جی این این سوشل

پاکستان

وزیر منصوبہ بندی کی چین کو پاکستان میں ٹیکنالوجی پارکس قائم کرنے کی دعوت

وزیرمنصوبہ بندی نے متعلقہ ماہرین کو بھی دعوت دی کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں اور حکام اور کاروباری شخصیات سے روابط رکھیں

پر شائع ہوا

کی طرف سے

وزیر منصوبہ بندی کی چین کو     پاکستان میں ٹیکنالوجی پارکس قائم کرنے کی دعوت
جی این این میڈیا: نمائندہ تصویر

منصوبہ بندی وترقی کے وزیر احسن اقبال نے چینی کاروباری افراد کو پاکستان کی ترقی بلخصوص سی پیک کے دوسرے مرحلے میں شرکت کی دعوت دی ہے ۔

انہوں نے سی چین میں چینگڈو شہر کے دورے کے دوران چینی تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں ٹیکنالوجی پارکس قائم کریں۔

تاجروں نے اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے پر آمادگی ظاہر کی ۔

وزیرمنصوبہ بندی نے متعلقہ ماہرین کو بھی دعوت دی کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں اور حکام اور کاروباری شخصیات سے روابط رکھیں ۔

اس موقع پر موجود پاکستانی تارکین وطن نے اپنی کامیابیوں اور پاکستان وطن واپس جاکر مثبت کردار ادا کرنے کی خواہش کااظہارکیا ۔

پاکستان

اگر فوج غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہو چکی ہے تو یہ اچھی بات ہے، عمران خان

اگر یہ غیر سیاسی ہیں تو میجر، کرنل اور آئی ایس آئی کا جیل میں کیا کام ہے، بانی چیئرمین کا ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر درعمل

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

اگر فوج  غیر جانبدار اور غیر  سیاسی ہو چکی ہے تو یہ اچھی بات ہے، عمران خان

سابق وزیر اعظم اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر فوج غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہو چکی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروس پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہیں۔ . وہ اب سے غیر سیاسی ہو گئے تو ملک کے لیے اچھا ہو گا۔ لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پہلے سے ہی غیر سیاسی ہیں تو اس سے بڑی غلط بیانی کوئی نہیں ہو سکتی۔

عمران خان نے کہا کہ اگر یہ غیر سیاسی ہیں تو میجر، کرنل اور آئی ایس آئی کا جیل میں کیا کام ہے؟

انہوں نے ملک اور خدا کی خاطر غیر سیاسی ہونے کی درخواست کی۔ صرف الفاظ سے کوئی غیر سیاسی نہیں بن سکتا، عمل کرنا پڑتا ہے۔

عمران خان نے الزام لگایا کہ 9 مئی کو پارٹی ختم کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ 9 مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنی چاہیے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ انہیں جنرل فیض کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں جو جنرل باجوہ کی اجازت سے ملنے آتے تھے اور انہیں رپورٹ کیا کرتے تھے۔ جنرل باجوہ کے بغیر فیض کا ٹرائل بدنیتی پر مبنی ہے، جنرل فیض جنرل باجوہ کے ماتحت تھے۔ قمر جاوید کو اس لیے باہر رکھا جا رہا ہے کہ انہوں نے حکومت بدلی، اگر ان پر مقدمہ چلایا گیا تو وہ تمام راز فاش کر دیں گے۔

 

پڑھنا جاری رکھیں

تجارت

سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بھی بڑا اضافہ

سونے کی قیمت میں 1400 روپے اضافے 2 لاکھ 63 ہزار 500 روپے ہوگئی ہے

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بھی بڑا اضافہ

سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بھی بڑا اضافہ، عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت ایک بار پھر بڑھ گئیں۔

آل پاکستان جیمز اینڈ جیولر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں سونے کی قیمت میں 1400 روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد فی تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ 63 ہزار 500 روپے ہوگئی ہے۔

ایسوسی ایشن کے مطابق اسی طرح 10 گرام سونا 1200 روپے بڑھ کر 2 لاکھ 25 ہزار 908 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ملک بھر میں مسلسل 2 روز کمی کے بعد سونے کی فی تولہ قیمت میں 2 ہزار روپے کا اضافہ ہوا تھا، جس کے بعد فی تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ 62 ہزار 100روپے ہوگئی تھی۔

اسی طرح 10 گرام سونا 1714 روپے بڑھ کر 2 لاکھ 24 ہزار 708 روپے کا ہوگیا تھا جبکہ سونے کی قیمت میں 22 ڈالر کا اضافہ ہونے سے نئی قیمت 2503 ڈالر کی سطح پر آ گئی تھی۔

 بین الاقوامی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں 15 ڈالر کا اضافہ ہونے سے نئی قیمت 2518 ڈالر کی سطح پر آ گئی۔

پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان

خیبر پختونخوا کے ہندوں ، سکھوں کے میرج ایکٹ2017 کے تحت مسائل حل نہ ہوسکے

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے  میرج ایکٹ تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں

