اعظم کو یہ رقم منجمد کرانا اپنی کامیابی بتائی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ یہ رقم منجمند کرکے ملک ریاض اورفیملی کو مجبور کردیا گیا، ملک ریاض اورفیملی کی رقم کرائم پروسیڈ تھی منی لانڈرکی گئی رقم تھی، دستاویزات کے مطابق یہ رقم نیشنل کرائم ایجنسی کی اجازت کے بغیر منتقل نہیں سکتی تھی۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پوچھا کہ کابینہ کی منظوری سے پہلے جو پیسے آئے ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے بتایا کہ یہی تو فراڈ ہے، ایسٹ ریکوری یونٹ وزیراعظم کے براہ راست ماتحت ادارہ تھا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ وزیرِ اعظم کے سامنے رکھے گئے نوٹ سے پہلے منتقل رقم سے متعلق کیا کہیں گے؟

اس پر نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے کہا کہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ ہو جانے کے بعد یہ رقم منتقل کی گئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ تھے۔

جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ میں تو نہیں لکھا کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئے گی۔

نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر امجد پرویز نے کہا کہ اس عدالت کے توجہ دلانے پر میں نے کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ کو دوبارہ پڑھا ہے، یہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ بہت بڑا فراڈ تھی، ایسٹ ریکوری یونٹ وزیرِاعظم کے براہِ راست ماتحت ادارہ تھا۔

جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا اس سے کیسے تعلق بنتا ہے؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ پبلک سرونٹ اس شخص سے تحفہ نہیں لے سکتا جس کا معاملہ اس کے پاس زیرِ التواء ہو، 458 کنال زمین خرید کر زلفی بخاری کے نام منتقل کی گئی۔

جسٹس طارق جہانگیری نے استفسار کیا کہ زمین منتقل کرنے والے کون لوگ ہیں؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ پرائیویٹ لوگوں سے زمین خرید کر زلفی بخاری کے نام کر دی گئی، ایسٹ ریکوری یونٹ کی این سی اے سے خط و کتابت کے دوران زمین منتقل کی گئی، جب زمین منتقل کی گئی تب القادر ٹرسٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ نیب کی جانب سے جمع کرایا گیا تحریری جواب بھی دیکھ لیں، شہزاد اکبر اگر کلیم کرتا ہے کہ وہ پیسہ لے کر آیا تو اس سے پوچھیں، شہزاد اکبر کا سارا کچھ بانی پی ٹی آئی کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ برطانیہ سے رقم معاہدے کے تحت پاکستان آئی، وفاقی کابینہ نے صرف معاہدے کو خفیہ رکھنےکی منظوری دی، نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے کسی دستاویز پر دستخط موجود نہیں، نیب کے گواہ نے تسلیم کیا کہ کوئی رقم بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی۔

عمران خان کے وکیل کے مطابق گواہ نے مانا کہ بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا، نیب نے کسی موقع پر اس گواہ کے بیان کو اپنے خلاف قرار نہیں دیا، نیب کے اپنے گواہ کے اس بیان کے بعد کیس میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ منی لانڈرنگ کا تو یہ کیس ہی نہیں، یہ پاکستان کا مجسٹریٹ نہیں تھا کہ مرضی سے لکھوا لیتے، مشکوک قرار دے کر رقم منجمد کی اور پھر غیر منجمد بھی کر دی۔

واضح رہے کہ 23 جنوری کو سابق وزیر اعظم نے 190 ملین کیس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ 27 فروری کو احتساب عدالت اسلام آباد نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف فردجرم عائد کی تھی۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll