جی این این سوشل

تجارت

فی تولہ سونے کی قیمت میں 6ہزار روپے سے زائد کی کمی

سونا فی تولہ 6200 روپے کی کمی کے بعد 242000 روپے کا ہو گیا

پر شائع ہوا

کی طرف سے

فی تولہ سونے کی قیمت میں 6ہزار روپے سے زائد کی کمی
فی تولہ سونے کی قیمت میں 6ہزار روپے سے زائد کی کمی

سونے کی قیمتوں میں مسلسل تیسرے روز بھی کمی ہو گئی۔

مسلسل تیسرے دن 24 قیراط کے حامل فی تولہ سونے کی قیمت 6200روپے کی کمی سے 242000 روپے اور فی 10 گرام سونے کی قیمت بھی 5315روپے کی کمی سے 207476روپے کی سطح پر آگئی۔

عالمی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں 60 ڈالر کی بڑی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد نئی عالمی قیمت 2355 ڈالر کی سطح پر آگئی۔

یاد رہے کہ گزشتہ دو روز بھی سونے کی فی تولہ قیمت میں کمی دیکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز قیمت میں 300 روپے کمی جبکہ منگل کو سونا 1900 روپے سستا ہوا تھا۔

دنیا

غزہ میں جنگ بندی کیلئے مصر اور قطر جلد دوبارہ کوشش کریں گے، امریکہ

ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے کیے ہر وقت راستہ اور امکان رہتا ہے، سلیوان

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

غزہ میں جنگ بندی کیلئے  مصر اور قطر جلد دوبارہ کوشش کریں گے، امریکہ

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ مصر اور قطر جلد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کوشش کو دوبارہ شروع کریں گے تاکہ صدر جوبائیڈن کے منصوبے کے تحت معاہدہ ممکن ہو سکے۔

جیک سلیوان نے امن کانفرنس کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مصر اور قطر سے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوششوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

امریکی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ ایک ایسی جنگ بندی تجویز کی گئی ہے جس کی مدت کم از کم چھ ہفتے ہو گی ۔ قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے اتوار کے روز دوبارہ بات چیت ہو گی۔

فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے صدر جوبائیڈن کی طرف سے سامنے لائے گئے امن منصوبے کا ابتدائی طور پر خیر مقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں جنگ کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے اور اسرائیلی فوج کا انخلا کیا جانا چاہیے۔

سلیوان نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے کیے ہر وقت راستہ اور امکان رہتا ہے۔ اس لیے اب اگلا قدم قطر اور مصر کے حکام کی طرف سے مذاکرات کی نئی کوشش ہو گی۔ جہاں تک حماس کے نکات کا تعلق ہے ہم اسرائیل کے ساتھ بھی مشورہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خیال رہے غزہ جنگ سات اکتوبر 2023 سے جاری ہے اور اسرائیلی یرغمالی بھی اسی روز سے غزہ میں قید ہیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

قربانی کس پر واجب ہے ؟ قربانی کی شرائط

قربانی کرنا، سنت ابراہیمی کی پیروی اور اﷲ عزوجل کے حکم کی بجاآوری ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے کہ ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر کر دی

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

قربانی کس پر واجب ہے ؟ قربانی کی شرائط

قربانی کرنا، سنت ابراہیمی کی پیروی اور اﷲ عزوجل کے حکم کی بجاآوری ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے، مفہوم: ’’ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر کر دی۔
قربانی واجب ہونے کی شرائط:

٭ مسلمان ہونا لہٰذا غیر مسلم پر قربانی نہیں۔

٭ مقیم ہونا، لہٰذا مسافر پر قربانی کرنا ضروری نہیں البتہ وہ نفلی قربانی کر سکتا ہے۔

٭ صاحبِ نصاب ہونا، یہاں نصاب سے وہ نصاب مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے بل کہ وہ نصاب ہے جس سے صدقۂ فطر لازم ہوتا ہے۔ مرد ہونا اس کی شرط نہیں لہٰذا عورت پر بھی اگر وہ نصاب کی مالک ہے تو قربانی واجب ہوگی۔

٭ قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں: اونٹ یا اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال ہونا ضروری ہے۔ گائے، بیل، بھینس اور بھینسے کی عمر کم از کم دو سال ہونا لازمی ہے۔ بکری، بکرا، دنبہ اور بھیڑ کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی جانور بیان کردہ عمر سے زیادہ کا ہو تو افضل ہے، کم کا ہو تو قربانی نہیں ہوسکتی لیکن اگر چھے مہینے کا دنبہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

٭ بکری، بکرا، بھیڑ اور دنبے کو صرف ایک آدمی کی طرف سے قربانی میں ذبح کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ اور اونٹنی میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں۔ نیز ساتوں افراد کے حصے برابر اور قربانی کے لیے سب کی نیّت اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی ہونا ضروری ہے ورنہ سب کی قربانی نہیں ہوگی۔

٭ حصوں کی قربانی میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کھالیں قربانی کروانے والے اپنی مسجد یا مدرسے کے لیے رکھ لیتے ہیں اور اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا تو یہ المعروف کا لمشروط کے تحت تو جائز ہے لیکن اگر کوئی حصہ دار صراحتاً منع کردے کہ میرے حصے کی کھال کہیں نہ دینا بل کہ مجھے ہی دینا تو اس صورت میں اس کے حصے کی کھال کی مقدار مسجد یا مدرسے کو دینا جائز نہیں۔

٭ جس جانور میں مندرجہ ذیل عیوب میں سے کوئی ایک بھی موجود ہو اس کی قربانی جائز نہیں: سینگ، ہڈی تک ٹوٹا ہُوا ہو۔ اتنا پاگل ہو کہ چرنا چھوڑ دے۔ اتنا کم زور ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا ہو۔ اندھا ہو، کانا پن ظاہر ہو۔ اتنا بیمار ہو کہ چل نہ سکتا ہو۔ کان، دُم، چکی تیسرے حصے سے زاید کٹی ہوئی ہو۔ کانوں سے خالی ہو۔ تیسرے حصے سے زاید بینائی چلی گئی ہو۔ بکری کا ایک، گائے کے دو تھن خشک یا کٹے ہوئے ہوں۔ کسی جانور میں نر اور مادہ دونوں کی علامتیں (یعنی خنثیٰ) ہو۔ گندگی کھانے والا ہو۔ اس کا پاؤں کٹا ہوا ہو۔ زبان اتنی کٹی ہوئی ہو کہ چارہ نہ کھا سکتا ہو۔

٭ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ان کے اجزء میں سے بعض حرام اور بعض مکروہ تحریمی ہیں جن کا ذکر حسب ذیل ہے: رگوں کا خون۔ پِتّا۔ مثانہ۔ علامت مادہ و نر۔ خصیے۔ غدود (جسم کے اندر کی گانٹھ جسے عربی میں غدّہ کہتے ہیں)۔ حرام مغز۔ گردن کے دو پٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں۔ جگر کا خون۔ تلی کا خون۔ گوشت کا خون جو ذبح کے بعد گوشت میں سے نکلتا ہے۔ دل کا خون۔ پِت یعنی وہ زرد پانی جو پِتے میں ہوتا ہے۔ ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے۔ پاخانے کا مقام۔ آنتیں۔ نطفہ۔ وہ نطفہ جو خون ہوگیا۔ وہ گوشت کا ٹکڑا جو رحم میں نطفے سے بنتا ہے۔ وہ نطفہ جو کہ پورا جانور بن گیا اور مُردہ نکلا یا بے ذبح مرگیا۔ (فتاویٰ رضویہ)

٭ قربانی کا وقت دس ذی الحجہ کی طلوع صبح صادق سے لے کر بارہ ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک یعنی تین دن اور دو راتیں ہیں۔ البتہ غلطی کے احتمال کی وجہ سے رات کو قربانی کرنا مکروہ ہے۔

