پاکستان

آلودگی پر بھی دھیان دیں

یہ فضائی آلودگی کا ہی ثمر ہے کہ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں جب کہ گندے نالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جگہ ماحول کو بہتر بنائے لیکن یہ اولین فریضہ حکومت کا ہی ہے کہ وہ فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے تدارک کرے۔

GNN Web Desk
Published 3 years ago on Oct 26th 2021, 2:59 pm By
آلودگی پر بھی دھیان دیں

دنیا بھر میں کورونا سے اتنے لوگ نہیں مارے گئے، نہ ہی تمباکو نوشی اور نہ ہی منشیات سے اتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں جتنے فضائی آلودگی سے ہوتے ہیں اور پاکستان بھی دنیا کے کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔کچھ دن قبل تو دنیا بھر کے ہزاروں شہروں میں سے لاہور کو آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آلودہ ترین ابتدائی چار شہروں میں دو پاکستان کے اور دو بھارت کے شہر شامل تھے یعنی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہم اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ لاہور شہر کی بات کریں تو شہر اتنا پھیل چکا ہے جنوب میں قصور کی سرحد کو پار کر رہا ہے تو شمال میں گوجرانولہ اور شیخو پورہ سے جا کر ملا ہوا ہے۔ اسی طرح مشرق سے بھارت کی سرحد تک جا پہنچا ہے اور مغرب میں شیخو پورہ اور ننکانہ اس کے بھائی بن چکے ہیں۔ یعنی اتنی بے ہنگم تعمیرات ہو رہی ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں زرعی زمینوں کو لوگ دھڑا دھڑا سکیمیں بنا کر فروخت کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ شہر کی فضا اتنی آلودہ ہو چکی ہے کہ سانس لینا دو بھر ہو چکا ہے۔عمران خان صاحب کا بلین ٹری سونامی لاہور اور اس کے گرد و نواح میں کہیں نظر نہیں آتا جہاں درختوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہاں درخت لگائے نہیں جا رہے جہاں پہلے سے درخت موجود ہیں وہاں درخت لگا کر داد سمیٹی جا رہی ہے۔لاہور  ایک قسم کا کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔
دنیا میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ بھی ایسے ملک موجود ہیں جن کے شہروں کی آبادیاں کروڑوں میں ہیں لیکن انہوں نے ایک منصوبی بندی کے ساتھ شہر تعمیر کئے ہیں اور آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ شہروں کو پھیلانے کی بجائے انہوں نے شہروں کو بلند کیا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے شہر کروڑ کی آبادی کا ہندسہ عبور کرنے کے باوجود آلودگی سے بچے ہوئے ہیں۔ جس طرح کورونا کے دوران حکومت نے بڑا زور دکھایا شہر بند کئے، کاروباری مراکز بند کئے، سکول و کالج کو چھٹیاں دیں (ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے ایک لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں اور دو سالوں میں کورونا کی وجہ سے اب تک صرف 28 ہزار کے قریب اموات ہی ریکارڈ کی گئیں ہیں)حیرت کی بات ہے تمباکو نشی، شراب نوشی  سے بھی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوتیں جتنی فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ایک بیماری میں حکومت نے پورا ملک بند کر دیا جبکہ فضائی آلودگی جو مختلف بیماریوں کو بڑھاوا دے رہی ہے اس پر حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔لوگ درختوں کو کاٹ کاٹ کر بلڈنگیں بنا رہے ہیں، نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں گرین زون کو براؤن زون شو کر کے پلاٹوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے لیکن شعبہ ٹاؤن پلاننگ اور منصوبہ بندی والے اپنی دیہاڑیں لگا کر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔خان صاحب کا درختوں کے حوالے سے بڑا وژن تھا اور انہوں نے کے پی کے میں درخٹ لگا کر بڑی داد بھی سمیٹی اور امید کی جا رہی تھی کہ پنجاب میں بھی وہ درختوں کا جنگل لگا کر شہریوں کی دعائیں لے گے لیکن جس طرح پورے ملک میں تین سال میں نہ تو کوئی بڑا حکومتی منصوبہ نظر آیا اور باقی سیکٹرز جس طرح نظر انداز ہوئے اسی طرح درختوں کی آبیاری کے حوالے سے لاہور بھی محروم رہا جس کی وجہ سے اسے دنیا کا آلودہ ترین شہر ہونے کا اعزاز بھی مل گیا ہے۔ غیر محسوس طریقے سے ہمارے معاشرے میں بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے ہسپتال بھرے ہوئے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ  فضائی آلودگی ہے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ آلودہ فضا ہے جو لوگوں کو بیمار کر رہی ہے۔ بے وقت کی بارشیں ہو رہی ہیں، گرمیوں کا موسم طویل ہو رہا ہے، سردی غیر معمولی پڑ رہی ہے تو یہ سب  انہونیاں موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جو اللہ تعالی فطرت کو تباہ کرنے کے جرم میں ہمارے نصیب میں لکھ رہا ہے۔وگرنہ ماضی میں یہ سب کچھ ایک طے شدہ لگے بندھے معمول کے مطابق ہوتا تھا لیکن جب سے فطرت کے ساتھ بگاڑ شروع ہوا ہے تو فطرت نے بھی اپنا آپ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ ہم بڑے خوش ہو رہے ہیں کہ ہماری گاڑیوں کی سیل بڑھ گئی ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اس سے ماحول پر کتنا اثر پڑھ رہا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہمارے اعصاب، ذہن اور جسم قوتِ سما عت اور قوتِ مدافعت  پر کیا اثر پر ڑہا ہے،بلڈ پریشر،چڑچڑے پن اور دل کی بیما ریوں میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ فضائی آلودگی کا ہی ثمر ہے کہ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں جب کہ گندے نالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جگہ ماحول کو بہتر بنائے لیکن یہ اولین فریضہ حکومت کا ہی ہے کہ وہ فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے تدارک کرے درخت لگائے، پانی کو آلوددہ ہونے سے بچائے، شہروں کو منصوبہ بندی کے تحت بسائے۔جب دنیا کے دیگر ممالک اپنے شہروں کو  صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں تو ہمیں صاف فضا میں سانس لینے سے جو امر روکتا ہے اس امر کا تدارک کرنا ہو گا۔

رجحانات