پر شائع ہوا

ویب ڈیسک

کی طرف سے

خیبر پختونخوا کے ہندوں  ،  سکھوں کے  
 میرج ایکٹ2017 کے تحت   مسائل حل نہ ہوسکے

آزادی کے 77سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے ہندوں اور سکھوں کے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے ۔ 
خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا جاسکا ۔ ہندوں برادری کے شادی کے بندھن کے کچے ڈور پکے نہ ہوسکے تو میتوں کے انتم سنسکار کیلئے صوبائی دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کا قضیہ تاحال حل طلب ہے۔ وطن عزیز کے آزادی کے 77سال گزرنے کے باوجود اقلیتی برادری کئی اہم مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئےہندوں  میرج ایکٹ2017میں تو بنایا گیاہے تاہم اس قانون کے رولز آف بزنس کا تاحال کوئی وجود نہیں جس کی وجہ سے ہندوں کی اپنے مذہب کے لحاظ شادی کی  رسومات کی ادائیگی تو ہو جاتی ہے لیکن سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کو قانونی تحفظ نہیں ملتا اور  علیحدگی کی صورت میں خواتین کو حاص طور پر کئی مشکلات درپیش ہوتی ہے ۔
اسی حوالے سے جی این این میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندوں کمیونٹی کے مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے   فوکل پرسن ہارون سرب دیال  کا کہنا تھا  کہ ایکٹ کو بنے 7سال اور 4 ماہ ہوگئے ہیں ، لیکن اگر رولز نہیں ہے تو اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا ۔

ایکٹ میں ہندوں کے شادی ،علیحدگی ،اموات کی صورت میں سیکسشن اور وراثت  کےلئے قوانین تو موجود ہے لیکن رولز کی صورت میں طریقہ کار تاحال وضعہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف اگر عدالتوں کی بات کی جائے تو لوئر کورٹس سے اعلی عدالتوں تک درجنوں مقدمات التواء کا شکارہیں ۔
ہندوں مذہب کے مطابق شادیاں تو ہو جاتی ہیں لیکن اس کا سرٹیفکیٹ یا شادی پرتھ نہیں بن سکتا حالانکہ ایکٹ میں اس 25 شرائط موجود ہے جس میں میاں بیوی کی صحت ،عمر ،بیماریوں ،پہلے سے شادی شدہ ہونے اور اسی طرح گواہان اور شادی کرانے والے کے حوالے سے قوانین درج ہیں لیکن سرکاری میں اس شادی کو رجسٹرڈ کرنے کی صورت میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اسی کے ساتھ اگر کسی شادی شدہ جوڑے کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ آجائے تو عدالت میں سب سے پہلے شادی کا سرٹیفیکیٹ یا شادی پرتھ مانگا جاتا ہے پھر بچوں کے مینٹینشش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کے حوالگی کے مسائل الگ ہیں جس کےلئے ایکٹ کی وضاحت  یعنی رولز کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
ہندوں میرج ایکٹ  کے رولز نہ بننے پر ہاروں سرب دیال کے اظہار خیال کی تصدیق کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مہوش محب کاکا خیل جی این این کوبتایا  کہ رولز نہ ہونے سے شادیاں ،بچوں کی پیدائش اور فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں بن رہا ،جس کی وجہ سے بچوں کو نہ صرف سکول میں داخلہ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ ہندوں خاندانوں کو سفر میں بھی مشکلات  پیش آرہی ہوتی ہے ۔ 

اگر شادیاں رجسٹرڈ نہیں تو قانونی طور پر ہندوں جوڑوں کی علیحدگی کی صورت میں عدالت میں کیس دائر کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔طلاق کی صورت میں بچوں کا مسئلہ سامنے آتا چونکہ رجسٹریشن نہیں ہوتی تو اکثر اوقات شوہر بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے پھر اس کی وجہ سے خواتین کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عدالت کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ انکی شادی رجسٹرڈ کیوں نہیں ہے ،یہ بچے کس کےہیں جیسے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ شادی کہاں رجسٹرڈ کروانی ہے بڑے شہروں میں یونین کونسل یا نیبر ہوڈ کونسل ہیں جن میں اکثریتی جگہوں پر انکے نمائندے موجود نہیں کیونکہ کسی بھی شادی کو رجسٹرڈ کرنے کےلئے اس کمیونٹی کے نمائندوں کا ہونا بہت ضروری   اس کے ساتھ انکو اس حوالے سے کوئی آگاہی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے قانونی تقاضی پورے نہیں ہو رہے ہیں اور ہرطرف مشکلات ہی مشکلات ہے ۔مہوش محب کاکا خیل نے  جائیداد میں  وراثت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وراثت کی تقسیم اور حصول ہندوں کمیونٹی کےلئے  بہت بڑا مسئلہ ہے اگر شادی پرتھ  رجسٹرڈ نہیں تو پھر کسی کے بیوی بچے جائیداد میں حصہ کا دعوی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح بیوہ ہندو خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔علیحدگی کی صورت میں اگر کسی خاتون کے بچے ہوں تو انکے خرچہ کا مسئلہ آجاتا ہے اور اکثر شوہر بچوں سے انکار کردیتا ہے ۔شادی رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہے جس کے مثبت حل کےلئے رولز کا وجود میں آنا بہت ضروری ہے۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کےلئے اگر ہندوں کمیونٹی کو مشکلات کا سامنا ہے تو زندگی کے قید سے آزاد ہونے کےلئے ہندووں اور سیکھوں کو پشاور میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے وجہ سے بھی دشواریاں درپیش ہیں، ہندووں اور سکھوں کےلئے اپنے پیاروں کی آخری رسومات احسن طریقے سے ادا کرنے کےلئے انہیں شمشان گھاٹ میں جلانا بہت ضروری ہے جہاں دونوں کمیونٹیز کے لوگ اپنے پیاروں کو جلانے کے بعد انکے سولہویں سنسکار کے طور پر انکی استیوں کو دریاں میں بہایا جاتا ہے ۔

مذہبی اعتبار سے شمشان گھاٹ کاآبادی سے دور اور دریاں کے کنارے ہونا  اس کے اہم تقاضوں میں شامل ہے لیکن پشاور کے ہندوں اور سکھ برادری اپنے پیاروں کو 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر بنائے گئے شمشان گھاٹ لیکر جاتے ہیں جس پر وقت اور پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہے  اور اکثر غریب افراد اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں ۔

سکھ کمیونٹی کے رہنما اور سماجی شخصیت بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں سکھ اور ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ  مسئلے کے حل کےلئے انہوں نے عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا اور عدالتی احکامات کی روشنی  میں جہاں صوبائی حکومت نے شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کے جگہ کےلئے رقم  مختص کی وہی پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے ہمیں جگہیں بھی دیکھا دئیے لیکن یا تو وہ جگہیں شرائط پر پورا نہیں اتررہے تھے  اور یا وہاں کی مقامی آبادی نے اعتراض اُٹھا جس کی وجہ سے تاحال ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ حل نہ ہو سکا ۔
اس کی وجہ سے ہمارے مردوں کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ استطاعت نہ رکھنے والے افراد مجبورا اپنے پیاروں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔ 

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندوں کی مذہبی شخصیت اور خیبر پختونخوا سے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رایٹس کے فوکل پرسن ہارون سرب دیال  نے کہا کہ ایک تو پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں دوسری بات یہ کہ جہاں شمشان گھاٹ موجود ہے وہاں بھی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے مثلا کوہاٹ میں شمشان گھاٹ دشوار گزار علاقے میں ہیں جہاں میت کو جلانے کے بعد استیاں 52کلومیٹر دور خوشحال گڑھ لیکر جانا پڑتا ہے جبکہ پشاور سے 75کلومیٹر دور اٹک کے مقام پر شمشان گھاٹ تو موجود ہے لیکن دور ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور وہاں رسومات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہے ہیں ۔مثال کے طور پر استیوں کو دریا میں بہانے کےلئے اٹک کے مقام پر سیڑھیاں موجود نہیں اسلئے حکومت سے مطالبہ بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے ہیں کہ نوشہرہ حکیم آباد میں جگہ ہیں جو دریا کے کنارے اور آبادی سے دور بھی اور وہ ہمارے لئے مقدس بھی جبکہ پشاور ،نوشہرہ اور مردان سے آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے جس پر کسی کا اعتراض بھی نہیں لہذا اس جگہ اگر شمشان گھاٹ تعمیر کیا جائے تو سب کےلئے قابل قبول ہوگا ۔

سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما روی کمار سے جب ہندو اور سکھ کمیونٹی کے مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو روی کمار نے جی این این کو بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کےلئے سابق دور حکومت میںٰ کام شروع ہوا جس میں ہمارے تھینک ٹینکس نے اہم کردار ادا کیا ۔ تھینک ٹینکس نے رولز کے حوالے سے  سفارشات مرتب کئے جس کو سٹیڈی کرنے کے بعد سات اعتراض لگائے گئے تاہم وہ ساتھ اعتراض بھی ختم کردیئے گئے ہیں جس کے بعد ان رولز کو صوبائی کابینہ سے بہت جلد پاس کرایا جائے گا۔
روی کمار نے شمشان گھاٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف شمشان گھاٹ بلکہ مسیحی قبرسانوں کےلئے بھی  گزشتہ دور حکومت میں سیکشن فور لگا کر کام شروع کیا گیا تھا تاہم بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کے اعتراضات یا شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زمین مختص نہیں ہوئی ۔

اس کے بعد سٹیٹ لینڈ کیلئے  حکومت سے درخواست کی گئی لیکن کچھ سیاسی وجوہات کے بنا پر صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نگران حکومت میں اس کام کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا  تاہم نئے حکومت آنے کے بعد اب جیسے ہیں محصوص نشستوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس پر دوبارہ کام کا آغاز کرینگے تاکہ یہ دیرینہ مسائل حل ہو جائے 
قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ اقلیتوں کو بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہے اور تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق جس کےلئے حکومت کو بھی چاہئے کہ انہیں تمام حقوق دیئے جائے ۔

رپورٹ سید کامران علی شاہ  (رپورٹر پشاور بیورو)

 

پڑھنا جاری رکھیں

ٹرینڈنگ

Take a poll