٭ قربانی کرتے وقت جانور کو اس طرح لٹائیں کہ جانور اور ذبح کرنے والا دونوں قبلہ رُو ہوں کیوں کہ یہ سنّت مؤکدہ ہے۔

(فتاویٰ رضویہ )

٭ جس شخص نے قربانی کرنی ہو اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ قربانی کے بعد ناخن ترشوائے اور بال کٹوائے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ ترشوائے۔ (مسلم ، ترمذی)

٭ مرتد، مشرک، مجوسی، مجنون، ناسمجھ اور اس شخص کا ذبیحہ جو قصداً تکبیر چھوڑ دے حرام و مردار ہے اور ان کے علاوہ کا ذبیحہ حلال ہے۔ جب کہ رگیں ٹھیک کٹ گئی ہوں۔ اگرچہ ذابح عورت یا سمجھ والا بچہ یا گونگا یا بے ختنہ ہو۔

(بہ حوالہ: فتاویٰ رضویہ)

٭ اگر گائے یا بکری کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد بچہ نکلا تو قربانی ہوجائے گی لیکن بچہ اگر مرا ہوا ہو تو وہ حرام ہے اسے پھینک دیا جائے اور اگر زندہ ہو تو وہ حلال ہے اسے ذبح کر دیا جائے۔ (بہارِ شریعت)

٭ اگر کوئی شخص قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرے تو وہ شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کا نافرمان ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے، مفہوم: ’’اور تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘ نیز حدیث مبارک میں بھی ایسے شخص کے بارے میں وعید آئی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)

٭ اکثر گھروں میں عورتوں کے پاس نصاب سے بھی زاید سونا موجود ہوتا ہے۔ استعمال میں ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ان پر قربانی واجب ہوگی۔ اگر قربانی کے لیے رقم موجود نہیں تو سونا بیچ کر یا قرض لے کر قربانی کرنی ہوگی۔

(بہارِ شریعت )

٭ قربانی کی کھال خاص فقراء کا حق نہیں بل کہ اسے ہر کارِ ثواب میں استعمال کرسکتے ہیں لیکن مدارس و مساجد میں دینا زیادہ بہتر ہے اور قصائی کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں ہے۔

(فتاویٰ رضویہ)۔

٭ ہر ذبیحہ پر بسم اﷲ پڑھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اﷲ پڑھنا بُھول گیا تو جانور حلال ہے مگر جان بوجھ کر ترک کیا تو حرام ہے۔ اسی طرح اگر دل میں پڑھا تو تب بھی حرام ہے۔ (بہارِ شریعت)

٭ میّت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔

٭ شہر میں نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ اگر شہر میں کسی ایک جگہ بھی نمازِ عید ہو جائے تو قربانی جائز ہے۔ دیہات یا گاؤں میں جہاں نماز عید جائز نہیں وہاں دسویں ذی الحجہ کی طلوع فجر سے قربانی کا وقت ہو جاتا ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ)

٭ قربانی کا گوشت غیر مسلم (عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ، بہ شرطے کہ حربی ہوں) کو دینا شرعاً جائز نہیں۔ اگر دے دیا تو وہ گناہ گار ہے۔ فقط توبہ کر لے قربانی ہوجائے گی یعنی غیر مسلم کو گوشت دینے کے سبب قربانی کا اعادہ کرنا واجب نہیں۔ (فتاویٰ فیض الرسول)

٭ قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال اور تعظیم کی جائے اور کوشش کی جائے کہ بہت کم تکلیف ہو، ہر وہ کام جس سے جانور کو بلاوجہ تکلیف پہنچے وہ مکروہ ہے۔ مستحب یہ ہے کہ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کر لیں۔ (درِمختار) ۔

٭ جانور کو خصی کرنا جائز ہے کہ یہ عیب نہیں کیوں کہ خصی جانو رکا گوشت بہتر ہوتا ہے (خلاصۃ الفتاویٰ) نیز حدیث مبارک میں بھی خصی جانور کے ذبح کرنے کا ذکر ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے دو مینڈھے سینگ والے چتکبرے خصی کیے ہوئے ذبح فرمائے۔ (مجمع الزوائد )

٭ جانور کو اس طرح ذبح کیا جائے کہ چاروں یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔ اگر تین رگیں کٹ گئیں تو جانور حلال ہو جائے گا، ورنہ حرام۔

٭ خریدتے وقت جانور میں کوئی ایسا عیب نہ تھا۔ جس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہوتی ہے، ا س کے بعد عیب پیدا ہوا تو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ شخص نصاب کا مالک ہے، تو دوسرے جانور کی قربانی دے اور اگر مالکِ نصاب نہیں تو اسی کی قربانی کرے۔

٭ اگر قربانی کا جانور مر جائے تو مال دار پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے جب کہ فقیر پر دوسرا جانور خریدنا لازم نہیں۔

٭ اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو اس کے پاس کھڑے رہیں۔ ذبح سے پہلے قربانی کی دُعا پڑھیں، پھر جانور کی گردن پر چھری رکھیں اور بلند آواز سے پڑھیں بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ یہ تکبیر ذبح کرنے والا پڑھے اور اگر آپ نے بھی چھری پر ہاتھ رکھا ہوا ہے تو آپ بھی پڑھیں۔ جانور کی چار یا تین رگیں کاٹنا ضروری ہے۔ نہ تو اس سے کم ہوں اور نہ ہی زیادہ۔ جانور کو ذبح کرنے کے بعد دعا پڑھیں۔

جب جانور ٹھنڈا ہو جائے اور روح بالکل نکل جائے تو کھال اُتاریں اور گوشت تیار کرنے کے بعد اگر گائے میں شراکت تھی تو ترازو سے تول کر سات حصے برابر کریں۔ صرف اندازے سے تقسیم جائز نہیں۔ بکری ہو یا گائے کا ساتواں حصہ جو آپ کو ملا اس گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ گھر میں رکھ لیں، دوسرا حصہ دوست احباب اور رشتے داروں کو دیں اور تیسرا حصہ غرباء و مساکین میں تقسیم کریں۔ جانور کی رسی، اس پر ڈالا گیا کپڑا اور گلے کا ہار وغیرہ صدقہ کر دیں۔

پڑھنا جاری رکھیں

دنیا

بیت المقدس اسرائیلی فوج کی جارحیت کے باوجود تکبیرات سے گونج اٹھا

پابندیوں کے باجود 40 ہزار سے زائد فلسطینی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر عید الاضحیٰ کی نماز ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

بیت المقدس اسرائیلی فوج کی جارحیت کے باوجود تکبیرات  سے گونج اٹھا

بیت المقدس میں اسرائیلی فوج کی جارحیت، بےجا رکاوٹوں اور پابندیوں کے باجود 40 ہزار سے زائد فلسطینی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر عید الاضحیٰ کی نماز ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کے لیے آنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں توڑ پھوڑ کی، نمازیوں کے شناختی کارڈز چیک کرکے ان کے ہراساں کیا، نمازیوں کی نقل و حرکت میں خلل ڈالا۔

اسرائیلی فوجیوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو عید کی نماز کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ جس سے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔

اردن کے زیر انتظام مسجد اقصیٰ کی اسلامی وقف کے انچارج نے اعلان کیا کہ اسرائیلی بندشوں اور ہزاروں افراد کو داخلے سے روکنے کے باوجود 40 ہزار سے زائد فلسطینی نمازِ عید ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جن فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی فوج نے تشدد کا نشانہ بناکر مسجد اقصیٰ سے نکالا تھا انہوں نے مسجد کے باہر صفیں بنالیں اور نماز ادا کی۔

دوسری جانب غزہ میں بے گھر فلسطینیوں نے تباہ علاقے میں اپنے گھروں کے ملبے پر نماز عید ادا کی۔ اس موقع پر غزہ کے غیور عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll